بہت عاجز و مسکیں انسان ہوں میں ۔۔۔ برائے اصلاح

صفی حیدر

محفلین
محترم اساتذہ ۔۔الف عین ابن رضا۔۔۔ اور دیگر شرکاء محفل سے اصلاح کی درخواست ہے ۔

بہت عاجز و مسکیں انسان ہوں میں
کہ بس علم و فن کا قدر دان ہوں میں
نہیں زندگی سے تہی شعر میرے
نہ لکھتا کوئی لفظ بے جان ہوں میں
تعارف کا محتاج ہر گز نہیں ہوں
مہک کی طرح اپنی پہچان ہوں میں
چراغِ شبِ ہجر کے جیسا ہوں میں
روایت محبت کی ہی شان ہوں میں
نہ نشتر چلا ئو یوں تنقید کے تم
کہ خود ذات کا اپنی عرفان ہوں میں
کہیں بہہ نہ جا ئو اسی رو میں تم بھی
کہ جذبات کا ایک طوفان ہوں میں
برا تم نہ مانو مری تلخی کا بھی
تمھاری طرح ایک انسان ہوں میں
نمو پاتے ہیں جذبوں سے لفظ میرے
صفی ایسا احساسِ وجدان ہوں میں
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھی کوشش ہے صفی صاحب

مزید نکھار کے لیے چند تجاویز
آپ نے کچھ جگہوں پر اسقاط کی رعایت کو بے جا استعمال کیا ہے ہے جس سے روانی میں خلل واقع ہوتا ہے جیسے کہ مسکیں، یوں، جذبوں، تلخی وغیرہ۔ الفاظ کی نشست بدل کر بہتر کیا جا سکتا ہے طرح کا تلفظ غلط باندھا ہے ر ساکن ہے۔ اسی طرح قدر کا بھی د ساکن ہے

روایت محبت کی ترکیب درست استعمال نہیں ہوئی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت عاجز و مسکیں انسان ہوں میں
کہ بس علم و فن کا قدر دان ہوں میں
مطلع بدلنے کی ضرورت ہے۔ قدر کا تلفظ غلط ہے۔ یہاں کس قدر الے قدر کا محل نہیں، یہ قدر بر وزن درد ہے
پہلا مصرع بھی ’مسک‘ تقطیع کی وجہ سے چست نہیں۔

نہیں زندگی سے تہی شعر میرے
نہ لکھتا کوئی لفظ بے جان ہوں میں
۔÷ دوسرا مصرع ، لفظوں کی نشست درست نہیں۔

تعارف کا محتاج ہر گز نہیں ہوں
مہک کی طرح اپنی پہچان ہوں میں
چراغِ شبِ ہجر کے جیسا ہوں میں
÷÷÷‘کے جیسا‘ کی بجائے کچھ اور لاؤ۔

روایت محبت کی ہی شان ہوں میں
÷÷ ’ہی‘ بھرتی کا لگ رہا ہے۔

نہ نشتر چلا ئو یوں تنقید کے تم
کہ خود ذات کا اپنی عرفان ہوں میں
کہیں بہہ نہ جا ئو اسی رو میں تم بھی
کہ جذبات کا ایک طوفان ہوں میں
برا تم نہ مانو مری تلخی کا بھی
÷÷÷ ’تلخی‘ کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا ، ’بھی‘ بھی بھرتی کا ہے۔ ’تلخیوں کا‘ کیا جا سکتا ہے۔

باقی تقریبآ درست ہے
 

صفی حیدر

محفلین
اچھی کوشش ہے صفی صاحب

مزید نکھار کے لیے چند تجاویز
آپ نے کچھ جگہوں پر اسقاط کی رعایت کو بے جا استعمال کیا ہے ہے جس سے روانی میں خلل واقع ہوتا ہے جیسے کہ مسکیں، یوں، جذبوں، تلخی وغیرہ۔ الفاظ کی نشست بدل کر بہتر کیا جا سکتا ہے طرح کا تلفظ غلط باندھا ہے ر ساکن ہے۔ اسی طرح قدر کا بھی د ساکن ہے

