بھٹو کیوں زندہ ہے؟

جاسم محمد

محفلین
بھٹو کیوں زندہ ہے؟

حامد میر

04 اپریل ، 2019
کیا آپ جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد راولپنڈی جیل میں ان کی لاش ایک فوٹو گرافر کے حوالے کر دی گئی اور یہ فوٹو گرافر لاش کا پاجامہ اتار کر بھٹو صاحب کے پوشیدہ اعضاء کی تصاویر بناتا رہا؟ اس جیل کے سکیورٹی انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ’’بھٹوکےآخری 323دن ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ فوٹو اس لئے بنوائے گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟ جنرل ضیاءالحق کی حکومت نے جیل حکام کو بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ماں ہندو تھی جسے ان کے والد نے زبردستی اپنی بیوی بنایا تھا اور بھٹو صاحب کا اصلی نام نتھا رام تھا تاہم کرنل رفیع الدین نے گواہی دی ہے کہ جب فوٹوگرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے بہت نزدیک سے فوٹو لئے تو پتا چلا کہ ان کا اسلامی طریقے سے ختنہ ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن ان کی موت آج بھی ایک راز ہے۔ کرنل رفیع الدین نے لکھا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو وہ بھوک ہڑتال پر تھے اور جیل میں ان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا تھا لیکن بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو یقین تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے روزنامہ جنگ کے لئے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ان کی گردن ٹوٹی نہ گردن پر پھانسی کا کوئی نشان تھا۔ یہ انٹرویو جی این مغل کی بیگم نصرت بھٹو کے بارے میں کتاب ’’مادرِ جمہوریت‘‘ میں شامل ہے۔1992ءمیں بیگم صاحبہ کا یہ انٹرویو شائع ہوا اور اسی زمانے میں صادق جعفری کی کتاب(WAS BHUTTO KILLED BEFORE HANGING?)’’کیا بھٹو کو پھانسی سے پہلے مار دیا گیا؟‘‘شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی محمود احمد بھٹو اور بھٹو خاندان کے ایک ملازم عبدالقیوم تنولی سمیت ایسے کئی عینی شاہدوں کے بیانات شامل ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی گردن سلامت تھی اور پھانسی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ 1979ء میں بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنے ایک نوجوان افسر کیپٹن صولت رضا کو ایک فلم ایڈیٹنگ کے لیے دی تھی جس میں بھٹو صاحب کا جسدِ خاکی نظر آ رہا تھا۔ صولت رضا بریگیڈیئر بن کر ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ایک کالم میں لکھا کہ ’’یہ غسلِ میت سے پہلے کا منظر تھا‘‘۔ اسی کالم میں بریگیڈیئر (ر) صولت رضا نے لکھا کہ ’’اللہ شاہد ہے کہ پھانسی کے شارٹس اس فلم میں نہیں تھے‘‘۔ ایڈیٹنگ کے بعد یہ فلم میجر جنرل مجیب الرحمٰن کے حوالے کردی گئی۔ صولت رضا کی یہ گواہی ان کی کتاب ’’غیر فوجی کالم‘‘ میں محفوظ ہو چکی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کے جسد خاکی کے فوٹو اور فلم کیوں بنوائی؟

جنرل ضیاء اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قتل کر رہے تھے جس کے لیے دنیا بھر سے جان بخشی کی اپیلیں کی جا رہی تھیں۔ ترکی کے وزیراعظم بلند ایجوت نے پیشکش کی تھی کہ اگر بھٹو کی جان بخش دی جائے تو بھٹو سیاست نہیں کریں گے اور ترکی کے مہمان بن کر رہیں گے لیکن بھٹو نے اس قسم کے کسی معاہدے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔ جنرل ضیاء یہ بھی جانتا تھا کہ مردہ بھٹو اس کے لیے زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا مردہ بھٹو کی کردارکشی کے لئے ان کے جسد خاکی کی بے حرمتی کی گئی۔ برہنہ جسم کی تصویریں اور فلم دیکھ کر جنرل ضیاء کو کتنا غصہ آیا ہو گا؟ کتنی مایوسی ہوئی ہوگی؟ بھٹو کے ختنوں نے بھی جنرل ضیاء کو شکست دے دی۔ بھٹو کی موت کے بعد سے مسلسل یہ نعرہ گونج رہا ہے ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔ بھٹو کے سارے دشمن مرگئے بھٹو آج بھی کیوں زندہ ہے؟ بھٹو کی موت نے پاکستان کو مضبوط نہیں کمزور کیا۔ جنرل ضیاء کہتا تھا کہ وہ بھٹو کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرکے قانون کی بالادستی قائم کرے گا لیکن جن ججوں نے بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دیا انہی میں سے ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی تھی۔ بھٹو کے عدالتی قتل نے پاکستان کی روح پر ایسے زخم لگائے ہیں جو کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مندمل نہیں ہوئے اور جب بھی کسی سیاستدان کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے تو اس کے حامی سقراط کو یاد کرتے ہیں یا بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔ نوازشریف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک زمانے میں وہ کہتے تھے کہ میں بھٹو کی بیٹی کا نام سننا پسند نہیں کرتا کیونکہ بھٹو نے پاکستان توڑا۔ جب انہیں عدالت نے نااہل قرار دیا تو ان کی جماعت مسلم لیگ (ن)نے نواز شریف کا بھٹو سے تقابل شروع کردیا۔ بھٹو کی اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو بھٹو کے نظریات اور منشور میں زیادہ دلچسپی نہیں لیکن جب انہیں اپنے لیے خطرہ نظر آتا ہے تو یہ بھٹو کا نام لینے لگتے ہیں۔ آج کے سیاستدانوں کو بھٹو کی زندگی اور موت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھٹو کی غلطیوں میں بھی سبق ہے اور ان کے کارناموں میں بھی سبق ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ 1970ءکے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ وہ کوئی سمجھوتہ نہ کر سکے۔ انہیں اقتدار اکثریتی جماعت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا لیکن اکثریتی جماعت کے خلاف ملٹری آپریشن ہو گیا اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت برطرف کی، نیپ پر پابندی لگائی اور فوجی آپریشن کی منظوری دی۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کو منظم کرنے پر توجہ نہ دی، پرانے ساتھیوں کو نظر انداز کیا اور مفاد پرستوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیا۔ مشکل وقت آیا تو یہ مفاد پرست غائب ہو گئے۔ 1973ءکا متفقہ آئین بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس نے آج بھی پاکستان کو قائم رکھا ہوا ہے لیکن ان کا اصل جرم ایٹمی پروگرام تھا۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا تھا۔ آئی ایس آئی کے ایک افسر بریگیڈیئر (ر) سید ارشاد ترمذی نے اپنی کتابPROFILES OF INTELLIGENCE میں صاف صاف لکھا ہے کہ انہوں نے خود واشنگٹن سے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کو بھیجا جانے والا وہ خفیہ پیغام پکڑا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بھٹو کی موت کو یقینی بنایا جائے۔ آگے چل کر بریگیڈیئر ترمذی نے دستاویزی شہادتوںکے ساتھ لکھا ہے کہ بھٹو کا اصل جرم پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانا تھا اور اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کے حکم پر سپریم کورٹ کے ساتھ مل کر بھٹو کو پھانسی کے گھاٹ اتار دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اگر چاہتے تو ڈیل کر سکتے تھے۔ رہائی پا سکتے تھے لیکن انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر موت کو گلے لگایا۔ وہ جیل میں لکھی گئی کتاب ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں لکھتے ہیں، میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا۔ اگر وہ ڈیل کر لیتے تو فوج کے ہاتھوں بچ جاتے اور تاریخ کے ہاتھوں مارے جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اور کارنامہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی وراثت اپنی بیٹی کے حوالے کرکے ایک ایسا فیصلہ کیا جو ان کی سیاسی بقا کی ضمانت بنا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جرأت و بہادری نے بھی بھٹو کو زندہ رکھا اور پھر بے نظیر بھٹو بھی اسی شہر میں ماری گئیں جہاں ان کے والد کو مارا گیا تھا۔ باپ اور بیٹی نے بہادری سے موت کو گلے لگا کر اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ یہ دونوں تو آج بھی زندہ ہیں۔ اب ذرا اس کے بارے میں سوچئے جو بھٹو کے جسد خاکی کے فوٹو بنوا رہا تھا۔ اسے بھی انہوں نے مروا دیا جن کے حکم پر اس نے بھٹو کو مارا تھا۔ اللہ معاف کرے موت کے بعد اس کا جسد خاکی کسی فوٹو کے قابل نہ تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
بشری غلطیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں۔ بھٹو خود سر تھا، ضدی تھا، مگر اس وطن سے مخلص ایک دلیر اور نڈر فرد تھا۔ صاحبِ مطالعہ سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے عصری شعور سے بھی بہرہ ور تھا مگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی نذر ہو گیا۔ کوئی شک نہیں، کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے مگر افسوس اُس کی بنائی گئی پارٹی ابن الوقتوں کے سپرد ہو چکی ہے اور اب پیپلز پارٹی کا نظریاتی کارکن بھی زرداری اینڈ کمپنی سے صحیح معنوں میں متنفر ہو چکا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بشری غلطیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں۔ بھٹو خود سر تھا، ضدی تھا، مگر اس وطن سے مخلص ایک دلیر اور نڈر فرد تھا۔ صاحبِ مطالعہ سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے عصری شعور سے بھی بہرہ ور تھا مگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی نذر ہو گیا۔ کوئی شک نہیں، کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے مگر افسوس اُس کی بنائی گئی پارٹی ابن الوقتوں کے سپرد ہو چکی ہے اور اب پیپلز پارٹی کا نظریاتی کارکن بھی زرداری اینڈ کمپنی سے صحیح معنوں میں متنفر ہو چکا ہے۔

آج کل نظریاتی کارکن تو چراغ لے کر ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔

آج کا سیاسی کارکن اپنے مفاد سے جڑا رہتا ہے اور اُس پارٹی سے کہ جس سے اُس کا مفاد جُڑا ہو۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جب بُھٹو کا نظریہ ہی زندہ نہیں رہا تو بُھٹو کے زندہ رہنے یا مرجانے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔

سوائے اس کے کہ جب پپلز پارٹی کے لیڈروں کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا تو وہ بغلیں جھانکنے کے بجائے بھٹو کو زندہ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بے چارے حامد میر کو ہر سال بھٹو پر ایک کالم لکھنا پڑتا ہوگا۔

روز نئے نئے کالم لکھنا بھی کتنا مشکل اور بورنگ کام ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بشری غلطیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں۔ بھٹو خود سر تھا، ضدی تھا، مگر اس وطن سے مخلص ایک دلیر اور نڈر فرد تھا۔ صاحبِ مطالعہ سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے عصری شعور سے بھی بہرہ ور تھا مگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی نذر ہو گیا۔ کوئی شک نہیں، کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے مگر افسوس اُس کی بنائی گئی پارٹی ابن الوقتوں کے سپرد ہو چکی ہے اور اب پیپلز پارٹی کا نظریاتی کارکن بھی زرداری اینڈ کمپنی سے صحیح معنوں میں متنفر ہو چکا ہے۔
نہ جانے یہ ملک سے کیسی مخلصی تھی جو بھٹو نے عوامی سیاست اپنے بل بوتے کی بجائے ایک ڈکٹیٹر کی کابینہ سے شروع کی۔ جس نے ایوب دور کے صنعتی انقلاب کو نیشنلائز کر کے آئندہ ۴۰ سالوں کیلئے ملکی معیشت کی بینڈ بجا دی۔ جس کی مخلصی نے ملک کو ایسا کرپٹ آئینی پارلیمانی نظام دیا جہاں آج ہر ۵ سال بعد چوروں، لٹیروں کی فوج منتخب ہوتی ہے۔ جس نے ملک کو ایسا ایٹمی بم دیا جسے قوم نہ کھا سکتی ہے نہ پہن سکتی نہ اس میں رہ سکتی ہے۔ الٹا پوری دنیا اس بم کے خوف سے پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائے بیٹھی ہے۔
ان جاہلانہ اقدامات کی بجائے اگر وہ ایوب دور کا صدارتی نظام، صنعتی انقلاب اور فعال بیروکریسی کا سیٹ اپ جاری رکھتا تو آج پاکستان ایشین ٹائیگر ہوتا۔ مگر اس بائیں بازو کے سوشلسٹ فیشسٹ دماغ میں یہ سب عقل و منطق باتیں کہاں آنی تھی۔ جس کے نزدیک سرمایہ دار طبقہ ہی اصل ملک دشمن تھا۔
آج ۴۰ سال بعد ملک کا وزیر اعظم سرمایہ کاری کیلئے پوری دنیا میں سرمایہ داروں کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
نہ جانے یہ ملک سے کیسی مخلصی تھی جو بھٹو نے عوامی سیاست اپنے بل بوتے کی بجائے ایک ڈکٹیٹر کی کابینہ سے شروع کی۔ جس نے ایوب دور کے صنعتی انقلاب کو نیشنلائز کر کے آئندہ ۴۰ سالوں کیلئے ملکی معیشت کی بینڈ بجا دی۔ جس کی مخلصی نے ملک کو ایسا کرپٹ آئینی پارلیمانی نظام دیا جہاں آج ہر ۵ سال بعد چوروں، لٹیروں کی فوج منتخب ہوتی ہے۔ جس نے ملک کو ایسا ایٹمی بم دیا جسے قوم نہ کھا سکتی ہے نہ پہن سکتی نہ اس میں رہ سکتی ہے۔ الٹا پوری دنیا اس بم کے خوف سے پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائے بیٹھی ہے۔
ان جاہلانہ اقدامات کی بجائے اگر وہ ایوب دور کا صدارتی نظام، صنعتی انقلاب اور فعال بیروکریسی کا سیٹ اپ جاری رکھتا تو آج پاکستان ایشین ٹائیگر ہوتا۔ مگر اس بائیں بازو کے سوشلسٹ فیشسٹ دماغ میں یہ سب عقل و منطق باتیں کہاں آنی تھی۔ جس کے نزدیک سرمایہ دار طبقہ ہی اصل ملک دشمن تھا۔
آج ۴۰ سال بعد ملک کا وزیر اعظم سرمایہ کاری کیلئے پوری دنیا میں سرمایہ داروں کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہے۔
یہ فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے کہ کس کا نام زندہ رہے گا ۔۔۔! ہر کسی نے اپنے دورِ اقتدار میں کسی حد تک عوام کی خدمت بھی کی ہو گی۔ جنرل ایوب خان سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تاہم، ایک فرد کی غلطیوں کو نمایاں نہ کرنا اور دوسری شخصیت کی خوبیوں سے بھی صرفِ نظر کرنا مناسب نہیں ۔۔۔! ایوب خان صاحب نے اقتدار چھین کر حاصل کیا تھا۔ بھٹو صاحب نے برسراقتدار جرنیلوں کا سہارا ضرور استعمال کیا ہو گا تاہم انہیں صحیح معنوں میں اقتدار میں لانے والے عوام تھے ۔۔۔! اور، بھٹو کے کارنامے بھی ایسے کم نہ تھے کہ انہیں یک سر بھلا دیا جائے۔ چلیے، آپ کے نوے ہزار فوجی ہی دشمن کے شکنجے سے واپس لے آئے؛ اس کا کریڈٹ ہی دے دیجیے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
چلیے، آپ کے نوے ہزار فوجی ہی دشمن کے شکنجے سے واپس لے آئے؛ اس کا کریڈٹ ہی دے دیجیے۔
یہ محض عارضی گمکس ہیں۔ قوموں کی تاریخ اس قسم کی “ڈیلز” پر قائم نہیں ہوتی۔ ان نوے ہزار قیدیوں کی رہائی کا پس منظر بس اتنا سا ہے کہ اس کے بدلہ مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کو آزاد و خود مختار مملکت تسلیم کرنا پڑا تھا۔ یعنی ان قیدیوں کی رہائی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش تسلیم کرنے سے مشروط تھی۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کا اقوام متحدہ میں واضح موقف تھا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کر کے پاکستانی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے۔ جو کہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سخت بھارتی مظالم کے باوجود پاکستان کی کشمیر میں مداخلت کو کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا۔ مگر اس وقت بھٹو بھارتی فرمائش کے آگے جھک گئے اور بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔ یوں بھارت کی مشرقی پاکستان میں غیر قانونی مداخلت حلال ہو گئی :)
اگر آپ کے نزدیک یہ کارنامہ ہے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے۔ یا اسرائیلیوں کو بھی اسکے لئے پاکستانی فوجی قید کر کے رہا کرنا پڑیں گے؟ :)
 

فرقان احمد

محفلین
یہ محض عارضی گمکس ہیں۔ قوموں کی تاریخ اس قسم کی “ڈیلز” پر قائم نہیں ہوتی۔ ان نوے ہزار قیدیوں کی رہائی کا پس منظر بس اتنا سا ہے کہ اس کے بدلہ مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کو آزاد و خود مختار مملکت تسلیم کرنا پڑا تھا۔ یعنی ان قیدیوں کی رہائی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش تسلیم کرنے سے مشروط تھی۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کا اقوام متحدہ میں واضح موقف تھا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کر کے پاکستانی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے۔ جو کہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سخت بھارتی مظالم کے باوجود پاکستان کی کشمیر میں مداخلت کو کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا۔ مگر اس وقت بھٹو بھارتی فرمائش کے آگے جھک گئے اور بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔ یوں بھارت کی مشرقی پاکستان میں غیر قانونی مداخلت حلال ہو گئی :)
متفقہ آئین بھی مسٹر ایوب خان نے بنوایا ہو گا پھر۔ عوام کو سیاسی شعور بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے دیا ہو گا۔ ایٹمی پروگرام کے پرخچے آپ پہلے ہی اڑا چکے۔ پھانسی کے پھندے پر بھی کوئی ڈھول سپاہیا جھول گیا ہو گا۔ ارے صاحب! اپنا مال کہیں اور بیچیں ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
متفقہ آئین بھی مسٹر ایوب خان نے بنوایا ہو گا پھر۔ عوام کو سیاسی شعور بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے دیا ہو گا۔ ایٹمی پروگرام کے پرخچے آپ پہلے ہی اڑا چکے۔ پھانسی کے پھندے پر بھی کوئی ڈھول سپاہیا جھول گیا ہو گا۔ ارے صاحب! اپنا مال کہیں اور بیچیں ۔۔۔! :)
۱۹۷۳ کے آئین تک متفق ہوں کہ یہ بلا شبہ بھٹو کا کارنامہ ہے۔ البتہ متفقہ آئین تو اس سے پہلے (۱۹۵۶) میں بھی اسی پارلیمان سے پاس ہوا تھا۔ مگر اس کے کچھ ہی عرصہ بعد مارشل لا لگا کر معطل کر دیا گیا۔ جبکہ بھٹو کا آئین بھی کئی بار خاکیان نے معطل کیا ہے۔
اس لئے اس کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ ملک میں اصل اقتدار آج بھی انہی قوتوں کے پاس ہے جنہوں نے ملک کا پہلا متفقہ آئین معطل کیا تھا :)
 

فرقان احمد

محفلین
۱۹۷۳ کے آئین تک متفق ہوں کہ یہ بلا شبہ بھٹو کا کارنامہ ہے۔ البتہ متفقہ آئین تو اس سے پہلے (۱۹۵۶) میں بھی اسی پارلیمان سے پاس ہوا تھا۔ مگر اس کے کچھ ہی عرصہ بعد مارشل لا لگا کر معطل کر دیا گیا۔ جبکہ بھٹو کا آئین بھی کئی بار خاکیان نے معطل کیا ہے۔
اس لئے اس کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ ملک میں اصل اقتدار آج بھی انہی قوتوں کے پاس ہے جنہوں نے ملک کا پہلا متفقہ آئین معطل کیا تھا :)
اس تبصرے سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاوے؟ :) بجز اس کے کہ ۔۔۔!
حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے ۔۔۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
اس تبصرے سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاوے؟
یہ محض عوام کی خام خیالی ہے کہ خاکیان کے خلاف عوامی شعور اجاگر کر کے وہ انہیں آئین پاکستان کا پابند بنا دیں گے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خاکیان اپنی انا کی خاطر ملک توڑ تو سکتے ہیں لیکن آئین و قانون کے پابند ہو جائیں یہ نا ممکن ہے۔
کم از کم میرا جتنا تاریخ کا مطالعہ اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ خاکیان سدھرنے والی قبیل سے تعلق نہیں رکھتے۔ کرپٹ سیاست دانوں، سرمایہ کاروں، بیروکریٹس اور ججوں کے خلاف تو پھر کہیں نہ کہیں احتساب ہو جاتا ہے۔ فوج کا احتساب کون کرے گا :)
 
Top