بہائیت اور قادیانیت میں مماثلت بشکریہ نقیب ختم نبوت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
اسلام مخالف تحریکوں کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ’’فری میسن ‘‘کو پڑھنا از حد ضروری ہے اور صہیو نی طریق کار پر نظر رکھے بغیر ہم درست تجربے کی پٹری پر نہیں چڑھ سکتے ۔انیسویں صدی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اسلام دشمن علانیہ اور خفیہ تحریکوں اور تنظیموں نے خوب اپنے رنگ دکھائے ۔سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اور ممتاز محقق ومصنف ڈاکٹر محمود احمد غازی، جناب بشیر احمد کی کتاب ’’بہائیت ‘‘کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں کہ ’’یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جن دنوں ہند وستان میں قادیانیت کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی ٹھیک انہی دنوں میں ایران میں بہائیت کو پروان چڑھایا جا رہا تھا چونکہ دونوں کے مقاصد ایک تھے اس لیے طریقۂ کار میں بھی حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے ۔چونکہ ایران اور برصغیر پاک وہند کے دو مختلف پس منظر رکھنے والے علاقوں میں ان دو تحریکوں کو کام کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا ۔اس لئے تفصیلات میں قدرے اختلاف اور فرق بھی معلوم ہوتاہے ‘‘ ۔
’’بہائیت ‘‘ کے حوالے سے پہلی مستند اردو کتاب ’’بہائیت اسرائیل کی خفیہ سیاسی تنظیم ‘‘ کے مصنف جناب بشیر احمد لکھتے ہیں کہ ’’ بہائی اکابر نے دنیا کے نقشے پر ابھر نے والی نئی اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کو دلچسپ تجربہ قرار دیا ۔ اس مملکت کے عرب ممالک سے ابھرتے ہوئے روابط ایران سے قربت اور جغرافیائی اہمیت کے باعث یہاں نئے مشن قائم کرنے کی فوری ضرورت محسوس کی گئی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے قیام کی سخت مخالفت کی ۔پاکستان کے اسلامی تشخص اور اس کی عرب نواز پالیسی کے نتیجے میں سامراجی طاقتوں کی یہ خواہش تھی کہ یہاں ان کی وفادار تنظیمیں اور ادارے پھلیں پھولیں ۔قادیانی خلیفہ مرزا محمود احمد بھی اپنا بو ریا بستر سمیٹ کر قادیان سے لاہور آگئے تھے تاکہ برطانوی مہرے کے طور پر کام کر سکیں ‘‘۔
بہائیت اور قادیانیت میں کس حد تک مماثلت ہے ؟ اور 1953ء تحریک ختمِ نبوت کے بعد شوتی آفندی نے اسفند یار بختیاری کو اسرائیل کن مقاصد کے لیے طلب کیا ؟ 1954ء میں بختیاری ،محفوظ الحق علمی کی تحریک ختمِ نبوت کے واقعات کے حوالے سے کیا رپورٹ لے کر پاکستان سے اسرائیل گیا؟ ۔ملکی و بین الاقوامی سطح پر بہائیوں نے مسلمانوں کے عقائد اور مفادات کو کیسے ذبح کیا اور پاکستان کے اہم ترین مقامات اور بعض غیر معروف جگہوں پر کس طرح اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ؟یہ موضوع تفصیلطلب ہے اور اس پر ان شاء اللہ تعالیٰ کسی مناسبت سے پھر کسی وقت کچھ لکھا جاسکے گا مذکورہ پس منظر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مصر میں دولت ،میڈیا اور پراپیگنڈے کے ذریعے تفریق پیدا کرنے کے لیے ’’قادیانی اور بہائی ‘‘کس طرح سازش کررہے ہیں بیروت کے ایک بڑے ہوٹل میں پاکستان ،ایران اور مصر کے قادیانیوں اور بہائیوں کی ایک میٹنگ کی رپورٹ روزنامہ ’’المصریون ‘‘میں اِس طرح شائع ہوئی ہے ۔مصری اخبار’’ المصریون ‘‘نے دعوی کیاہے کہ ’’پاکستان ،ایران اور مصر کے قادیانی اور بہائی رہنماؤں نے بیروت میں ایک میٹنگ کی ،جس کا مقصد حالیہ مصری انقلاب کے بعد مصر میں قادیانی اور بہائی مذہب کی تخم ریزی تھا ۔یہ میٹنگ بیروت کے علاقے فیردان کے بڑے ہوٹل میں ہوئی ،جس میں مصر سے فائز عبدالقوی ( بہائی)،سلامہ صالح صالح ( بہائی )،عادل شریف تہامی ( بہائی )اور ربیع علی ربیع ( قادیانی)،ایران سے باکتر کرامی ( قادیانی ) ،جمشید فرزند (قادیانی ) ،شبیر قد جھدانی ( قادیانی)،پاکستان سے حنیف نورالدین ( قادیانی ) ،لبنان سے وسیم دحدوح( بہائی )،لوئی شہاب الدین ( قادیانی ) شامل تھے ۔میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سپریم کورٹ میں دعوی دائر کرکے مصری حکومت کو قادیانی وبہائی مذہب کو سرکاری مذہب تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے۔اسی طرح مصری سٹیلائیٹ نیل 7 کے ذریعے دو سٹیلائیٹ چینل بنائے جائیں ،جن کے لیے فنڈ نگ قادیانی فراہم کریں گے اور ان کا نظم ونسق بہائیوں کے ہاتھوں میں ہو گا تاکہ مصر اور دیگر عرب ممالک میں اپنی سر گرمیوں کو بڑے پیمانے پر پھیلا یا جائے نیز میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وزارتِ عدل اور کابینہ سے نوٹس جاری کر وایا جائے جس میں قادیانیوں کے لیے مساجد کی تعمیر کی اجازت ہو۔ اجتماع میں فیصلہ ہوا کہ اخوان المسلمین اور دیگر اسلامی جماعتوں میں اختلافات پیدا کیے جائیں اور مصری فوج اور عوام کے بیچ دوری پیدا کرکے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا یا جائے ۔میٹنگ میں کہا گیا کہ مصرکے فقراء و مساکین کومال ودولت اور ماہانہ وظائف کے ذریعے اپنی طرف راغب کیا جائے اور قادیانی وبہائی تعارفی لٹریچر زیادہ سے زیادہ چھپوا کر تقسیم کیا جائے نیز ویب سائٹس ،آن لائن جرائد اورسوشل نیٹ ورکس جیسے فیس بک مثلاََ الیکٹرونک ذرائع سے بھر پور استفادہ کیا جائے ۔ اس سے پہلے بھی اخبار نے قادیانیوں کی مذموم سرگرمیوں سے پردہ اٹھایا تھا،جب انہوں نے قاہرہ کے وسط میں واقع طلعت حرب روڈ پر راہگیروں میں اپنے کفریہ لٹریچر کی تقسیم شروع کر رکھی تھی۔قادیانی گروہ نے انیسویں صدی کے اواخر میں برصغیر میں جنم لیا اس کا بانی مرزا غلام احمد قادیانی بھارتی پنجاب کے شہر قادیان کا رہنے والا تھا۔ اس نے 1889ء میں اس فرقے( گروہ)کی بنیاد رکھی اور مہدی منتظر ہونے کا دعوی کیا۔قادیانی گروہ افریقہ ،یورپ امریکہ او ر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل چکا ہے اور اس کے پیروکاروں کی زیادہ تعداد انڈیا اور پاکستان میں ہے۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ پہلے بھی قادیانی گروہ نے مجمع البحوث الاسلامیہ کو درخواست کی تھی کہ انہیں مصرمیں کام کرنے کی اجازت دی جائے اور اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ ظاہر کرکے کچھ لٹریچر بھی مجمع کو پیش کیا تھا ۔لیکن مجمع نے یہ کہہ کر ان کو اپنی تبلیغی سر گرمیاں بحیثیت مسلمان شروع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا کہ ان کا عقیدہ اسلام مخالف اور یہ مرتد ہیں ان کے لیے مسلمانوں کی مساجد میں داخلے کی بالکل اجازت نہیں ۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ قادیانیفرقہ بر طانوی وفرانسیسی استعمار کی پیدا وار ہے اور انہیں بہائیوں کی جانب سے بھر پور امداد حاصل رہی ہے کیو نکہ دونوں کا مقصد مسلمانوں کو راہ ہدایت سے گمراہ کرنا ہے ۔ماضی میں جب قادیانی عرب ممالک میں اپنی مذموم سر گر میوں کے فروغ میں ناکام رہے تو اسرائیل نے ان کے لیے اپنے دروازے وا کر دئیے اور بر طانیہ کے بعد قادیانیوں کا سب سے بڑا مرکز اسرائیل کے شہر حیفہ میں ہے ۔1934ء میں قادیانیوں نے حیفہ میں اپنا عبادت خانہ بنایا جس کا نام مسجد سیدنا محمود رکھا ۔اسی طرح وہاں سے انہوں نے ایک ٹی ۔وی چینل ایم ۔ٹی ۔ سی کا بھی آغاز کیا ۔ نیز اخبار آخر میں لکھتا ہے کہ قادیانی پاکستان اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی کے ایجنٹ کے طور پرکام کرے رہے ہیں جس کے عوض ان کولاکھوں ڈالر امداد ملتی ہے ‘‘۔
ہم اس رپورٹ پرمزید تبصرے کی بجائے صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ جو حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں 1974ء کی قومی اسمبلی میں لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے اور بعد ازاں 1984 ء میں امتناع قادیانیت ایکٹ کے اجراء ونفاذ کے بعد قادیانی مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اس پر کام کی ضرورت نہیں وہ اِس ایک رپورٹ کے تناظر میں پوری دنیا میں قادیانی سر گرمیوں کا جائزہ لیں، امریکہ و یورپ ،افریقہ ومشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ ان کے دجل ودھوکہ کو قریب سے دیکھ کر ان پر کام کی ضرورت واہمیت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کتنی بڑھ گئی ہے؟ حج جیسی عبادت کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قادیانی امریکہ ویورپ اور برصغیر سے کس طرح پہنچ جاتے ہیں کس کس ملک سے کون کون سی ٹر یول ایجنسیاں قادیانیوں کو وہاں پہنچا تی ہیں، جدہ میں ان کا خفیہ مرکز کس طرح کام کر رہا ہے اور وہاں حجاج و زائرین کو پھنسانے کے لیے قادیانی کیا حربے استعمال کرتے ہیں صرف اِس حوالے سے کس طرح کے کام کی ضرورت ہے اور سفا رتی ذرائع استعمال کرنے کے لئے کس ڈھب کی محنت کی ضرورت ہے ؟ یہ سب کچھ اہل فکر ونظر کے لئے ایک سوال ہے سو چنے کا ! اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی تو فیق سے نوازیں اور کفار و مشرکین اور مرتدین سے ارض مقدس کو پاک فرمادیں ،آمین
رپورٹ بشکریہ
ماہنامہ نقیبِ ختمِ نبوت
دسمبر 2011
 

حسان خان

لائبریرین
قادیانی پاکستان اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی کے ایجنٹ کے طور پرکام کرے رہے ہیں جس کے عوض ان کولاکھوں ڈالر امداد ملتی ہے ‘‘۔

کیا پاکستان میں رہنے والے کسی مذہبی گروہ کو یوں پانچواں ستون اور ملک کا غدار قرار دینا مناسب ہے؟ اور کیا ایسی تحاریر نفرت انگیزی کے ذیل میں نہیں آتی ہیں؟
 
لو جی سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔۔۔۔ شاہ جی ہور چوپو گنے۔۔۔ سید شہزاد ناصر جی یہ باتیں ایسے عوام الناس میں کرنے کی نہیں ہوتی ہیں بڑا مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ عوام الناس کے اذہان ابھی پختہ نہیں ہوئے ہیں ۔۔۔۔ جب ارفع کریم کو ایم کے الٹرا کا شکار بنایاگیا تھا تو میں نے ایک فورم میں یہ بات کہی تھی تو لوگ لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے تھے۔ اب ہیوگیو شاویز بھی اس کا شکار ہوگیا ہے لیکن عوام الناس اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہنوز انکاری ہیں ۔ اس لیئے شاہ جی خاموشی بہتر ہے۔
 

ابن عادل

محفلین
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب ایک گروہ جو کہ خود کو مذہبی کہلواتا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ایک مذہب میں نقب زنی کرتا ہے اور اپنی پہچان میں مختلف مقامات پر ردوبدل کرتا ہے وہ کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہو تو اسے اس وجہ سے نظر انداز کردیا جائے کہ وہ مذہبی گروہ ہے ۔ درآنحالیکہ اس مذہبی گروہ کے کچھ افراد نہیں بلکہ مرکز وقیادت کے بارے میں یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہو کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے تب بھی ۔ ۔۔۔؟! ہمارے ملک پاکستان میں مختلف مذہبی گروہ موجود ہیں اور اختلاف عقیدہ و مسلک کے باوجود اپنی شناخت رکھتے ہیں اور اس کا اظہار کرتے ہیں نہ کہ چھپاتے ۔ سوائے اس مذہبی گروہ کے ۔
میں یہاں عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ نفرت انگیزی اور بیان حقیقت میں فرق کو ملحوظ رکھا جائے ۔ شائستہ انداز میں اپنی رائے کا اظہار اوراختلاف رائے کو صبر وتحمل سے سننا اعلیٰ اقدار کی نشانی ہے ۔
 

رانا

محفلین
ساجد بھائی یہ دھاگہ آپ کی زیرادارت ہے اس لئے آپ سے مخاطب ہوں کہ اگر آپ کو میرے اس جواب سے یہ لگے کہ میرا یہ جواب محفل کے درجہ حرارت میں اضافہ کرے گا تو آپ کو میری طرف سے اجازت ہے کہ اسے منظور نہ کریں۔ یہ میں خوشی سے اجازت دے رہا ہوں کہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں اگر یہ مراسلہ شائع ہوتا ہے یا نہیں۔ محفل کا ماحول خوشگوار رہنا چاہئے۔ اسطرح کی باتیں تو آئے دن ہوتی ہی رہتی ہیں۔

بہت شکریہ شہزاد ناصر صاحب۔ بہت ہی "ایمان افروز" تحریر ہے۔ یہ تحریر پڑھنے کے بعد بھی آپ سے قطعا کوئی شکوہ نہیں کہ آپ کا جذبہ قابل قدر ہے کہ اپنے فہم کی حد تو اسلام اور پاکستان کے لئے آپ جو بات بہتر سمجھتے ہیں اس کا اظہار کررہے ہیں۔ اس لئے آپ میرے لئے اب بھی پہلے ہی کی طرح محترم ہیں۔

لیکن ان ختم نبوت والوں پر ضرور مجھے حیرت ہے کہ پہلے ہی اتنے ملکوں اور قوموں کی ایجنٹیاں ہم پر لادی ہوئی تھیں اب یہ ایک اور نیا گٹھ جوڑ سامنے آگیا۔ میرا تو خیال تھا کہ یہ سلسلہ شائد اب مزید آگے نہ چل سکے کہ ہر ملک اور قوم کے تو ہم ایجنٹ بنادیئے گئے تھے اب مزید کی تو گنجائش ہی نہیں تھی۔ لیکن یہ بہایئت ابھی رہتی تھی کہ جس کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونا باقی تھا۔ کمال کی باریک بین نظر ہے ان نام نہاد علما کی۔ پہلے ان علما نے انگریز کا ایجنٹ بنایا ہم نے بھائی بندی میں یہ ایجنٹی قبول کرلی کہ چلو یار کوئی بات نہیں۔ پھر یہودیوں کا ایجنٹ بنادیا کیونکہ اسرائیل تو ابھی بنا ہی نہیں تھا۔ ہم یہودیوں کے ایجنٹ بھی بن گئے۔ پھر اسرائیل بن گیا تو اسرائیل کی حکومت کے ایجنٹ بنا دیئے گئے۔ چارو ناچار بھائی بندی میں ہم نے یہ بوجھ بھی اٹھا لیا۔ پھر ان کی طرف سے ہندوستان کے ایجنٹ کا پروانہ بھی ہمیں تھمادیا گیا ہم نے پھر مروت میں انکار کرنا مناسب نہ سمجھا کہ چلو یار ختم نبوت والوں کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے انکار کردیا تو بے چارے کھائیں گے کہاں سے۔ ہم نے کہا کہ لاؤ یار ہندوستان کی ایجنٹی بھی کرلیتے ہیں کیا یاد کرو گے۔ ہم سمجھے کہ بس اب شائد مزید بوجھ ہم پر نہ لادا جائے لیکن لگتا ہے کہ نام نہاد علماء کے اخراجات مہنگائی کے اونٹ کے نیچے آگئے تھے اس لئے انہوں نے پھر کسی نئے کلائنٹ کو ڈھونڈنا شروع کردیا کہ جسے تجربہ کار مایہ ناز قسم کا ایجنٹ ارزاں نرخوں پر درکار ہو ختم نبوت کے دفتر میں رابطہ کرے۔ تو جناب ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے کلائنٹ کیا چیز ہے۔ لہذا ان نام نہاد علماءکرام کو نیا کلائنٹ امریکہ کی شکل میں مل گیا ۔ نئے کلائنٹ سے تمام ڈیل طے کرنے کے بعد ہمارے پاس آئے کہ دیکھو یار ہم نے کلائنٹ سے ہاں کرلی ہے پلیز انکار نہ کرنا ورنہ ہم کھائیں گے کہاں سے ۔ ہم نے سمجھایا کہ بھائی پہلے ہی تمہاری دوستی کی خاطر اتنے ملکوں کی ایجنٹی کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے اب مزید نہیں اٹھایا جائے گا تو ترلے منتیں کرنے لگے کہ یار جہاں ہمارے کہنے پر پہلے اتنی ایجنٹیاں اٹھائی ہوئی ہیں وہاں ایک اور سہی پلیز یار ہماری خاطر۔ بس جناب ہم سے ان کے آنسو دیکھے نہ گئے اور ہم نے کہا کہ اچھا بھائی لاؤ تمہاری خاطر جہاں اتنے بوجھ اٹھائے ہیں امریکہ کے ایجنٹ بھی بن جاتے ہیں۔ کیا یاد کرو گے۔ اب کے ہم نے سمجھا کہ شائد یہ آخری کلائنٹ تھا ان کا ۔ لیکن کچھ عرصے بعد روس سے بھی خود ہی بات کرلی اور ہمیں بتایا تک نہیں وہ تو اڑتی اڑتی سنی کہ ہم سے اجازت لئے بغیر ہمیں روس کا ایجنٹ بھی بنادیا گیا ہے۔ جب اجازت لئے بغیر کام کردیئے جائیں تو پھر بندہ کر ہی کیا سکتا ہے۔

یہاں تک تو خیر تھی لیکن 1970 میں یہ ستم ہوا کہ جب باہر والوں نے ان علماء کو ایجنٹی کے مزید ٹھیکے دینا بند کردیئے کہ یار تم سارے ملکوں کو ایک ہی ایجنٹ سے ملواتے ہو تمہارے پاس اور ایجنٹ نہیں ہیں کیا؟ اتنی ساری ایجنٹیا ں ایک ایجنٹ کیسے کرسکتا ہے وہ تو کسی ایک کا بھی کام ٹھیک سے نہ کرسکے گا لہذا اگلے ٹھیکے منسوخ۔ اب نکاح منسوخ ہونے کی بات ہو تو بے چارے علماء برداشت بھی کرلیں لیکن ٹھیکہ منسوخ!!! یہ تو ایسا ہی ہے جیسے جیتے جی ان کو موت کا پروانہ سنادیا جائے۔ لہذا پریشان ہوگئے کہ یار اگر نئے ٹھیکے ملنا بند ہوگئے تو آئندہ روٹی کیسے چلے گی۔ لہذا یک ہنگامی میٹنگ بلوائی گئی کہ جب تک امپورٹڈ کلائنٹ نہیں ملتا تب تک دیسی کلائنٹ ڈھونڈے جائیں کہ کام تو چلانا ہے نا۔ لہذا اب لوکل کلائنٹس یعنی دیسی مذہبی جماعتوں سے رابطہ کیا گیا کہ جس جس کو انٹرنیشل لیول کا تجربہ کار ایجنٹ چاہئے وہ پہلی فرصت میں رابطہ کرے ایک ایجنٹ ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے بلکہ ڈسکاونٹ بھی ملے گا۔ یہ اشتہار انتہائی بے دلی سے دیا گیا کہ ان میں سے کسی کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ لوکل منڈی سے کوئی کام ملے گا۔ اور واقعی کام نہ ملا!!! وجہ یہ تھی کہ کسی کو امید نہیں تھی کہ ان کے پاس کوئی ڈھنگ کا ایجنٹ ہوگا۔ لیکن جب اڑتا اڑتا ان کے پاس ایجنٹ کا نام گیا کہ بھائی یہ کوئی معمولی ایجنٹ نہیں بلکہ کئی ملکوں کی کامیاب ایجنٹی کرچکا ہے اور ابھی تک حاضر سروس ہے۔ ڈان کارلوس بھی اس کے سامنے چنے بیچتا ہے۔ تو پھر تو کلائنٹس کا تانتا بندھ گیا۔ لیکن اتنے بڑے ایجنٹ کا نام سن کر کچھ شکوک شبہات بھی تھے کہ اتنا بڑا نام ہے کیا یہ ہم جیسے ٹٹ پونجیوں کی ایجنٹی کرنا گوارا کرلے گا؟ یہ تو بڑے بڑے ملکوں اسرائیل امریکہ روس بھارت برطانیہ کی ایجنٹی کرنے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے ہم جیسوں کو کہاں لفٹ کرائے گا۔ اس خدشے کا اظہار جب ختم نبوت کے ان دلالوں سے کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یار یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ ایجنٹ جتنا بڑا ہے اتنا ہی سیدھا اور بدھو ہے۔ ہم کلائنٹ سے معاملات طے کرتے ہوئے اس کو بتاتے ہی نہیں بلکہ ڈائریکٹ اپائنٹمنٹ لیٹر اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں کہ آج سے تم فلاں کی ایجنٹی بھی کرو گے۔ اور ایجنٹ بے چارہ تو دم بھی نہیں مارتا اگر کچھ بولنا بھی چاہے تو ہم بولنے نہیں دیتے۔ اسے ایجنٹی کرنی ہی پڑتی ہے۔ بس جناب جیسے ہی یہ خدشہ دور ہوا پھر تو آرڈرز پہ آرڈرز ملنا شروع ہوگئے۔ لیکن برا ہو کہ جس وجہ سے باہر والوں نے آرڈر دینا بند کئے تھے یہاں بھی وہی وجہ سامنے آنے لگی۔ ان لوکل کلائنٹس کا ظرف چھوٹا تھا ۔ انہیں یہ گوارا ہی نہ تھا کہ جو ہماری ایجنٹی کرے وہ مخالف پارٹی کی بھی کرے۔ اس لئے جیسے ہی انہیں پتہ لگا کہ مخالف پارٹیوں نے بھی اسی ایجنٹ کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں یہ آپے سے باہر ہوگئے۔ ایجنٹ پر تو غصہ نکلنا ہی تھا لیکن ان لوکل کلائنٹس نے آپس میں بھی ایک دوسرے کو نہ بخشا اور ایک دوسرے کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑنا شروع کردیا۔

سب سے پہلے رسالہ چٹان نے جمیعت العلما اسلام کا پردہ چاک کیا کہ اس جماعت کے جلسے قادیانیوں کی مدد سے منعقد کئے جارہے ہیں۔ اور یہ جماعت اور ان کے لیڈر مثلا مفتی محمود صاحب قادیانیوں سے مدد حاصل کررہے ہیں۔ مفتی محمود صاحب کی پارٹی جمیعت العلما اسلام نے آئین شریعت کانفرنس منعقد کی تو اپنے اسی ایجنٹ سے مدد حاصل کی لیکن شومئی قسمت کہ یہی ایجنٹ دوسری طرف کی بھی ایجنٹی کررہا تھا لہذا اس نے یہ راز رسالہ چٹان کو بھی دے دیا اور اس نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا "قادیانی جماعت نے آئین شریعت کانفرنس کے انعقاد پر دس ہزار روپیہ دیا تھا۔ غلام غوث ہزاروی اور مفتی محمود کس استاد کے آلہ کار ہیں۔" اس مضمون میں مضمون نگار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ "جمعیت العلما کے دونوں بزرگ ان دنوں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ انہیں قادیانی گوارا ہیں، کمیونسٹ عزیز ہیں لیکن مولانا ابو اعلی مودودی اور آغا شورش کاشمیری کے خلاف جو زہر ان کے دل میں بیٹھ چکا ہے وہ نکلنا مشکل ہے۔۔۔۔" مزید یہ راز بھی اسی ایجنٹ کی مدد سے فاش کردیا کہ "آئین شریعت کانفرنش میں جو سبیلیں لگی تھیں، وہ سرخوں کی تھیں یا پھر ایک سبیل کے لئے قادیانی جماعت نے چندہ دیا تھا۔" رسالہ چٹان تو یہاں تک لکھ رہا تھا کہ جمیعت العلما اسلام مرزائیوں کا بغل بچہ ہے۔

جواب میں جمعیت العلما اسلام والے کس طرح پیچھے رہ جاتے۔ آخر ان کے پاس بھی وہی سدا بہار لائق فائق ایجنٹ تھا۔ اسی سے معلومات لے کر انہوں نے اپنے جریدہ ترجمان اسلام میں یہ الزام لگایا کہ مرزائیوں نے چٹان کے اس مضمون پر، جس میں مفتی محمود صاحب اور ان کی پارٹی پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے قادیانیوں سے مالی مدد لی ہے، بہت مسرت کا اظہار کیا اور اس خوشی میں قادیانیوں نے چٹان کے مدیر شورش کاشمیری صاحب کو نذرانہ پیش کرنے کے لئے ان کے رسالے کو اشتہارات سے نوازا۔ اس راز کے برسرعام فاش ہونے سے شورش کاشمیری صاحب تلملا گئے اور یہ بیان داغ دیا کہ "ہم ان کوڑھ مغزوں سے نہیں الجھنا چاہتے۔ مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی اب اس قابل نہیں رہے کہ انہیں منہ لگایا جائے۔ ہم ان سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی قرن اول میں حلقہ بگوشان رسول شرک سے کرتے تھے۔۔۔"

جماعت اسلامی کا جریدہ ایشیا بھی اسی تالاب میں تھا۔ اس نے اگست 1970 کی اشاعت میں یہ راز فاش کیا کہ اب منکرین ختم نبوت اور نام نہاد محافظین ختم نبوت بھی ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں اور قادیانی جماعت اور جمعیت العلما اسلام بھی ایک صف میں کھڑے ہیں۔
ان تمام مذہبی جماعتوں کے ان بیانات میں سے اگر نصف بھی تسلیم کرلی جائیں تو نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ان سب کو قادیانیوں نے خریدا ہوا تھا یا قادیانی جماعت ان کی ایجنٹی کررہی تھی۔​
مجھے تو لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے جو آجکل مذہبی جماعتوں کو انگلیوں پر نچایا ہوا ہے اس کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑے گا اور کل کو ہمیں بنگلہ دیش کا ایجنٹ بھی بنادیا جائے گا کہ یہ سب جو ہورہا ہے قادیانیوں کی شہہ پر ہورہا ہے۔ بعید نہیں کہ پاکستان میں کبھی بنگلہ دیشی خیالات والی حکومت آجائے تو ہمیں اپنے ہی ملک میں پاکستان کا ایجنٹ بھی بنادیا جائے۔​
بہرحال پہلے آتی تھی ان باتوں پہ ہنسی اب تو وہ بھی نہیں آتی کہ ایک ہی لطیفہ سن سن کے تو بندہ بھی بور ہوجاتا ہے۔​
 

حسان خان

لائبریرین
وہ کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہو تو اسے اس وجہ سے نظر انداز کردیا جائے کہ وہ مذہبی گروہ ہے ۔

اس بے پر کی بات کے پیچھے کوئی ثبوت بھی ہے؟ اور احمدی حضرات ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو کے کیا حاصل کر سکیں گے؟ کیا وہ مٹھی بھر افراد کہیں اپنی الگ ریاست قائم کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے تو پھر اپنے ہی ملک کے خلاف کام کر کے اُنہیں کیا فائدہ پہنچے گا؟
 

شمشاد

لائبریرین
کیا پاکستان میں رہنے والے کسی مذہبی گروہ کو یوں پانچواں ستون اور ملک کا غدار قرار دینا مناسب ہے؟ اور کیا ایسی تحاریر نفرت انگیزی کے ذیل میں نہیں آتی ہیں؟
انہوں نے ثبوت سے بات کی ہے۔ آپ کے پاس ثبوت ہیں تو تردید کر دیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
انہوں نے ثبوت سے بات کی ہے۔ آپ کے پاس ثبوت ہیں تو تردید کر دیں۔

نقیبِ ختمِ نبوت میں چھپنے والی مصر کے کسی المصریون اخبار کی رپورٹ کو آپ ثبوت کہتے ہیں؟ کیا اسی طرح کوئی بندہ اگر شیعہ مخالف اخبارات سے پاکستانی شیعہ مسلمانوں کے پانچویں ستون ہونے کی رپورٹ لائے گا تو کیا وہ 'ثبوت' مانا جائے گا؟
ہمارے رانا صاحب کا تعلق جماعتِ احمدیہ سے ہے، اور وہ پاکستان سے مکمل طور پر وفادار ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے رانا صاحب کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا۔

شہزاد بھائی نے ماہنامہ نقیب ختم نبوت سے ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر مراسلہ لکھا ہے۔ جو کہ دسمبر 2011 میں شائع ہوا تھا۔
 

رانا

محفلین
موقع کی مناسبت سے ایک نظم یاد آگئی جو امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالی نےاہل وطن سے مخاطب ہو کر کہی تھی۔

(کچھ اہل وطن سے)
بہار آئی ہے، دل وقفِ یار کردیکھو​
خِرَد کو نَذرِ جنونِ بہار کر دیکھو​
غضب کیا ہے جو کانٹوں سے پیار کر دیکھا​
اب آؤ پھولوں کو بھی ہمکنار کر دیکھو​
جو کرسکے تھے کیا، غیر ہمیں بنا نہ سکے​
ہم اب بھی اپنے ہیں، اپنا شُمار کر دیکھو​
بس اب نہ دُور رکھو اپنے دِل سے اہلِ وَطن​
ہے تم سے پیار ہمیں، اِعتبار کر دیکھو​
ہمیں کبھی تو تم اپنی نگاہ سے دیکھو​
تَعَصُّبات کی عَینک اُتار کر دیکھو​
لگا رکھی ہیں جو چہروں پہ مولوی آنکھیں​
نَظَر کی بَرچھی اِن آنکھوں سے پار کر دیکھو​
نحوستوں کا قلندر ہے پیرِ تسمہ پا​
کسی دن اِس کو گلے سے اُتار کر دیکھو​
نِقاب اوڑھ رکھا ہے جو مَولویّت کا​
اُتار پھینکو اِسے تار تار کر دیکھو​
تمہارا چہرہ بُرا تو نہیں، نہا دھو کر​
کبھی تو حُسنِ شرافت نکھار کر دیکھو​
مسیح اُترا ہے عِندَ المَناۃِ البِیضَآء​
اُٹھو ۔ کہ جائے اَدب ہے ۔ سنوار کر دیکھو​
لگاؤ سیڑھی اُتارو، دلوں کے آنگن میں​
نِثار جاؤ، نظر وار وار کر دیکھو​
جو اُس کے ساتھ، اُسی کی دُعا سے اُترا ہے​
یہ مائدہ ہے، ڈِشوں میں اُتار کر دیکھو​
بُلا رہی ہیں تمہیں پیار کی کھلی بانہیں​
چلے بھی آو نا، للہ پیار کر دیکھو​
محبتوں کے سَمَندَر سے دُوریا ں کیسی​
لپٹ کے مَوجوں سے بوس و کنار کر دیکھو​
(۱۹۹۴)
 

