La Alma
لائبریرین
بہروپ
اپنی وحدتِ ذات کے منکر خود کو ہمہ وقت مجتمع رکھنے کے قائل نہیں ہوتے. خود کو بکھیرتے ہیں، پھر سمیٹتے ہیں، پھر بکھیرتے ہیں. ان کے ہر روپ کی ایک نئی کہانی ہوتی ہے اور ہر بہروپ کا رنگ ڈھنگ ،چال ڈھال الگ. خود سنگ ہیں اور خود سنگ تراش بھی ہیں. اپنی ہی پہچان پر کام کرتے ہیں. نقوش کو حروف سے ابھارتے ہیں، پھر مٹاتے ہیں، پھر بناتے ہیں. ہر آن اپنا نیا چہرہ تراشتے ہیں۔ لفظ ان کا تیشہ، صنم گری پیشہ ...اگر کوئی ان کے حروف کی نبض پر ہاتھ رکھ کر محبت کی رمق ڈھونڈے، کوئی شناسا دھڑکن ٹٹولے، تو اپنے ہی لفظوں کے انکاری ہو جاتے ہیں. ان کے مفہوم بے موت مر جاتے ہیں.اور جب ایسا ہو تو پھر شجرِ کتاب سے یقین کے لفظ سوکھے پتوں کی طرح جھڑنے لگتے ہیں. اس کی ٹنڈ منڈ شاخوں پر بس گمان جھولتے رہتے ہیں . پھر تصور پر بھی قدغن لگ جاتی ہے. احساس کا ہر ورق کورا ہونے لگتا ہے . سوچ بس سرابوں کی غلام گردشوں میں ہی بھٹک کر رہ جاتی ہے . نشانِ منزل نہ ہو تو کہاں کا سفر ، کیسی مسافت، زندگی پھر کھوج کو ترک کر کے ازلی محرومی کی سرائے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پڑاؤ ڈال لیتی ہے .
آخری تدوین: