کاشفی
محفلین
غزل
(حکیم آزاد انصاری)
بہت اغماض بھی اچھا نہیں ہے
ہمارا کوئی حق ہے یا نہیں ہے؟
ضرورت تھی کہ تو غافل نہ ہوتا
مگر تقدیر سے ایسا نہیں ہے
مٹانا ہے تو کوتاہی نہ فرما
سِسکتا چھوڑنا اچھا نہیں ہے
کسی کو تیری نسبت کیا بتا دوں
یہ دیکھا ہے کہ کچھ دیکھا نہیں ہے
کبھی اپنے سلوکوں پر نظر کر
شکایت ہو تو کچھ بےجا نہیں ہے
نگاہِ لطف کی تکلیف فرما
کہ ضبطِ شوق کا یارا نہیں ہے
تعلق جان کو آیا ہوا ہے
ترے ہوتے بھی صبر آتا نہیں ہے
کبھی وہ سنگدل تک مہرباں تھا
اور اب قسمت سےبھی ایسا نہیں ہے
ترے احباب اور یہ کسمپرسی
تجھے کیا واقعی پروا نہیں ہے
اِدھر بھی، اک نگاہِ لطف اِدھر بھی
غریب آزاد مستثنیٰ نہیں ہے