وقار علی ذگر
محفلین
ابوکا انتقال 10 جولائی 2018 کو ہوا اور یہ دوسر ی عیدالفطر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ موجود نہیں۔ ابو کے انتقال سے لیکر آج تک کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ وہ مجھ سے دور ہوئے ہوں۔ مجھے نہیں یاد کہ جب ابو ٹھیک تھے تو کیسے دکھتے تھے؟ 18 مارچ 2002 کو وہ فالج کے عارضے میں مبتلا ہوئے اور وفات تک وہ اسی مرض کا شکار رہے۔
ہم لوگ گاؤں (سوات) میں رہائش پذیر تھے اور ابو پاکستان نیشنل شیپنگ کارپوریشن (کراچی) مین پرائیویٹ ملازم تھے۔ دادی کے انتقال کے بعد ہم لوگ کراچی منتقل ہوئے اور ہمارے کراچی منتقل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ابو بیمار ہوگئے۔ نیا شہر، نئے چہرے، نیا ماحول اور ایسے میں تمام رشتہ داروں نے ہم سے قطع تعلق کرلیا اور ہم اِس گنجان آباد شہر میں تنہا زندگی گزارنے پر مجبورہوگئے۔ ایسے بھی دن آئے کہ ہم ایک وقت کی روٹی کھاتے تو دوسرے وقت کیلئے پریشان رہتے۔ کچی آبادی میں رہائش پذیر تھے اور حکومتی لاٹھی چلی تو گھر کا وہ واحد سایہ بھی ہمارے سروں سے اُٹھ گیا اور ہم ایک پریشانی سے نکلے نہ تھے کہ دوسری میں آگھِرے ۔ اور خانہ بدوشوں کی طرح کبھی ایک جگہ اور کبھی دوسری جگہ رہائش اختیار کرتے اسی خانہ بدوشی کی حالت میں تقریباََ گھر کا سامان بھی دربدر ہوگیا۔ خیروقت گزرتا گیا بڑے بھائی کی نوکری لگی حالات کچھ سنبھلے تو 2012 میں اپنا گھر لیا آج بھی یاد ہے کہ ابو کے خوشی کے مارے آواز نہیں نکل رہی تھی اور مسلسل رو رہے تھے اور یہ کہتے رہے کہ:
وقت تیزی سے بدلتا گیا تینوں بڑے بھائیوں کی نوکری لگی میں نے حفظ کیا، میٹرک ، انٹر، گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ پہلی بار جب پاکستان آرمی کے کمیشن ٹیسٹ میں مجھے چھ انگلیوں پر ان فٹ قراردیا گیا تو ابو کو بڑا دُکھ ہوا اور کہنے لگے:
پھر وہ بھی دن آیا جب 28 دسمبر 2016 کو میرا جوائننگ لیٹر آیا پاکستان ائیرفورس سے اُس وقت ابو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
میرا ابو سے تعلق ایک بیٹا کم اور دوست کی حیشیت سے زیادہ رہا میں اپنی ہر بات اُن سے کرتا کوئی کام ایسا نہیں تھا جو میں نے اُن سے پوچھے بغیر کیا ہو۔ وہ میرے رازدان تھے میرے اُستاد تھے میرے دوست تھے جب کبھی کچھ لکھتا تو اُنھیں دکھاتا وہ اگر ترمیم کرواتے تو کرلیتا ورنہ مسکراتے ہوئے شاباشی دیتے اور پیار سے بوسہ لیتے ۔ جب کبھی میں پریشان ہوتا اُن کے ساتھ جا بیٹھتا اور بیٹھتے ساتھ ہی پوچھتے "ہاں چھوٹو کیاہوا"
اُن کو گزرے ہوئے دو سال کا عرٖصہ ہونے کو ہے اُن کے جانے کے بعد نا تو کسی سے مشورہ کیا نہ ہی کسی سے راز کی بات کی اور نہ ہی کچھ لکھا اور نہ ہی اُنکی کوئی بات بھول پایا لیکن ایک بات جو اُنکی ہروقت کانوں میں گھونجتی ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم چاروں بھائی برسرِ روزگا ہوئے گھر خریدا اور حالات قدرے بہتر ہوئے تو ابو کہتے:
اگر چہ ابو کی ہربات ٹھیک تھی اُنکی ہربات مانی لیکن اُنکی یہ بات جھوٹ تھی کہ بہت اچھا وقت ہوگا لیکن میں نہیں ہوگا ۔ اب سب کچھ ہے گھر بھی ہے ، نوکری بھی ہے ، گاڑی بھی ہے لیکن وہ وقت نہیں ہے، وہ وقت نہیں ہے
اُن کی موت کے بعد چار لائنیں جو ذہن میں آئی اور میں نے اپنے پاس محفوظ کی آج پہلی بار کسی کے ساتھ یا کسی فورم پر شیئر کررہا ہوں۔ نہیں جانتا اوزان کے بارے میں ردیف، قافیے کے بارے میں لیکن جو ذہن میں آیا وہ لکھ دیا:
