بہانہ بھی نہیں۔

رشید حسرت

محفلین
وعدہ کرنا بھی نہِیں تُجھ کو نِبھانا بھی نہِیں
سب ہے معلُوم تُُجھے لوٹ کے آنا بھی نہِیں

رہنے دیتا ہی نہِیں تُو جو درُونِ دل اب
اور مِرا دِل کے سِوا کوئی ٹھِکانہ بھی نہِیں

کِتنے جُگنُو تھے، مِرے دوست ہُوئے گرد آلُود
اب مُجھے دِیپ محبّت کا جلانا بھی نہِیں

تِتلِیاں لب پہ مِرے کیسی یہ مُسکان کی ہیں
کھولنا تُجھ پہ نہِیں بھید، چُھپانا بھی نہِیں

اُس کی چُپ دِل کو مگر چِیر کے رکھ دیتی ہے
بات کرنے کا مِرے پاس بہانہ بھی نہِیں

میں نے اِک عُمر اِسی میں ہی لگا دی یارو
"اب تو یک طرفہ محبّت کا زمانہ بھی نہِیں"

یہ جو منسُوب ہے اِک درد کہانی مُجھ سے
سچ تو یہ ہے کہ کوئی جُھوٹا فسانہ بھی نہِیں

میں نے ہر بار محبّت کا بھرم رکھا ہے
اب کے رُوٹھا تو تِرے شہر پِھر آنا بھی نہِیں

اب کہِیں اور رشِؔید اپنا ٹِھکانہ کر لے
مجُھ کو اب درد کو سِینے سے لگانا بھی نہِیں

رشِید حسرتؔ۔
 
Top