ابن رضا
لائبریرین
محترم اساتذه كرام الف عین یعقوب آسی فاتح محمدوارث
و دیگر کی توجه دركار هے از راہِ کرم تنقید و اصلاح سے نوازیں
بحر ہزج مثمن مقبوض(مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن)
بھڑک اُٹھا ہے دل مرا نکل رہی بھڑاس ہے
جلا کے راکھ کر نہ دے یہ جو بھی آس پاس ہے
بساطِ جاں لپیٹ دی یوں عشق کے وبال نے
کہ جیت ہے نہ ہارہے ، نہ آس ہے نہ یا س ہے
نہ تَشنگی اُجاڑ دے ہنسا بسا چمن مِرا
خدایا معجزہ دکھا کہ دل بہت اداس ہے
بَجوگی کے نصیب کی نَوِشت تھی خزاں صدا
بہار پہ جو مر مٹا تِرا ہی کوئی داس ہے
اُجاڑ لی ہے زندگی عبث ہی انتظار میں
ہے زیرِ لب کہے یہ وہ مِرا یہی قیاس ہے
سکونِ دل گیامِرا متائے جاں بھی لُٹ گئی
کرے فنا خُدا اِسے یہ عشق اصل ناس ہے
جو باب وا ہے روبرو ہے آفریں ہی آفریں
نگر نگر پھرے مگر خوشی ہمیں نہ راس ہے
سوال ہی تو زندگی میں ہر جگہ کھڑے ملے
نظر نظربھٹک رہی جواب کی پیاس ہے
ہے پوچھتا کوئی اُسے کہ کون ہے ر َضا ترا
کہے ہے کوئی سر پھرا کہ عام ہے نہ خاص ہے
و دیگر کی توجه دركار هے از راہِ کرم تنقید و اصلاح سے نوازیں
بحر ہزج مثمن مقبوض(مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن)
بھڑک اُٹھا ہے دل مرا نکل رہی بھڑاس ہے
جلا کے راکھ کر نہ دے یہ جو بھی آس پاس ہے
بساطِ جاں لپیٹ دی یوں عشق کے وبال نے
کہ جیت ہے نہ ہارہے ، نہ آس ہے نہ یا س ہے
نہ تَشنگی اُجاڑ دے ہنسا بسا چمن مِرا
خدایا معجزہ دکھا کہ دل بہت اداس ہے
بَجوگی کے نصیب کی نَوِشت تھی خزاں صدا
بہار پہ جو مر مٹا تِرا ہی کوئی داس ہے
اُجاڑ لی ہے زندگی عبث ہی انتظار میں
ہے زیرِ لب کہے یہ وہ مِرا یہی قیاس ہے
سکونِ دل گیامِرا متائے جاں بھی لُٹ گئی
کرے فنا خُدا اِسے یہ عشق اصل ناس ہے
جو باب وا ہے روبرو ہے آفریں ہی آفریں
نگر نگر پھرے مگر خوشی ہمیں نہ راس ہے
سوال ہی تو زندگی میں ہر جگہ کھڑے ملے
نظر نظربھٹک رہی جواب کی پیاس ہے
ہے پوچھتا کوئی اُسے کہ کون ہے ر َضا ترا
کہے ہے کوئی سر پھرا کہ عام ہے نہ خاص ہے
آخری تدوین: