مجذوب بہر صورت تھی اک تکلیف بیماریٔ الفت میں۔ مجذوب

ہر اک عاشق نئے انداز سے قربانِ قاتل تھا
قتیلِ تیغ بے سر تھا ، شہیدِ ناز بے دل تھا

طریقِ عشق میں جو جس قدر گم کردہ منزل تھا
وہ بس اتنا ہی اے دل! خضرِ رہ بننے کے قابل تھا

ہزاروں زخم کھا کے بھی نہ تڑپا ہائے مجبوری
بس اک تصویرِ بے تابی سراپا تیرا بسمل تھا

بہر صورت تھی اک تکلیف بیماریٔ الفت میں
مجھے آسان تھا مرنا ، مگر پرہیز مشکل تھا

غنیمت ہے کہ مجھ کو قعرِ دریا نے جگہ دے دی
وبالِ دوش موجِ آب تھا ، میں بارِ ساحل تھا

دل وارستہ ہی اپنا اکیلا رہ گیا آخر
بہت تھے ہم سفر ، لیکن ہر اک پابندِ منزل تھا

کہاں پھر نغمہ و صہبا ، کہاں پھر مطرب و ساقی؟
کسی بیدل کے آتے ہی دگرگوں رنگِ محفل تھا

خدا مجذوب کو رکھے سلامت ، اس نے چونکایا
جسے منزل سمجھ رکھا تھا وہ اک خوابِ منزل تھا
 
Top