رانا

محفلین
انہوں نے ثبوت سے بات کی ہے۔ آپ کے پاس ثبوت ہیں تو تردید کر دیں۔
شمشاد بھائی ثبوت میں کتنی چمک ہوتی ہے اسکا اندازہ تبھی ہوسکتا ہے جب اصل ثبوت سامنے رکھا جائے۔ لیکن کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں جماعت احمدیہ کی پاکستان سے حب الوطنی اور وفاداری اور امت مسلمہ سے وفاداری کے تاریخی ثبوت پیش کروں۔ ہماری پاکستان اور امت مسلمہ سے وفاداری کوئی ایک دو دن کی بات نہیں یہ ایک صدی کا قصہ ہے۔ لیکن ایسے دھاگوں کو عموما ٹریک پہ رہنے نہیں دیا جاتا اور نتیجہ اکثر و بیشتر دھاگے کے مقفل ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر آپ یہ وعدہ کریں کہ میں ایسا دھاگہ کھول کر اس حوالے سے ثبوت وہاں پیش کروں گا اور کوئی اسے ڈسٹرب نہیں کرے گا تو میں آغاز کرتا ہوں۔ لیکن تبصرہ کیے بغیر کیونکہ کوئی رہ نہیں سکے گا اس لئے بے شک تبصروں کے لئے ایک الگ دھاگہ بنادیا جائے۔ پہلے بھی ایسا کئی بار محفل پر ہوا کہ بعض خاص معلوماتی موضوعات کا تسلسل برقرار رکھنے اور انہیں ٹریک پر رکھنے کی غرض سے تبصروں کا دھاگہ الگ کھول دیا گیا۔ بہرحال یہ آپ کی اجازت کے بعد ہی میں شروع کرسکتا ہوں۔ اگر آپ حامی بھرتے ہیں تو میں حاضر ہوں اور ویسے بھی ثبوت دونوں طرف کے دیکھنے چاہئیں تاکہ حقائق تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ دھاگے کو ڈسٹربنس سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہوگی یا ساجد بھائی کی موڈریشن میں دھاگہ دیا جاسکتاہے۔
 
سچ میں جھوٹ کی آمیزش ہوجائے تو وہ سچ بھی قابلِ اعتبار نہیں رہتا۔ بعض مولوی (جو اہلِ تحقیق میں سے نہیں ہیں) قادیانیت کے حوالے سے جب بھی کوئی بے تحقیق بات لکھ کر اسکا پرچار کرتے ہیں، تو ایسا عمل کرنے سے وہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کر رہے، انکو سوچنا چاہئیے کہ انکے قارئین میں سے اگر کوئی انکی علمی خیانت سے آگاہ ہوجائے تو اس پر الٹا اثر مرتب ہوسکتا ے۔ میں خود ایک دو افراد سے واقف ہوں جو قادیانیت کی سچائی کی وجہ سے نہیں بلکہ مولوی کے خوامخواہ کے جھوٹ کی وجہ سے برگشتہ ہوئے۔ ادھر ادھر کی بے پرکی اڑانے کی بجائے بہتر بات یہی ہے کہ جن علمائے محققین اور اولیاء و صالحین نے خالص علمی بنیادوں پر قادیانیت کا مطالعہ کرکے اسکا علمی محاسبہ کیا ہے، ان تحقیقات کو عام کیا جائے۔" جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے" والی نفسیات علمی میدان میں درست نہیں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
رانا صاحب آپ کی پاکستان سے وفا داری ایک صدی کا قصہ ہو گئی جبکہ پاکستان کی اپنی عمر ابھی 66 سال بھی نہیں ہوئی۔

مزید یہ کہ یہ فورم محاذ آرائی کے لیے بالکل نہیں ہے۔ آپ اپنی باتیں ضرور شریک محفل کریں۔ سوال و جواب دلائل کے ساتھ ہوں تو کوکئی مضائقہ نہیں۔
 

رانا

محفلین
رانا صاحب آپ کی پاکستان سے وفا داری ایک صدی کا قصہ ہو گئی جبکہ پاکستان کی اپنی عمر ابھی 66 سال بھی نہیں ہوئی۔

