محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
بھیانک انجام
محمد اسامہ سَرسَری
’’ نہیں ہوسکتا…یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ توصیف ہذیانی انداز میں چیخ کر کہنے لگا اور پھر کمرہ کاغذ پھٹنے کی آواز سے گونجنے لگا۔ غصے میں اس نے کاغذ کے کئی ٹکڑے کردیے اور ٹیلیفون کی طرف اس کے قدم خود بخود اٹھ گئے، کچھ ہی دیر میں وہ ملک کے مشہور جج جناب سلیمان صاحب کے نمبر ملا چکا تھا۔ہوا یہ تھا کہ توصیف اور اسکے باپ نے تنگدستی کی وجہ سے چوری اور ڈکیتی جیسی غلط راہ اختیار کرلی تھی ، اب ان کا بارہ غنڈوں پر مشتمل ایک گروپ تھا جس کا سرغنہ توصیف کا باپ آصف تھا اور تو اور جج سلیمان صاحب کا بیٹا فیضان بھی ان کے ساتھ شامل تھا ، کسی وجہ سے اس کی اپنے باپ سے لڑائی ہوگئی تھی۔ خیر۔۔۔۔ دن گزرتے گئے، ایک دن ان لوگوں کے ہاتھوں ایک شخص کا قتل ہوگیا۔ اب یہ ان کی بدنصیبی کہ مقتول کا بیٹا نعمان بڑا چالاک اور مال دار ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع تعلقات کا بھی حامل تھا۔ وہ ان کے خلاف ہوگیا، سراغ لگاتے لگاتے ان تک پہنچ ہی گیا لیکن وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان سے نمٹنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے توصیف کے باپ آصف کے خلاف سارے ثبوت حاصل کئے اور اب تین دن سے مستقل اس کے خطوط موصول ہورہے تھے جس میں وہ دھمکیاں دے رہا تھا کہ ’’میں تمہیں چھوڑوںگا نہیں ، عنقریب تمہاری گردنیں آدبوچوں گا ۔۔۔۔اور آج تو حد ہی ہوگئی۔۔۔۔ اس نے خط میں لکھا کہ تمہارے باپ کو عنقریب سزائے موت سنائی جائیگی۔۔۔۔ اور وہ بھی قانونی طور پر،کیونکہ میرے پاس تمہارے باپ کے خلاف سارے ثبوت مہیا ہیں اور تمہارا باپ اس وقت میری تحویل میں ہے اسے جج سلیمان کی عدالت میں پیش کرونگا۔‘‘
خط پڑھتے ہی توصیف کی حالت خراب ہوگئی کیونکہ اسے اپنے باپ سے بہت محبت تھی ، اسی محبت کا نتیجہ تھا کہ خط پڑھتے ہی چیخ چیخ کر کہنے لگا:
’’ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے وہ خط پھاڑ ڈالا ، اب اُسکا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا ۔۔۔۔ پھر اچانک اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ جج سلیمان صاحب تو اس کے دور کے رشتہ دار ہیں، ہوسکتا ہے وہ کسی کام آجائیں۔
دو مرتبہ گھنٹی بجنے پر دوسری جانب سے کسی نے ریسیور اٹھایا:
’’ ہیلو ۔۔۔۔جی کون بات کر رہے ہیں۔‘‘ پتلی اور مترنم سی آواز آئی۔
’’ محمد توصیف بات کررہا ہوں ، کیا آپ کے ابو گھر میں موجود ہیں۔ ‘‘
’’ نہیں جی ، ابو گھر میں نہیں ہیں۔۔۔۔ مغرب کی نماز کے بعد آئیں گے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے۔۔۔۔ پھر میں آٹھ بجے ان سے ملنے آجائونگا ، ان کو بتادینا۔‘‘
’’ کیا حال چال ہیں ۔۔۔۔ خیریت سے ہو۔۔۔۔ والد صاحب کی طبیعت کیسی ہے ؟ ‘‘ سلیمان جج صاحب انتہائی شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئے۔ پھر کہنے لگے:
’’ آپ کو دیکھ کر مجھے اپنا بیٹا فیضان یاد آجاتا ہے۔۔۔۔بے چارہ پتہ نہیں کہاں بھٹک رہا ہوگا۔۔۔۔!‘‘
اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی خادم شربت کے گلاس ایک ٹرے میں لئے کمرے میں داخل ہوا اور دونوں کے سامنے رکھ کر واپس چلا گیا۔
’’مجھے آپ سے ایک درخواست کرنی ہے ۔‘‘
’’پہلے آپ شربت تو پئیں پھر اطمینان سے بات کرلینا ۔ ‘‘
’’کیا آپ میری ایک درخواست قبول کرلیں گے ؟ ‘‘توصیف نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’ کہیے کہیے ۔۔۔۔ اگر شریعت کے دائرے میں ہوئی اور میرے بس میں ہوئی تو ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور پوری کرونگا ۔ ‘‘
توصیف نے پوری تفصیل سے اپنے والد کا قصہ سنادیا لیکن یہ نہیں کہا کہ اس قتل میں وہ خود بھی شریک تھا ۔
پھر کہنے لگا:
’’ مقتول کے بیٹے نعمان نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ وہ آپ کی عدالت میں اس کیس کو پیش کرے گا، اب میری درخواست بلکہ التجاء ہے کہ آپ میرے والد کی زندگی بچالیجئے۔ ‘‘
جج صاحب ایک ایماندار آدمی تھے اور اب تک کئی خطرات کو بالائے طاق رکھ کر ایمانداری سے عدالت کے فیصلے کرتے رہے تھے ، اب توصیف کی بات سن کر ایک دم سے بھڑک گئے اور کہنے گے :
’’ نہیں بھئی ۔۔۔۔میں عدل نہیں چھوڑسکتا، اگر تمہارے مخالفین نے اطمینان بخش دلائل پیش کردیئے تو میں انہی کے حق میں فیصلہ کرونگا اور اب میں اس بارے میں مزید کچھ سننا گوارا نہیں کرونگا ۔۔۔۔براہِ مہربانی مجھے مجبور نہ کرنا۔‘‘
’’ اگر میرے والد کی جگہ آپ کا بیٹا ہوتا تو…؟ ‘‘
’’ ایسے مواقع پر میں اپنے بیٹے کو بھی معاف نہیں کرتا۔۔۔۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ۔۔۔۔ نورِ نظر۔۔۔۔ کو پھانسی پر چڑھاہوا دیکھ کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔۔۔۔انصاف انصاف ہے۔‘‘
٭…٭…٭
’’وہ صرف میرے والد نہیں بلکہ تم لوگوں کے بھی باس ہیں، لہٰذا ہمیں سوچنا چاہئے کہ اُن کو کس طرح بچایا جائے۔۔۔۔جج سلیمان امید کی ایک چھوٹی سی کرن تھی جو بجھ گئی۔ ‘‘توصیف نے سب کو مخاطب کر کے کہا۔بڑے سے کمرے میں اس وقت ان کا پورا گروپ موجود تھا۔
’’ مجھے بھی اپنے باپ سے ایسی ہی امید تھی ۔۔۔۔ وہ پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے ۔ ‘‘ جج سلیمان کے بیٹے فیضان نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
اچانک فون کی گھنٹی بجی اور سب چونک کر اسے دیکھنے لگ گئے ۔
’’ جی۔۔۔۔ کون ہے ؟‘‘ توصیف نے لائوڈ آن کرتے ہوئے کہا تاکہ آواز سب کو آئے۔
’’تمہارے اور تمہارے باپ کے مقتول کا بیٹا نعمان احمد بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔کل گیارہ بجے تمہارے باپ کو سزائے موت سنائی جائیگی۔۔۔۔کچھ کرسکتے ہو تو کر دکھائو ۔۔۔۔ اپنے باپ کے قتل کاانتقام تمہارے باپ کی موت سے اور اپنے صدمے کا بدلہ تم کو صدمہ پہنچا کر لوں گا۔۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
پورے ہال میں سناٹا طاری تھا۔۔۔۔ہر کوئی دم سادھے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔سارے دلائل اور شواہد سامنے آچکے تھے بس اب جج سلیمان صاحب کے فیصلہ کا انتظار تھا۔۔۔۔سب کی نگاہیں جج صاحب پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔سب نے دیکھا کہ جج صاحب نے انگلی سے اپنی پیشانی کا پسینہ صاف کیا۔۔۔۔ توصیف اور اس کے ساتھیوں کی تو گویا اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی تھی۔۔۔۔ جج صاحب کا بیٹا فیضان بھی میک اپ کر کے دوسرے حلیے میں آیا ہوا تھا اور مستقل ہونٹ چباتے ہوئے اپنے باپ کو گھور رہا تھا۔۔۔۔ سب کے دماغوں میں یہی ایک سوچ تھی کہ دیکھو اب بے چارے آصف کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔اور پھر جج صاحب نے ہال کے اس خوفناک خاموش ماحول کے سحر کو اپنی بھاری بھرکم آواز سے یہ کہتے ہوئے توڑا:
