حسان خان
لائبریرین
بہت مضر دلِ عاشق کو آہ ہوتی ہے
اسی ہوا سے یہ کشتی تباہ ہوتی ہے
نہ ذبح کیجیے غیروں کو سخت جاں ہیں بہت
خراب آپ کی تیغِ نگاہ ہوتی ہے
میں جل کے خاک ہوا کہتے ہیں وہ حسرت سے
خدا کے واسطے ایسی بھی آہ ہوتی ہے
ہوائے گیسوئے جاناں بھری ہے جو دل میں
ہماری آہ سے آندھی سیاہ ہوتی ہے
جفا وہ کرتے ہیں اے دل وفا کیے جا تو
نہ مضطرب ہو یونہی رسم و راہ ہوتی ہے
ہر ایک سمت کو جاتی ہے دوڑ دوڑ کے آہ
عبث تلاشِ اثر میں تباہ ہوتی ہے
چراغِ داغ میں دن سے جلائے بیٹھا ہوں
سنا جو ہے شبِ فرقت سیاہ ہوتی ہے
گیا شباب مرا رہ گیا تعلقِ عشق
دل و جگر میں چمک گاہ گاہ ہوتی ہے
نہ پوچھیے شبِ فرقت کی تیرگی کا حال
چراغِ خانہ کی لَو تک سیاہ ہوتی ہے
خیال سبز خطوں کا ہے بعدِ مردن بھی
ہری ہری جو لحد پر گیاہ ہوتی ہے
فراقِ یار میں پھرتے ہیں پوچھتے ہوئے ہم
اثر جو رکھتی ہے کیسی وہ آہ ہوتی ہے
تمام رات جو چلتی ہے گرم گرم ہوا
یقین ہے کسی عاشق کی آہ ہوتی ہے
بخار سر سے نکلتا ہے روکتا ہوں جو آہ
سیاہ دل کے دھوئیں سے کلاہ ہوتی ہے
نسیم کوچۂ جاناں میں جلد پہنچا دے
کہ مشتِ خاک ہماری تباہ ہوتی ہے
کبھی کبھی وہ مجھے سرفراز کرتے ہیں
ملال روز خوشی گاہ گاہ ہوتی ہے
عجیب ناز سے آتے ہیں میرے لاشے پر
قدم قدم پہ حیا سدِ راہ ہوتی ہے
تمام رات وہ کہتے ہیں کروٹیں لے کر
جگر کے پار تعشق کی آہ ہوتی ہے
(تعشق لکھنوی)