ناز خیالوی "بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے" نازؔ خیالوی

بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنک و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے

ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے

بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی !
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے

مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے

خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی
جو گوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے

پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مُردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے

بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے
نازؔ خیالوی
 
بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے

ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں، کبھی منظر نہیں رہتے

بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی!
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے

مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے

خود آگاہی کی منزل عمر بھی ان کو نہیں ملتی
جو کوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے

پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے

بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے

لہو کے پھول
(نازؔ خیالوی)​
 
آخری تدوین:
بعض اشعار کمال ہیں۔
بہت خوب!



اس شعر میں ردیف 'رہتے' کیوں نہیں نبھایا گیا ؟
کیا ایسا ممکن ہے یا یہ ٹائپو ہے؟
زیادہ امکان ٹائپو ہی کے لگتے ہیں۔ کتاب سے دوبارہ چیک کر کے تبدیل کیے دیتا ہوں۔ پسند کرنے اور نہایت شائستگی سے توجہ دلانے کا بہت بہت شکریہ۔ جزاک اللہ۔
 
آخری تدوین:
بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے

ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں، کبھی منظر نہیں رہتے

بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی!
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے

مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے

خود آگاہی کی منزل عمر بھی ان کو نہیں ملتی
جو کوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے

پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے

بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے

لہو کے پھول
(نازؔ خیالوی)​

جناب لہو کے پھول نہیں (تم اِک گورکھ دھندا ہو)
 
میں نے "سرچ" کرنے کی کوشش کی تھی لیکن رزلٹ میں نہیں آئی (شاید آپ کے عنوان میں لفظ پیغمبر کی وجہ سے) اور سابقہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے لگا شاید ناز خیالوی صاحب کی یہ غزل موجود نہیں ہے محفل میں۔ توجہ دلانے اور ضم کرنے کا شکریہ۔
 
میرے پاس جو ناز خیالوی صاحب کی کتاب ہے اس کا عنوان "لہو کے پھول" ہی ہے محترم اور یہ اس کی پہلی غزل ہے۔
ایک چھوٹی سی وضاحت کے خضرتِ نازؔ خیالوی نے کتاب کا نام لہو کے پھول ہی رکھا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے شاگرد جناب جاوید اقبال زاہد چنیوٹی نے اُن کی کتاب منظرِ عام پر لائی اور کتاب کا نام تبدیل کر کے تم اِک گورکھ دھندا ہو کر دیا اس کتاب کی اشاعت 2014 میں ہوئی
 
میرے پاس جو کتاب ہے اس کی اشاعت سن 2012 کی ہے۔
ایک چھوٹی سی وضاحت کے خضرتِ نازؔ خیالوی نے کتاب کا نام لہو کے پھول ہی رکھا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے شاگرد جناب جاوید اقبال زاہد چنیوٹی نے اُن کی کتاب منظرِ عام پر لائی اور کتاب کا نام تبدیل کر کے تم اِک گورکھ دھندا ہو کر دیا اس کتاب کی اشاعت 2014 میں ہوئی
 

محمد وارث

لائبریرین
Top