شاکر صاحب اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔
ہجائے بلند - دو حرفی لفظ، کسی بھی حرکت کے ساتھ، جیسے ہم، تم، دِل، وغیرہ۔ اس کو عروض میں سببِ خفیف کہتے ہیں اور اشاری نظام میں کسی بھی علامت سے ظاہر کر لیں جیسے 2
ہجائے کوتاہ - ایک اکیلا حرف چاہے متحرک ہو چاہے ساکن لیکن کسی دوسرے ہجے یا سلیبل کا حصہ نہ ہو، جیسے اسلام میں ساکن میم۔ یا چمن میں متحرک چ۔ اس کو 1 سے ظاہر کرتے ہیں۔ عروض میں دو ہجائے کوتاہ کو سببِ ثقیل کہتے ہیں۔
اشباع یا کھینچنا - کسی ہجائے کوتاہ 1 کو کسی حرکت کے ساتھ ملا کر کھینچ لینا اور ہجائے بلند بنا لینا جیسے مردِ مومن میں مرد کی دال ہجائے کوتاہ 1 ہے لیکن اسے زیر کی اضافت کے ساتھ ملا کر "دے" بنا لینا اور یوں یہ ہجائے بلند یا 2 ہو گیا۔ اسی طرح "دیوانِ غالب" کی نون۔ اسکا استعمال شاعر کی صوابدید پر ہے اور وہ اسے اس وقت استعمال کرتا ہے جب بحر ایسا کرنے کو کہہ رہی ہو۔
اخفا یا گرانا - کسی ہجائے بلند 2 میں سے الف، یے یا واؤ گرا کر اسے ہجائے کوتاہ 1 بنا لینا، جیسے "کا" 2 ہے لیکن اس کا الف گرا کر شاعر اسے "کَ" بنا لیتا ہے جو کہ 1 ہے۔ اسی طرح "کی" یا "سے" کی یے گرا دینا۔ اسکا استعمال بھی شاعر کی صوابدید پر ہے اور تب استعمال ہوتا ہے جب اسے بحر ایسا کرنے کو کہہ رہی ہو۔
ہندی بحر: اسکے رکن شاعر کی مرضی پر ہوتے ہیں کہ کتنے باندھے، جیسے 8 ہجائے بلند (2 2 2 2 2 2 2 2 یا فع فع فع فع فع فع فع فع یا فعلن فعلن فعلن فعلن) یہ آٹھ والی چھوٹی بحروں میں بہت استعمال ہوتی ہے جیسے محسن نقوی کی غزل "اتنی مدت بعد ملے ہو / کن سوچوں میں گم رہتے ہو" اس بحر میں ہے۔
یا 14 ہجائے بلند یا 15 یا 16، شاعر کی مرضی ہے۔ 13 والی کی ایک مثال "دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمھیں / ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کاہے سلگائیں تمھیں"
16 ہجائے بلند والی ایک مثال "وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا / کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچاشعر سنائیں کیا"
وغیرہ وغیرہ، یہ مثالیں اس لیے لکھیں کہ اگر تقطیع کرنا چاہیں تو مواد آپ کے پاس ہو۔
بحر ہندی کی خاص بات:
یہ ہے کہ کسی بھی ہجائے بلند کو دو ہجائے کوتاہ میں توڑا جا سکتا ہے لیکن ان دو ہجائے کوتاہ کو ایک ہجائے بلند ہی سمجھا جائے گا۔
مثلاً 8 ہجائے بلند والی بحر
2 2 2 2 2 2 2 2
اس میں کسی بھی 2 کو 1 1 میں توڑا جا سکتا ہے لیکن اسے گنیں گے ایک ہجا نہ کہ دو، مثلاً محسن نقوی کی غزل
کتنی مدت بعد ملے ہو
1- کت / 2
2- نی / 2
3- مد / 2
4- دت / 2
5- بع / 2
6- د م / 1 1 (نوٹ کریں چھٹے ہجائے بلند 2 کی جگہ بعد کی دال اور ملے کی م ہے یعنی اس 2 کو توڑ کر 1 1 بنا لیا لیکن گنا ایک ہی ہجا نہ کے دو ہجے)۔
7- لے / 2
8- ہو / 2
کن سوچوں میں گم رہتے ہو
1- کن / 2
2-سو / 2
3-چو / 2
4-مے / 2
5- گم / 2
6- رہ / 2
7- تے / 2
8- ہو / 2
نوٹ کریں دوسرے مصرعے میں محسن نقوی مرحوم و مغفور نے کسی ہجائے بلند 2 کو نہیں توڑا۔ جیسے آپ گن رہے ہیں تو اس لحاظ سے پہلے مصرعے میں 9 سلیبیلز بن رہے ہیں اور دوسرے میں 8، اس طرح تو شعر بے وزن ہو جائے گا لیکن شعر بے وزن نہیں ہے بلکہ انتہائی خوبصورت شعر ہے اور یہ صرف اسی وقت وزن میں آتا ہے جب کہ پہلے مصرعے میں چھٹے لانگ سلیبیل کو دو شارٹ سلیبیلز میں توڑ دیں لیکن سمجھیں اور گنیں ایک ہی۔
ایک اور شعر کی مثال
تیز ہوا نہ مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو
1- تے / 2
2- ز ہ / 1 1 (پھر نوٹ کریں یہاں دوسرا ہجا ٹوٹا)
3- وا / 2
4- نے / 2
5- مج / 2
6- سے / 2
7- پو / 2
8- چھا / 2
1- رے / 2
2- ت پ / 1 1 (پھر نوٹ کریں)
3- کیا / 2
4- لکھ / 2
5- تے / 2
6- رہ / 2
7- تے / 2
8- ہو / 2
ایک اور مثال
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو
1 - کو / 2
2- ن سِ / 11 (نوٹ کریں نہ صرف ہجا ٹوٹا بلکہ "سی" کی یے گرا کر اسے سِ بنایا ہے تا کہ وزن رہے)
3- با / 2
4- ت ہ / 11 (ایک اور لانگ سلیبل ٹوٹا اور "ہے" کی یے پھر گرائی)
5- تم / 2
6- میں / 2
7- اے / 2
8- سی / 2
اگر آپ کی گنتی کے مطابق گنیں تو یہاں 10 سلیبلز ہیں، لیکن یہاں اصل میں 8 ہی ہیں ورنہ شعر بے وزن ہے جو کہ وہ نہیں ہے۔
انتباہ: یہ ہجوں کو توڑنے والی رعایت صرف اور صرف بحر ہندی میں ہے، دیگر بحروں کا اپنا مزاج اور آہنگ اور چلن اور رعایتیں ہیں، جن کو لکھنے کا یہاں محل نہیں ہے۔
امید ہے میں اپنی بات کی وضاحت کر پایا ہوں، آپ کے مذکورہ مصرعوں کو چھوڑ رہا ہوں کہ پہلے ہی بہت جھک مار چکا
انکی تقطیع خود کریں، اس یقین کے ساتھ کے وہ اصل میں 7 لانگ سلیبلز ہی ہیں لیکن کچھ مختلف جگہوں پر ٹوٹ رہے ہیں اور اسکی نشاندہی میں پہہلے ہی کر چکا ہوں۔