@چھوٹا غالب سائیں، یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ اردو زبان و ادب کے اساتذہ، محققین اور ناقدین کہتے ہیں۔
مثال کے طور پر غالب کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
اے دلِ ناعاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر
کون لاسکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
اب ان لوگوں کا کہنا ہے کہ 'ناعاقبت اندیش' غلط ہے اور صحیح اصطلاح 'عاقبت نااندیش' ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں اس ضمن میں۔
چھڈو سرکار
اتنے ہی اردو دان ہوتے تو غالبؔ کی جگہ انہی کا نام ہوتا
ویسے تمام اساتذہ کے کلام میں ایسے نمونے ملتے ہیں ۔ علم صرف کی زبان میں ایسی چیزوں کو "شاذ" کہا جاتا ہے
غالبؔ کی تو عادت تھی اٹکھیلیاں کرنے کی، انہوں نے اور بھی بہت سی چیزوں سے کھلواڑ کیا ہے
صرف یہی دیکھ لیں کہ انہوں نے ہر اس کام کے الٹ کیا جو کہ عوام کا رواج اور عام روش تھی
دہلی کے شرفا سر منڈاتے تھے اور داڑھی رکھتے تھے
مگر غالبؔ شیو کراتے تھے اور زلفیں بھی ماشاءاللہ تھیں
جب داڑھی میں سفید بال آئے تو داڑھی بڑھا لی اور سر منڈادیا
غالبؔ کی تو ساری زندگی مثال ہے، دریا کے دھارے کے الٹ تیرنے کی
لیکن مزے کی بات یہ کہ
غالب کی یہ اٹکھیلیاں اور الٹ پسندی صرف دیوان میں ملتی ہے
خطوط کی زبان ایسی شستہ اور رواں ہے کہ مانو بہتے چلے جاؤ ساتھ۔ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ بھی غالب لکھتے تھے
وہی زبان پھر سر سید احمد خان اور مولانا حالی نے اپنائی
مکمل طور پر پیروی تو نہ کر سکے مگر خوب نبھایا
میرؔ :۔ کیا بود و باش
پوچھو ہو پورب کے ساکنو
پچھتاؤ گے
سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
باتاں ہماریاں
میں بھی
کبھو ، کسو کا