کاشفی
محفلین
غزل
(مُنشی سید ریاض احمد ، متخلص ریاض - خیر آبادی، شاعری کا وطن لکھنؤ)
بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں
کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں
رہے گی یاد اُنہیں بھی ، مجھے بھی، وصل کی رات
کہ اُن سا شوخ نہیں، مجھ سا بیقرار نہیں
سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی
اب اُن کے آنے کا ہم کو بھی انتظار نہیں
مُجھے یہ ڈر ہے نہ ہو اور طول محشر کو!
مرے گناہوں کا مالک مرے شمار نہیں
جناب شیخ نے مے پی تو مُنہ بنا کے کہا
مزا بھی تلخ ہے، کچھ بو بھی خوشگوار نہیں
اذیت اس دل مردہ کو کیوں ہے پہلو میں
عذاب گور نہیں قبر کا فشار نہیں
یہی چراغِ لحد تھے، یہی تھے قبر کے پھول
اب اُن کے نقشِ قدم بھی سرِمزار نہیں
حنا لگا کے پہنچتے ہیں گل رخوں میںریاض
کچھ اُن کی ریش مبارک کا اعتبار نہیں
(مُنشی سید ریاض احمد ، متخلص ریاض - خیر آبادی، شاعری کا وطن لکھنؤ)
بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں
کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں
رہے گی یاد اُنہیں بھی ، مجھے بھی، وصل کی رات
کہ اُن سا شوخ نہیں، مجھ سا بیقرار نہیں
سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی
اب اُن کے آنے کا ہم کو بھی انتظار نہیں
مُجھے یہ ڈر ہے نہ ہو اور طول محشر کو!
مرے گناہوں کا مالک مرے شمار نہیں
جناب شیخ نے مے پی تو مُنہ بنا کے کہا
مزا بھی تلخ ہے، کچھ بو بھی خوشگوار نہیں
اذیت اس دل مردہ کو کیوں ہے پہلو میں
عذاب گور نہیں قبر کا فشار نہیں
یہی چراغِ لحد تھے، یہی تھے قبر کے پھول
اب اُن کے نقشِ قدم بھی سرِمزار نہیں
حنا لگا کے پہنچتے ہیں گل رخوں میںریاض
کچھ اُن کی ریش مبارک کا اعتبار نہیں