سید فصیح احمد
لائبریرین
اندھا بھکاری:کھڑکی کب کھلے گی؟
منی:جب مسافر کھانا کھا چکیں گے۔
اندھا بھکاری:مسافر کب کھانا ختم کریں گے؟
منی:جب کھڑکی کھلے گی۔
اندھا بھکاری:جب کھڑکی کھلے گی۔۔۔ کب کھڑکی کھلے گی؟میں کچھ نہیں جانتا۔ منی تو کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ جب سے میری آنکھوں میں روشنی نہیں رہی، مجھے وقت پر بھیک کی روٹی بھی کوئی نہیں لا دیتا۔ منی کی اماں کیا تمہارے پاس تھوڑی سی روٹی بھی نہیں ہے۔ ہاں نہیں ہو گی۔۔۔ میں اندھا ہوں۔۔۔ بوڑھا ہوں۔۔۔ اپنی گستاخ بیٹی کا محتاج ہوں۔
بھکارن:صبر کرو، اب تھوڑی دیر میں بی بی کھڑکی کھولے گی۔ پھر تمہیں پیٹ بھر کھانا ملے گا۔ آج سرائے میں بہت سے مسافر آئے ہیں میں تو ہر روز دعا مانگتی رہتی ہوں کہ سرائے مسافروں سے بھری رہے تا کہ ان کی پلیٹوں سے بہت سا جھوٹا کھانا ہمارے لئے بچ جایا کرے۔
منی:لیکن اماں بعض مسافر تو اتنے پیٹو ہوتے ہیں کہ پلیٹیں بالکل صاف کر دیتے ہیں اور کھانا تو ذرا بھی نہیں بچتا۔ ایسے موقع پر اگر بی بی سچ مچ مہربان نہ ہو تو۔۔۔
بھکارن:بری باتیں منھ سے نہ نکال، وہ سب کا والی ہے۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ آج کتنی تیز سردی ہے۔ منی آگ ذرا تیز کر دے۔
(الاؤ کی لکڑیاں ادھر ادھر کرتی ہے۔)
منی:یہ چیڑ کی لکڑیاں دھواں زیادہ دیتی ہیں آگ کم۔
بھکارن:تو جنگل سے کاؤ کی لکڑیاں چن کر لایا کر، میں نے تجھ کئی بار سمجھایا ہے۔
منی:ماں ، کاؤ کا جنگل بہت گھنا ہے۔ مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے۔
بھکارن:باؤلی ہوئی ہے۔ ڈر کا ہے کا؟
اندھا بھکاری:منی دیکھ، ابھی کھڑکی کھلی کہ نہیں۔ یہ کون آ رہے ہیں؟
منی:مسافر ہیں ، سرائے کے اندر جا رہے ہیں۔ اچھا میں جا کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوتی ہوں۔ ابا، امید ہے کہ اب کے کچھ نہ کچھ ضرور ہی ہو گا۔ (چلی جاتی ہے۔)
بھکارن:تم نے سنا۔ منی کو کاؤ کے جنگل میں لکڑیاں چننے سے ڈر لگتا ہے۔
اندھا بھکاری:ہاں منی جوان ہو گئی ہے۔
بھکارن:تم اس کا بیاہ کیوں نہیں کر دیتے۔
اندھا بھکاری:اس قصبے میں تو کوئی ایسا بھک منگا ہے نہیں یہ سنا ہے کہ شہروں کے بھک منگے بڑے امیر ہوتے ہیں مجھے ایک دفعہ سرائے کا ایک مسافر بتا رہا تھا کہ اس نے ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک شہر میں ، مجھے اس شہر کا نام یاد نہیں رہا۔ بھلا سا نام تھا۔ایک بھک منگا رہتا تھا جب وہ مرا تو منی کی اماں ، ساٹھ ہزار روپیہ چھوڑ کر مرا۔ساٹھ ہزار روپیہ کتنا ہوتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے؟
بھکارن:نہیں۔ پر میں سوچتی ہوں کہ میری منی کو بھی کوئی ایسا ہی بھک منگا مل جائے۔
اندھا بھکاری:تم نے تو میری بات نہیں مانی۔ وہ بنیا پانسو روپئے دیتا تھا، اسی کے پلے باندھ دیتے۔منی کی زندگی بھی سدھر جاتی اور ہم بھی۔
بھکارن:تم کیا کرتے ان پانسو روپئے
اندھا بھکاری:ان پانسو روپئے سے میں پھر ایک قطعہ زمین خرید لیتا۔ گائیں رکھتا، بھیڑ بکریاں۔ میرا ایک چھوٹا سا خوبصورت گھر ہوتا۔ کچی مٹی کا بنا ہوا۔ کھڑیا مٹی سے تپا ہوا۔ منی کی اماں ، تجھے کیا معلوم ہے کہ بھکاریوں کی ٹولی میں داخل ہونے سے پہلے میں ایک کسان تھا۔
____________________________________________________________________________________
کرشن چندر کے ڈرامے "سرائے کے باہر" سے اقتباس۔
مکمل ڈرامہ مطالعہ کے لیئے یہاں دستیاب ہے۔
منی:جب مسافر کھانا کھا چکیں گے۔
اندھا بھکاری:مسافر کب کھانا ختم کریں گے؟
منی:جب کھڑکی کھلے گی۔
اندھا بھکاری:جب کھڑکی کھلے گی۔۔۔ کب کھڑکی کھلے گی؟میں کچھ نہیں جانتا۔ منی تو کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ جب سے میری آنکھوں میں روشنی نہیں رہی، مجھے وقت پر بھیک کی روٹی بھی کوئی نہیں لا دیتا۔ منی کی اماں کیا تمہارے پاس تھوڑی سی روٹی بھی نہیں ہے۔ ہاں نہیں ہو گی۔۔۔ میں اندھا ہوں۔۔۔ بوڑھا ہوں۔۔۔ اپنی گستاخ بیٹی کا محتاج ہوں۔
بھکارن:صبر کرو، اب تھوڑی دیر میں بی بی کھڑکی کھولے گی۔ پھر تمہیں پیٹ بھر کھانا ملے گا۔ آج سرائے میں بہت سے مسافر آئے ہیں میں تو ہر روز دعا مانگتی رہتی ہوں کہ سرائے مسافروں سے بھری رہے تا کہ ان کی پلیٹوں سے بہت سا جھوٹا کھانا ہمارے لئے بچ جایا کرے۔
منی:لیکن اماں بعض مسافر تو اتنے پیٹو ہوتے ہیں کہ پلیٹیں بالکل صاف کر دیتے ہیں اور کھانا تو ذرا بھی نہیں بچتا۔ ایسے موقع پر اگر بی بی سچ مچ مہربان نہ ہو تو۔۔۔
بھکارن:بری باتیں منھ سے نہ نکال، وہ سب کا والی ہے۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ آج کتنی تیز سردی ہے۔ منی آگ ذرا تیز کر دے۔
(الاؤ کی لکڑیاں ادھر ادھر کرتی ہے۔)
منی:یہ چیڑ کی لکڑیاں دھواں زیادہ دیتی ہیں آگ کم۔
بھکارن:تو جنگل سے کاؤ کی لکڑیاں چن کر لایا کر، میں نے تجھ کئی بار سمجھایا ہے۔
منی:ماں ، کاؤ کا جنگل بہت گھنا ہے۔ مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے۔
بھکارن:باؤلی ہوئی ہے۔ ڈر کا ہے کا؟
اندھا بھکاری:منی دیکھ، ابھی کھڑکی کھلی کہ نہیں۔ یہ کون آ رہے ہیں؟
منی:مسافر ہیں ، سرائے کے اندر جا رہے ہیں۔ اچھا میں جا کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوتی ہوں۔ ابا، امید ہے کہ اب کے کچھ نہ کچھ ضرور ہی ہو گا۔ (چلی جاتی ہے۔)
بھکارن:تم نے سنا۔ منی کو کاؤ کے جنگل میں لکڑیاں چننے سے ڈر لگتا ہے۔
اندھا بھکاری:ہاں منی جوان ہو گئی ہے۔
بھکارن:تم اس کا بیاہ کیوں نہیں کر دیتے۔
اندھا بھکاری:اس قصبے میں تو کوئی ایسا بھک منگا ہے نہیں یہ سنا ہے کہ شہروں کے بھک منگے بڑے امیر ہوتے ہیں مجھے ایک دفعہ سرائے کا ایک مسافر بتا رہا تھا کہ اس نے ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک شہر میں ، مجھے اس شہر کا نام یاد نہیں رہا۔ بھلا سا نام تھا۔ایک بھک منگا رہتا تھا جب وہ مرا تو منی کی اماں ، ساٹھ ہزار روپیہ چھوڑ کر مرا۔ساٹھ ہزار روپیہ کتنا ہوتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے؟
بھکارن:نہیں۔ پر میں سوچتی ہوں کہ میری منی کو بھی کوئی ایسا ہی بھک منگا مل جائے۔
اندھا بھکاری:تم نے تو میری بات نہیں مانی۔ وہ بنیا پانسو روپئے دیتا تھا، اسی کے پلے باندھ دیتے۔منی کی زندگی بھی سدھر جاتی اور ہم بھی۔
بھکارن:تم کیا کرتے ان پانسو روپئے
اندھا بھکاری:ان پانسو روپئے سے میں پھر ایک قطعہ زمین خرید لیتا۔ گائیں رکھتا، بھیڑ بکریاں۔ میرا ایک چھوٹا سا خوبصورت گھر ہوتا۔ کچی مٹی کا بنا ہوا۔ کھڑیا مٹی سے تپا ہوا۔ منی کی اماں ، تجھے کیا معلوم ہے کہ بھکاریوں کی ٹولی میں داخل ہونے سے پہلے میں ایک کسان تھا۔
____________________________________________________________________________________
کرشن چندر کے ڈرامے "سرائے کے باہر" سے اقتباس۔
مکمل ڈرامہ مطالعہ کے لیئے یہاں دستیاب ہے۔