بہاریں روٹھ جائیں گی (محکمہء موسمیات)

محمداحمد

لائبریرین
اسلام آباد محکمہء موسمیات کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستانی بہار کا موسم نہ دیکھ سکیں۔

ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں بھی سال بہ سال اضافے کا امکان ہے۔

خبر کا ربط
 
خیبر پختونخواہ واحد صوبہ ہے جو بون چیلنج کا حصہ ہے۔ بقول وائس آف امریکہ

Khyber Pakhtunkhwa is the only province or sub-national entity to be inducted in the Bonn Challenge
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے بھی آج یہ خبر پڑھی اور حقیقی معنوںمیں شجرکاری کی اہمیت کا ادراک ہوا ۔

Billion Tree Tsunami
خیبر پختوانخواہ حکومت کا ایک کامیاب پراجیکٹ ہے اور اب تک تقریبا ۷۵ کروڑ درخت لگ چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ

کیا واقعی اتنے درخت لگ چکے ہیں؟

شجر کاری کی اہمیت کا احساس آنے والے وقت میں ہمیں ہوگا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
خیبر پختونخواہ واحد صوبہ ہے جو بون چیلنج کا حصہ ہے۔ بقول وائس آف امریکہ

Khyber Pakhtunkhwa is the only province or sub-national entity to be inducted in the Bonn Challenge

چور تو سب ہی ہیں لیکن سندھ والے نکمے بھی ہیں سو وہ تو شاید ہی یہ کام کریں۔

پنجاب حکومت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

بلوچستان میں تو شاید ہی شجر کاری ہوسکے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اللہ کرے ہماری حکومتیں اس بارے میں سوچیں۔ ہمیں انفرادی سطح پر بھی شجر کاری کرنی چاہیے لیکن بعض کام حکومتوں کے لیول پر ہی کرنے والے ہوتے ہیں، موسمی تغیرات کو حکومتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہی روکا جا سکتا ہے۔ اور ادھر ہماری حکومتوں کا یہ حال ہے شجر کاری تو دور کی بات ہے پہلے ہی سے موجود درختوں کو دھڑا دھڑ کاٹ رہے ہیں اور ان کی جگہ سیمنٹ اور کنکریٹ کے پہاڑ اُگا رہے ہیں۔

پنجاب کے موسم کے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ موسم بہار اب نام ہی کا رہ گیا ہے، ادھر فروری میں سردی ختم ہوئی ادھر مارچ کے اختتام اور اپریل سے گرمی شروع جو اکتوبر کے اختتام تک جاتی ہے۔ معتدل موسم جیسے ختم ہی ہوتا جا رہا ہے، ایک مارچ اور دوسرا نومبر ہی رہ گیا ہے۔ بڑے اور عظیم الشان درجے پر شجر کاری نہ ہوئی تو یہ بھی آتش فشاں ہو جائیں گے۔
 
اسلام آباد میں نئی سڑکوں کی تعمیر یا موجودہ سڑکوں کو چوڑا کرنے کے چکر میں گرین بیلٹس ختم ہو رہی ہیں۔
شروع میں مچنے والے شور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ متبادل جگہوں پر شجر کاری کی جائے گی، بعد میں معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے، اور سب بھول جاتے ہیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
پاکستان سے زیادہ قصور دوسرے ممالک کا ہے۔گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ شاید بہت ہی کم ہے۔لہٰذا تمام اقدامات کے باوجود پاکستان میں گلوبل وارمنگ کے اثرات کو نہیں روکا جا سکتا۔
بہرکیف، یہ ایک افسوسناک اور غمگین خبر ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان سے زیادہ قصور دوسرے ممالک کا ہے۔گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ شاید بہت ہی کم ہے۔لہٰذا تمام اقدامات کے باوجود پاکستان میں گلوبل وارمنگ کے اثرات کو نہیں روکا جا سکتا۔
بہرکیف، یہ ایک افسوسناک اور غمگین خبر ہے۔
گلوبل وارمنگ کے اثرات کو روکا جا سکتا ہے اگر ہم شجر کاری مہم کو کامیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں.
 

محمداحمد

لائبریرین
پنجاب کے موسم کے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ موسم بہار اب نام ہی کا رہ گیا ہے، ادھر فروری میں سردی ختم ہوئی ادھر مارچ کے اختتام اور اپریل سے گرمی شروع جو اکتوبر کے اختتام تک جاتی ہے۔ معتدل موسم جیسے ختم ہی ہوتا جا رہا ہے، ایک مارچ اور دوسرا نومبر ہی رہ گیا ہے۔ بڑے اور عظیم الشان درجے پر شجر کاری نہ ہوئی تو یہ بھی آتش فشاں ہو جائیں گے۔

واقعی معتدل موسم اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسلام آباد میں نئی سڑکوں کی تعمیر یا موجودہ سڑکوں کو چوڑا کرنے کے چکر میں گرین بیلٹس ختم ہو رہی ہیں۔
شروع میں مچنے والے شور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ متبادل جگہوں پر شجر کاری کی جائے گی، بعد میں معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے، اور سب بھول جاتے ہیں۔

سڑکوں کے معاملے میں تو ہماری حکومت کسی بھی چیز پر سمجھوتہ کر سکتی ہیں۔
 
اسلام آباد محکمہء موسمیات کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستانی بہار کا موسم نہ دیکھ سکیں۔

ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں بھی سال بہ سال اضافے کا امکان ہے۔

آخری امید تو اب اللہ سے ہی ہے کہ وہ اپنا کرم فر مائے ۔
 

عثمان

محفلین
گلوبل وارمنگ کے اثرات کو روکا جا سکتا ہے اگر ہم شجر کاری مہم کو کامیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں.
بلاشبہ شجر کاری انتہائی اہم مہم ہے تاہم یہ سارا مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔
گرین ہاوس گیسز کے اخراج کے اہم ترین ذرائع صنعتی آلودگی اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ کیا اس سے نبردآزما ہونے کے لیے کوئی موثر مہم موجود ہے ؟
 

عثمان

محفلین
global_emissions_country_2015.png


ماخذ: امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات

ماحولیاتی آلودگی کے بڑے ذمہ دار بڑے صنعتی ممالک ہیں۔
 

عثمان

محفلین
گرین ہاوس گیسز کے اخراج کے ضمن میں پاکستان کا قصور محض %0.74 ہے۔
ماخذ
اس ربط پر کافی اچھا چارٹ موجود ہے۔ تاہم معلوم نہیں کہ محفل پر embed کیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔
 
Top