شمشاد بھائی میں نے لکھا تھا:
ہماری پاکستان اور امت مسلمہ سے وفاداری کوئی ایک دو دن کی بات نہیں یہ ایک صدی کا قصہ ہے۔
- اس جملے میں صرف پاکستان کا ذکر نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لئئے خدمات کا بھی ذکر ہے اس لئے ایک صدی سے زائد کا قصہ ہے۔
- دوسرا پاکستان کی عمر بے شک 66 سال ہے لیکن ہماری خدمات پاکستان کے لئے صرف پاکستان بننے کے بعد تو شروع نہیں ہوئی تھیں۔ 1906 میں مسلم لیگ قائم ہوئی تھی جس کا مقصد پاکستان بنانا تھا۔ اور ہم اُس وقت سے پاکستان کے قیام کی جدو جہد میں شامل ہیں۔ یہ ایک صدی سے زائد کا قصہ ہے کہ آج 2013 چل رہا ہے۔

مزید یہ کہ یہ فورم محاذ آرائی کے لیے بالکل نہیں ہے۔ آپ اپنی باتیں ضرور شریک محفل کریں۔ سوال و جواب دلائل کے ساتھ ہوں تو کوکئی مضائقہ نہیں۔
شمشاد بھائی میں نے الگ دھاگہ کھول کر تاریخی معلومات اس حوالے سے شئیر کرنے کی بات کی تھی۔ بیچ میں اگر سوال و جواب شروع ہوجائیں گے اور وہ بھی ایسے حساس ایشو پر تو دو سو فیصد دھاگے کا انجام ظاہر ہے۔ تبصروں والے دھاگے میں کھل کر سوال و جواب کر لئے جائیں۔ میرا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ان خدمات کے حوالے سے کچھ معلومات ایک ہی جگہ تسلسل سے آجائیں کہ جب تک ایسے کسی ایشو پر یکجائی نظر نہ ڈالی جائے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ورنہ میں ابھی ایک واقعہ ہی بیان کررہا ہوں گا اور ساتھ ساتھ سوال جواب بھی ہورہے ہوں گے تو پڑھنے والے کے لئے اس میں سے صرف معلومات کو تسلسل سے پڑھنا کتنا جھنجلاہٹ کا موجب ہوگا۔

تو میں اسے آپ کی طرف سے اجازت سمجھ رہا ہوں۔ جزاک اللہ۔ ابھی تو میں آفس میں ہوں گھر جاکر دونوں دھاگے یعنی معلومات شئیر کرنے والا اور تبصروں والا اکٹھے بناتا ہوں۔ تبصروں والے کا لنک دوسرے دھاگے میں دے دوں گا۔ آپ پر کیونکہ پورے فورم کی ذمہ داری ہے اس لئے اس دھاگے کے لئے خاص طور پر آپ سے درخواست کرنا مزید آپ کا کام بڑھانے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے میں ساجد بھائی گزارش کروں گا کہ یہ دھاگہ کیونکہ میں اسی زمرے میں کھولوں گا اس لئے وہ اس بات کو دیکھ لیا کریں کہ اگر کوئی تبصرہ اُس دھاگے میں آجائے تو اسے تبصروں والے دھاگے میں منتقل کردیا کریں۔ جزاک اللہ۔
 

ساجد

محفلین
اس دھاگے کا افتتاحی مضمون ایک ماہنامے سے ماخوذ ہے جسے سید شہزاد ناصر صاحب نے یہاں کاپی پیسٹ کیا اور اس کی منظوری یہ امر سامنے رکھ کر دی گئی تھی کہ اس میں کسی عقیدے پر براہِ راست حملہ نہیں تھا بلکہ ایک فکری طبقے کے عمومی روئیے پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور فریقِ ثانی ان اعتراضات کا جواب پیش کر سکتا ہے لیکن طرفین کو باہمی احترام ہر حال میں ملحوظ رکھنا ہو گا۔
ساتی ہی ساتھ اس حقیقت کا بھی اقرار کرنا چاہئیے کہ کاپی پیسٹ کے مواد سے تعمیری بحث کی توقع بہت کم ہوتی ہے کیونکہ یہ مواد پیش کار کی اپنی کوشش و تحقیق نہیں ہوتی اور اس پر اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دینے میں پیش کار کو خاصی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار کہتے ہیں کہ اس فورم پر آپ جو بھی لکھیں اپنی کوشش و تحقیق سے لکھیں تا کہ مثبت انداز میں گفت و گو کو فروغ مل سکے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع میسر آئیں۔
میں شمشاد بھائی اور رانا بھائی سے درخواست کروں گا کہ اس موضوع کے حوالے سے فی الحال کوئی نئی بحث شروع کرنے سے گریز فرمائیں تا وقتیکہ دھاگے کے آغاز کنندہ سید شہزاد ناصر صاحب خود سے اپنے مراسلے پر بات کرنے کے لئے دستیاب نہیں ہوتے۔ میں نے انہیں ٹیگ کر دیا ہے اگر وہ کل تک تشریف نہ لائے تو اس دھاگے کو ختم کر دیا جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے اس بات پر ذرا برابر بھی اعتراض نہیں کہ تحقیقی اور علمی بحث ہونی چاہیے لیکن بحث برائے بحث نہیں۔

جہاں تک اس دھاگے کا سوال ہے تو یہ دھاگہ ایسی بحث کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اسے مقفل کیا جا رہا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top