روایت محبت کی ترکیب درست استعمال نہیں ہوئی
محترم سر بہت شکریہ آپ نے راہنمائی کی ۔۔سر " اسقاط کی رعایت" کی اگر کچھ وضاحت کر دیں تو شکر گزار ہوں گا ۔۔قدر کا تلفظ واقعی غلط باندھا گیا ہے لیکن " طرح " کو کیا ۔۔ " فِعْل ، فَعَل " دونوں صورتوں میں نہیں باندھا جا سکتا ۔۔ ؟؟؟
 

ابن رضا

لائبریرین
محترم سر بہت شکریہ آپ نے راہنمائی کی ۔۔سر " اسقاط کی رعایت" کی اگر کچھ وضاحت کر دیں تو شکر گزار ہوں گا ۔۔قدر کا تلفظ واقعی غلط باندھا گیا ہے لیکن " طرح " کو کیا ۔۔ " فِعْل ، فَعَل " دونوں صورتوں میں نہیں باندھا جا سکتا ۔۔ ؟؟؟
طرح کی وضاحت سر الف عین نے اوپر کر دی ہے یہ درست ہے۔ کسی حرف کو گرانے کی رعایت ان جگہوں پر بے محل ہوجاتی ہے جہاں بلخصوص تین حرفی لفظ کو یک حرفی کردیا جائے جیسے یوں کیوں جذبوں مطلب نوں غنہ تو تقطیع میں گرایا ہی جاتا ہے اس
سے پچھلے حروف البتہ پورے ادا کیے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی گرایا گیا لفظ ترنم اور روانی میں ذوقِ سلیم کے برعکس محسوس ہوتا ہے اس لیے ایسے اخفا سے اجتناب برتا جاتا ہے
 

صفی حیدر

محفلین
بہت عاجز و مسکیں انسان ہوں میں
کہ بس علم و فن کا قدر دان ہوں میں
مطلع بدلنے کی ضرورت ہے۔ قدر کا تلفظ غلط ہے۔ یہاں کس قدر الے قدر کا محل نہیں، یہ قدر بر وزن درد ہے
پہلا مصرع بھی ’مسک‘ تقطیع کی وجہ سے چست نہیں۔

نہیں زندگی سے تہی شعر میرے
نہ لکھتا کوئی لفظ بے جان ہوں میں
۔÷ دوسرا مصرع ، لفظوں کی نشست درست نہیں۔

تعارف کا محتاج ہر گز نہیں ہوں
مہک کی طرح اپنی پہچان ہوں میں
چراغِ شبِ ہجر کے جیسا ہوں میں
÷÷÷‘کے جیسا‘ کی بجائے کچھ اور لاؤ۔

روایت محبت کی ہی شان ہوں میں
÷÷ ’ہی‘ بھرتی کا لگ رہا ہے۔

نہ نشتر چلا ئو یوں تنقید کے تم
کہ خود ذات کا اپنی عرفان ہوں میں
کہیں بہہ نہ جا ئو اسی رو میں تم بھی
کہ جذبات کا ایک طوفان ہوں میں
برا تم نہ مانو مری تلخی کا بھی
÷÷÷ ’تلخی‘ کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا ، ’بھی‘ بھی بھرتی کا ہے۔ ’تلخیوں کا‘ کیا جا سکتا ہے۔

باقی تقریبآ درست ہے
محترم سر بہت شکریہ ۔۔۔ آپ نے جو اصلاح کی اس کی روشنی میں تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ جو الفاظ بھرتی کے ہیں ان کی جگہ موزوں الفاظ لانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
طرح کی وضاحت سر الف عین نے اوپر کر دی ہے یہ درست ہے۔ کسی حرف کو گرانے کی رعایت ان جگہوں پر بے محل ہوجاتی ہے جہاں بلخصوص تین حرفی لفظ کو یک حرفی کردیا جائے جیسے یوں کیوں جذبوں مطلب نوں غنہ تو تقطیع میں گرایا ہی جاتا ہے اس
سے پچھلے حروف البتہ پورے ادا کیے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی گرایا گیا لفظ ترنم اور روانی میں ذوقِ سلیم کے برعکس محسوس ہوتا ہے اس لیے ایسے اخفا سے اجتناب برتا جاتا ہے
شکریہ سر آپ نے جو وضاحت کی سمجھ آ گئی ہے اور میرے علم اضافعہ ہوا ہے ۔ محترم سر ایک راہنمائی اور چاہیے ۔ لفظ " جذبوں " کی تقظیع کیا ہو گی ۔؟؟؟؟
 
Top