’’ مجرم آصف کو تمام دلائل کے ساتھ قتل ثابت ہونے کی بنیاد پرسزائے موت سنائی جاتی ہے۔ ‘‘
٭…٭…٭
’’توصیف۔۔۔۔ توصیف۔۔۔۔ توصیف۔۔۔۔! ‘‘توصیف کو ایسا لگا جیسے کوئی اسے دور سے پکار رہا ہو اور پھر وہ آواز آہستہ آہستہ اس کے قریب آتی گئی۔۔۔۔ پھر ایک دم سے توصیف کی آنکھ کھل گئی۔
’’توصیف۔۔۔۔!تم پورے تین دن کے بعد ہوش میں آئے ہو۔‘‘ فیضان کی آواز توصیف کے کانوں سے ٹکرائی۔
توصیف کو یاد آیا کہ وہ جج سلیمان کی آواز سن رہا تھا کہ آصف کو اسکے قتل کرنے کی بنیاد پر اور تمام دلائل کے سامنے آجانے کی وجہ سے سزائے موت سنائی جاتی ہے ۔۔۔۔ پھر اس کے بعد جج نے کیا کہا اسکو کچھ نہیں معلوم۔
’’ فیضان ۔۔۔۔! میرے باپ کا کیا ہوا ۔ ‘‘
’’توصیف!مجھے افسوس ہے تمہارے باپ کو کل بارہ بجے پھانسی ہوگئی اور یہ سارا میرے باپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ کاش وہ سزائے موت نہ سناتا۔۔۔۔بے شک عمر قید کی سزا ہی دے دیتا ۔ ‘‘
’’میںتمہارے باپ کو زندہ نہیں چھوڑونگا اور اگر تم رکاوٹ بنے تو میں تمہیں بھی اپنے باپ کا قاتل سمجھوں گا ۔ ‘‘
’’نہیں توصیف۔۔۔۔!میں مرتے دم تک تمہارے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرچکا ہوں اور تم دیکھنا میں تمہارے ساتھ مل کر اپنے باپ کا کیا حشر کرتا ہوں ۔ ‘‘
٭…٭…٭
’’میں نے ایک منصوبہ بنایا ہے۔‘‘ توصیف نے کہنا شروع کیا۔یہ پورا گروپ اس وقت ایک بڑے سے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔ان کے باس آصف کو پھانسی چڑھے ہوئے تقریباً دس دن گزرچکے تھے ، اب توصیف ان کا سردار تھا اور کافی دنوں سے معلومات حاصل کرنے میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔اب ان سب کو جمع کرکے وہ منصوبہ سنانا چاہ رہا تھا۔۔۔۔ لیکن اسے فیضان پر اعتماد نہیں تھا اور وہ چاہتا تھا کہ فیضان یا تو ان کا ساتھ دے یا کم از کم عین وقت پر ان کا منصوبہ خاک میں نہ ملادے ۔۔۔۔ آخر جج سلیمان اس کا باپ تھا ۔۔۔ ۔ لہٰذا یہ سوچ کر اس نے کہا:
’’لیکن پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک فون سنوادوں ۔ ‘‘
یہ کہہ کر اس نے جج سلیمان کے گھر کے نمبر ملائے اور لائوڈ آن کردیا۔۔۔۔ پہلی گھنٹی پر ہی ریسیور اٹھا لیا گیا۔
’’السلام علیکم۔ ‘‘جج سلیمان کی آواز سب نے سنی۔
’’جج صاحب! میں توصیف بات کر رہا ہوں ۔ ‘‘ یہ کہہ کر توصیف نے فیضان کو آنکھ ماری۔
’’جی فرمایئے ،کس لئے فون کیا ہے؟‘‘ جج صاحب نے بالکل سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’جج صاحب۔۔۔۔!اگر میرے باپ کی جگہ آپ کا بیٹا ہوتا تو۔۔۔۔؟ ‘‘
’’ایسے مواقع پر میں اپنے بیٹے کو بھی معاف نہیں کرتا۔۔۔۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے۔۔۔۔ نورِ نظر۔۔۔۔ کو پھانسی پر چڑھاہوا دیکھ کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔۔۔۔انصاف انصاف ہے۔ ‘‘جج صاحب نے وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا ۔
توصیف نے مسکراتے ہوئے ریسیور رکھ کر کہا :
’’ کہو اب تم کیا کہتے ہو۔‘‘
’’ میرا جواب اب بھی وہی ہے ، میں تمہارے ساتھ مل کر اپنے اس متکبر باپ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس دنیا سے رخصت کر دوںگا۔‘‘
توصیف نے فیضان کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد کہا:
’’اب میرا منصوبہ سنو۔۔۔۔عمر کی بہن یعنی جج صاحب کی بیٹی کی پرسوں شادی ہورہی ہے اور رات بارہ بجے جج صاحب بجائے اپنی کار کے بجائے احتیاطاً ایمبولینس میں جائیں گے تاکہ کسی کو معلوم بھی نہ ہو اور جلدی بھی پہنچ جائیں۔۔۔۔ ان کے راستے میں ایک ویران سڑک آئیگی جس میں ایک عمارت بالکل بند پڑی ہے۔۔۔۔ تم لوگ دستی بم لے کر اس عمارت پر چڑھ جانا اور جوں ہی ایمبولینس گزرے اس پر بمباری کر دینا پھر جیسے ہی لوگ جمع ہوں تم لوگ وہاں سے کھسک لینا۔۔۔۔ جب کہ میں شادی ہال کی طرف جاکر انتظار کروں گا۔۔۔۔اگر وہ کسی اور راستے سے نکل کر بچ گیا تو اس پر فائر کرکے قتل کرکے کرڈالوں گا۔۔۔۔ صحیح ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ‘‘سب نے بیک زبان کہا ۔
٭…٭…٭
جج سلیمان ایمبولینس میں بڑی تیز رفتاری سے بیٹی کی شادی میں جارہے تھے ۔۔۔۔ اچانک ان کو ایک انجانا سا خوف محسوس ہونا شروع ہوگیا حالانکہ ان کے وہم میں بھی نہ تھا کہ راستے میں ان کے لئے کیسے کیسے ہولناک سازشی جال بچھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ پھر اچانک کان پھاڑدینے والے دھماکے شروع ہوگئے۔٭…٭…٭
دھماکے آہستہ آہستہ کم ہوتے چلے گئے اور پھر توصیف کی آنکھ کھل گئی ۔ ہوش میں آتے ہی اس کے پورے جسم میں تکلیف شروع ہوگئی اور کانوں میں مستقل دھماکوں کی آوازیں آرہی تھیں پھر اسے آہستہ آہستہ یاد آنا شروع ہوا کہ وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر شادی ہال کی طرف جارہا تھا تاکہ اگر بالفرض جج سلیمان بموں سے بچ جائیں تو وہ اس کا خاتمہ کرسکے اور پھر اچانک سامنے سے آنے والے ٹرک سے خوفناک تصادم کے باعث اس کو کچھ ہوش نہ رہا تھا۔ پھر کیا ہوا اسے کچھ نہیں معلوم ۔۔۔۔دھماکے دوبارہ اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔۔۔۔اس نے ہلنے جلنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اسے مضبوطی سے باندھا ہوا ہے ۔ پورے جسم میں درد کے خوفناک زلزلے پیدا ہورہے تھے۔۔۔۔اچانک دروازہ کھلا اور جج سلیمان کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔۔ چہرے پر شفقتی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔کہنے لگے:’’توصیف۔۔۔۔!مجھے افسوس ہے میں تمہیں بچا نہ سکا۔۔۔۔ تم اپنے ہاتھوں ا ور پائوں سے بالکل معذور ہوچکے ہو۔۔۔۔ تم پر بڑا زبردست قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔۔۔۔ تمہاری ایمبولینس کے ڈرائیور نے مرتے مرتے یہبیان دیا ہے کہ وہ ایک ٹیکسی ایکسیڈنٹ کے زخمی کو یعنی تم کو لے کر ہسپتال کی طرف جارہا تھا کہ اچانک ایک ویران سڑک سے گزرتے ہوئے ہم پر بمباری شروع ہوگئی۔۔۔۔تمہارے قاتل گرفتار ہوگئے ہیں جن میں میرا بیٹا فیضان تھا ۔۔۔۔اوراچھی طرح سن لو۔۔۔۔! ایسے مواقع پر میں اپنے بیٹے کو بھی معاف نہیں کرتا۔۔۔۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے۔۔۔۔ نورِ نظر۔۔۔۔ کو پھانسی پر چڑھاہوا دیکھ کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی ۔۔۔۔انصاف انصاف ہے ‘‘
جج صاحب کی بات سن کر توصیف کے ہوش اُڑگئے۔۔۔۔ واقعی وہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں خود ہی گر گیا تھا۔
سچ کہا جاتا ہے :
’’جیسی کرنی ویسی بھرنی