سیما علی
لائبریرین
بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کی سحر کی ہے
چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشت امل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو تجھ کو یہ عظمت سفر کی ہے
ہم گرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدہئ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کے جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابر کرم سے عرض یہ میزاب زر کی ہے
آغوش شوق کھولے ہے جن کے لئے حطیم
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جاء چشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جان نو
یہ راہ جانفزاء میرے مولیٰ کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کی یہ شب گھڑی پھری
مر مر کے یہ سل میرے سینے سے سر کی ہے
اﷲ اکبر اپنے قدم اور یہ خاک پاک
حسرت ملائکہ کو جہاں وضع سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے ہو زائرو !
کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک در کی ہے
عشاق روضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے
اﷲ جانتا ہے کہ نیت کدھر کی ہے
یہ گھر یہ در ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھرو کہ صلا اچھے گھر کی ہے
محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
چھائے ملائکہ ہیں لگاتار ہے درود
بدلے میں پہرے بدلی میں بارش دورر کی ہے
سعدین کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگیء زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آسکے
رخصت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بےکسی تمنا کہ اب امید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروڑوں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمت عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایک بار بار
عاصی پڑے رہیں تو صلاء عمر بھر کی ہے
زندہ رہیں تو حاضری بارگاہ نصیب
مر جائیں تو حیات ابد عیش گھر کی ہے
مفلس اور ایسے در سے پھرے بے غنی ہوئے
چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدایان در کی ہے
جاناں یہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال
ہاں بینواؤ خون یہ صورت گذر کی ہے
ہیں چتر و تحت سایہئ دیوار و خاک در
شاہوں کو کب نصیب یہ دھج کروفر کی ہے
اس پاک کو میں خاک بسر سر بخاک ہیں
سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر کی ہے
کیوں تاجدارو خواب میں دیکھی کبھی یہ شے
جو آج جھولیوں میں گدایان در کی ہے
جروکشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عاصی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو
مکہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شان جمال طیبہ جاناں ہے نفع محض
وسعت جلال مکہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بےشک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار دلہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے
کعبہ دلہن ہے تربت اطہر نئی دلہن
یہ رشک آفتاب ہے وہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی انیلی بنیں مگر
جو پی کے پاس ہے وہ سہاگن کنور کی ہے
سر سبز وصل یہ ہے سیہ پوش ہجر وہ
چمکی دوپٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
ماؤ شما تو کیا کہ خلیل جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنا نظر کی ہے
اپنا شرف دعا سے ہے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چاہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خیر
زرنا خریدہ ایک کنیز ان کے گھر کی ہے
رومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں
گنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب بلندیئ جنت پہ کس لئے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کس اونچے گھر کی ہے
عرش بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اتری شبیہ تیرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اترے کی ابرار کی بارات
ادنیٰ نچھاور اس میرے دولہا کے سر کی ہے
عنبر زمین عبیر ہوا مشک تر غبار
ادنیٰ سی یہ شناخت تیری رہ گزر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طرز ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
اف بے حیائیاں کہ یہ منہ اور تیرے حضور
ہاں تو کریم ہے تیری خو در گزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منہ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منہ تکوں
کیا پرسش اور جاء بھی سگ بے ہنر کی ہے
باب عطاء تو یہ ہے جو بہکا ادھر ادھر
کیسی خرابی اس نگھرے در بدر کی ہے
آباد ایک در ہے تیرا اور تیرے سوا
جو بارگاہ دیکھئے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک تیرے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں کالی رات ہے منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کج
یہ ساری گتھی اک تیری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی ، نصیب کھلے ، مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنت دیں نہ دیں تیری رؤیت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت دےں نہ دیں تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صورت لکھی ہوئی
بندوں کنیزوں میں میرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ باد شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضاؔ تیرے دامان تر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کی سحر کی ہے
چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشت امل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو تجھ کو یہ عظمت سفر کی ہے
ہم گرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدہئ در سے چھڑاؤ گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کے جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابر کرم سے عرض یہ میزاب زر کی ہے
آغوش شوق کھولے ہے جن کے لئے حطیم
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاؤں رکھنے والے یہ جاء چشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جان نو
یہ راہ جانفزاء میرے مولیٰ کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کی یہ شب گھڑی پھری
مر مر کے یہ سل میرے سینے سے سر کی ہے
اﷲ اکبر اپنے قدم اور یہ خاک پاک
حسرت ملائکہ کو جہاں وضع سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے ہو زائرو !
کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک در کی ہے
عشاق روضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے
اﷲ جانتا ہے کہ نیت کدھر کی ہے
یہ گھر یہ در ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھرو کہ صلا اچھے گھر کی ہے
محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
چھائے ملائکہ ہیں لگاتار ہے درود
بدلے میں پہرے بدلی میں بارش دورر کی ہے
سعدین کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگیء زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آسکے
رخصت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بےکسی تمنا کہ اب امید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروڑوں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمت عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایک بار بار
عاصی پڑے رہیں تو صلاء عمر بھر کی ہے
زندہ رہیں تو حاضری بارگاہ نصیب
مر جائیں تو حیات ابد عیش گھر کی ہے
مفلس اور ایسے در سے پھرے بے غنی ہوئے
چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدایان در کی ہے
جاناں یہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال
ہاں بینواؤ خون یہ صورت گذر کی ہے
ہیں چتر و تحت سایہئ دیوار و خاک در
شاہوں کو کب نصیب یہ دھج کروفر کی ہے
اس پاک کو میں خاک بسر سر بخاک ہیں
سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر کی ہے
کیوں تاجدارو خواب میں دیکھی کبھی یہ شے
جو آج جھولیوں میں گدایان در کی ہے
جروکشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے
وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عاصی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو
مکہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شان جمال طیبہ جاناں ہے نفع محض
وسعت جلال مکہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بےشک انجمن آرا دلہن مگر
ساری بہار دلہنوں میں دولہا کے گھر کی ہے
کعبہ دلہن ہے تربت اطہر نئی دلہن
یہ رشک آفتاب ہے وہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی انیلی بنیں مگر
جو پی کے پاس ہے وہ سہاگن کنور کی ہے
سر سبز وصل یہ ہے سیہ پوش ہجر وہ
چمکی دوپٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
ماؤ شما تو کیا کہ خلیل جلیل کو
کل دیکھنا کہ اُن سے تمنا نظر کی ہے
اپنا شرف دعا سے ہے باقی رہا قبول
یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چاہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خیر
زرنا خریدہ ایک کنیز ان کے گھر کی ہے
رومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں
گنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب بلندیئ جنت پہ کس لئے
دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کس اونچے گھر کی ہے
عرش بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ
اتری شبیہ تیرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اترے کی ابرار کی بارات
ادنیٰ نچھاور اس میرے دولہا کے سر کی ہے
عنبر زمین عبیر ہوا مشک تر غبار
ادنیٰ سی یہ شناخت تیری رہ گزر کی ہے
سرکار ہم گنواروں میں طرز ادب کہاں
ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
اف بے حیائیاں کہ یہ منہ اور تیرے حضور
ہاں تو کریم ہے تیری خو در گزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منہ تو کروں کس کے سامنے
کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منہ تکوں
کیا پرسش اور جاء بھی سگ بے ہنر کی ہے
باب عطاء تو یہ ہے جو بہکا ادھر ادھر
کیسی خرابی اس نگھرے در بدر کی ہے
آباد ایک در ہے تیرا اور تیرے سوا
جو بارگاہ دیکھئے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں آنکھیں بند ہیں پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک تیرے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی
تنہا ہوں کالی رات ہے منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کج
یہ ساری گتھی اک تیری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی ، نصیب کھلے ، مشکلیں کھلیں
دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنت دیں نہ دیں تیری رؤیت ہو خیر سے
اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت دےں نہ دیں تو کرے بات لطف سے
یہ شہد ہو تو پھر کسے پروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صورت لکھی ہوئی
بندوں کنیزوں میں میرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ باد شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضاؔ تیرے دامان تر کی ہے