ہم لوگ گاؤں (سوات) میں رہائش پذیر تھے اور ابو پاکستان نیشنل شیپنگ کارپوریشن (کراچی) مین پرائیویٹ ملازم تھے۔ دادی کے انتقال کے بعد ہم لوگ کراچی منتقل ہوئے اور ہمارے کراچی منتقل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ابو بیمار ہوگئے۔ نیا شہر، نئے چہرے، نیا ماحول اور ایسے میں تمام رشتہ داروں نے ہم سے قطع تعلق کرلیا اور ہم اِس گنجان آباد شہر میں تنہا زندگی گزارنے پر مجبورہوگئے۔ ایسے بھی دن آئے کہ ہم ایک وقت کی روٹی کھاتے تو دوسرے وقت کیلئے پریشان رہتے۔ کچی آبادی میں رہائش پذیر تھے اور حکومتی لاٹھی چلی تو گھر کا وہ واحد سایہ بھی ہمارے سروں سے اُٹھ گیا اور ہم ایک پریشانی سے نکلے نہ تھے کہ دوسری میں آگھِرے ۔ اور خانہ بدوشوں کی طرح کبھی ایک جگہ اور کبھی دوسری جگہ رہائش اختیار کرتے اسی خانہ بدوشی کی حالت میں تقریباََ گھر کا سامان بھی دربدر ہوگیا۔ خیروقت گزرتا گیا بڑے بھائی کی نوکری لگی حالات کچھ سنبھلے تو 2012 میں اپنا گھر لیا آج بھی یاد ہے کہ ابو کے خوشی کے مارے آواز نہیں نکل رہی تھی اور مسلسل رو رہے تھے اور یہ کہتے رہے کہ:
"میں تم لوگوں کو خوشی نہیں دے سکا جو ایک باپ کا حق ہے تم لوگ بدنصیب ہو کہ کراچی آئے اور میں بیمار ہوگیا لیکن پھر ایک دم کہا اللہ کا شکر ہے اس میں بھی کوئی بہتری ہوگی اور پھر تو بہ کی"۔
وقت تیزی سے بدلتا گیا تینوں بڑے بھائیوں کی نوکری لگی میں نے حفظ کیا، میٹرک ، انٹر، گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ پہلی بار جب پاکستان آرمی کے کمیشن ٹیسٹ میں مجھے چھ انگلیوں پر ان فٹ قراردیا گیا تو ابو کو بڑا دُکھ ہوا اور کہنے لگے:
"اب اس میں ہمارا کیا قصور جب اللہ نے چھ دی ہیں تو ہم لوگ کیا کریں اور رونے لگے"۔
پھر وہ بھی دن آیا جب 28 دسمبر 2016 کو میرا جوائننگ لیٹر آیا پاکستان ائیرفورس سے اُس وقت ابو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
میرا ابو سے تعلق ایک بیٹا کم اور دوست کی حیشیت سے زیادہ رہا میں اپنی ہر بات اُن سے کرتا کوئی کام ایسا نہیں تھا جو میں نے اُن سے پوچھے بغیر کیا ہو۔ وہ میرے رازدان تھے میرے اُستاد تھے میرے دوست تھے جب کبھی کچھ لکھتا تو اُنھیں دکھاتا وہ اگر ترمیم کرواتے تو کرلیتا ورنہ مسکراتے ہوئے شاباشی دیتے اور پیار سے بوسہ لیتے ۔ جب کبھی میں پریشان ہوتا اُن کے ساتھ جا بیٹھتا اور بیٹھتے ساتھ ہی پوچھتے "ہاں چھوٹو کیاہوا"
اُن کو گزرے ہوئے دو سال کا عرٖصہ ہونے کو ہے اُن کے جانے کے بعد نا تو کسی سے مشورہ کیا نہ ہی کسی سے راز کی بات کی اور نہ ہی کچھ لکھا اور نہ ہی اُنکی کوئی بات بھول پایا لیکن ایک بات جو اُنکی ہروقت کانوں میں گھونجتی ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم چاروں بھائی برسرِ روزگا ہوئے گھر خریدا اور حالات قدرے بہتر ہوئے تو ابو کہتے:
"بہت اچھا وقت ہے لیکن میں بیمار ہوں اور بہت اچھا وقت ہوگا لیکن میں نہیں ہوں گا"۔
اگر چہ ابو کی ہربات ٹھیک تھی اُنکی ہربات مانی لیکن اُنکی یہ بات جھوٹ تھی کہ بہت اچھا وقت ہوگا لیکن میں نہیں ہوگا ۔ اب سب کچھ ہے گھر بھی ہے ، نوکری بھی ہے ، گاڑی بھی ہے لیکن وہ وقت نہیں ہے، وہ وقت نہیں ہے
اُن کی موت کے بعد چار لائنیں جو ذہن میں آئی اور میں نے اپنے پاس محفوظ کی آج پہلی بار کسی کے ساتھ یا کسی فورم پر شیئر کررہا ہوں۔ نہیں جانتا اوزان کے بارے میں ردیف، قافیے کے بارے میں لیکن جو ذہن میں آیا وہ لکھ دیا:
غم کے دن ختم ہوئے، غم ختم ہو نہ پائے گا
یوں لوٹ کے جانے والے تو لمحہ لمحہ یاد آئے گا
ٹوٹ گیاہوں تیرے جانے سے کچھ اس طرح کہ اب
مجھے سمیٹنے والا خود بھی بکھر جائے گا
یوں لوٹ کے جانے والے تو لمحہ لمحہ یاد آئے گا
ٹوٹ گیاہوں تیرے جانے سے کچھ اس طرح کہ اب
مجھے سمیٹنے والا خود بھی بکھر جائے گا
آخری تدوین: