بہلول اور خلیفہ ہارون رشید: عقلمند کون

بہلول اور خلیفہ ہارون رشید: عقلمند کون

خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں بہلولؒ نام کے ایک بزرگ گزرے ہیں۔ یہ مجذوب قسم کے بزرگ تھے لیکن بڑی حکیمانہ باتیں کیا کرتے تھے۔
ہارون الرشید بہلولؒ کی بہت عزت کرتا تھا اور ان سے ہنسی مذاق کا بھی رشتہ تھا۔ ہارون کے دربار میں ان کی آزادانہ رسائی تھی، جب ان کا دل چاہتا دربار میں پہنچ جاتے۔
ایک دن جب دربار میں بہلولؒ آئے تو اس وقت ہارون رشید کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ ہارون رشید کو مذاق سوجھا، اس نے ان کو چھیڑتے ہوئے کہا: بہلول! آپ سے میری ایک گزارش ہے۔
بہلول نے پوچھا: وہ کیا؟
ہارون رشید نے کہا کہ میں آپ کو یہ چھڑی بطور امانت دیتا ہوں۔ آپ کو اپنے سے زیادہ کوئی بے وقوف آدمی ملے تو اس کو یہ چھڑی میری طرف سے دے دینا۔
بہلول نے کہا: بہت اچھا، اور چھڑی اپنے پاس رکھ لیا۔
وقت گزرتا رہا اور وہ وقت آگیا جب ہارون رشید بیمار ہوکر لبِ مرگ پہنچ گیا۔ بہلول کو خبرہوئی تو وہ خلیفہ کی عیادت کو پہنچ گئے۔
پوچھا : امیر المؤمنین! کیا حال ہے؟
ہارون نے جواب دیا: حال کیا پوچھتے ہو، سفر درپیش ہے۔
بہلول نے پوچھا: کہا ں کا سفر درپیش ہے؟
ہارون نے جواب دیا: آخرت کا سفر درپیش ہے، دنیا سے اب جا رہا ہوں۔
بہلول نے سوال کیا: کتنے دن میں واپس آئیں گے۔
ہارون نے کہا: بھائی! یہ آخرت کا سفر ہے، اس سے کوئی واپس نہیں آیا کرتا۔
بہلول نے کہا: اچھا واپس نہیں آئیں گے! تو آپ نے سفر کی راحت اور آرام کے انتظامات کیلئے کتنے لاؤلشکر اور سازوسامان آگے بھیجے ہیں؟
ہارون نے جواب میں کہا: تم پھر بے وقوفی کی باتیں کر رہے ہو۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا، نہ کوئی لاؤلشکر اور نہ ہی کوئی سازوسامان جاتا ہے۔ وہاں تو انسان تنہا جاتا ہے۔
بہلول نے کہا : اتنا لمبا سفر کہ وہاں سے واپس بھی نہیں آنا ہے، لیکن آپ نے کوئی لاؤ لشکر یا سامان نہیں بھیجا حالانکہ اس سے پہلے آپ کے جنتے سفر ہوتے تھے، اس میں انتظامات کیلئے آگے لاؤ لشکر اور سفر کا سامان جایا کرتا تھا۔ اس سفر میں کیوں نہیں بھیجا؟
ہارون نے کہا: نہیں، یہ سفر ایسا ہے کہ اس میں کچھ بھیجا نہیں جاسکتا۔
بہلول نے کہا: امیرالمومنین! آپ کی ایک امانت بہت عرصے سے میرے پاس رکھی ہے، یہ وہ چھڑی ہے جسے آپ نے مجھے دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ مجھ (بہلول) سے زیادہ کوئی بے وقوف ملے تو اس کو دے دینا۔ میں نے بہت تلاش کیا، لیکن مجھے اپنے سے زیادہ بے وقوف آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں ملا۔ اس لیے کہ میں یہ دیکھا کرتا تھا کہ اگر آپ کا چھوٹا سا بھی سفر ہوتا تو مہینوں پہلے سے اس کی تیاری ہوا کرتی تھی، کھانے پینے کا سامان، خیمے، لاؤ لشکر سب پہلے سے بھیجا جاتا تھا۔ اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ایک دن اس لمبے سفر پر بھی آپ کو جانا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں لیکن اس کیلئے آپ کوئی تیاری نہیں کی۔ کیا دنیا میں آپ سے زیادہ کوئی بے وقوف ہوگا؟ لہذا اپنے سے زیادہ بے وقوف میں نے آپ کو پایا، اب آپ کی یہ امانت آپ کو مبارک ہو۔
یہ سن کر ہارون رشید رو پڑا، اور کہا: بہلول! تم نے سچی بات کی۔ ساری عمر ہم تم کو بے وقوف سمجھتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمت کی بات تم نے ہی کہی۔ واقعی ہم ہی بے وقوف ہیں، ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی اور اس آخرت کے سفر کی تیاری نہیں کی۔
آج کا کوئی شخص عباسی خلیفہ ہارون رشید کی امارت اور ثروت کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس کی سلطنت تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ آج کے دور کے کئی امریکا اس کی مٹھی میں تھے۔
مکمل عقلمندی، دانشمندی اور حکمت کے ساتھ اتنی بڑی سلطنت پر بخیر و خوبی حکومت کرنے والا اس دنیا سے جاتے ہوئے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ عقلمند نہیں بلکہ بے وقوف تھا کہ دنیاوی سفر کیلئے تو وہ لاؤلشکر اور سازوسامان کا انتظام کرتا رہا لیکن اپنی آخرت کی سفر کیلئے اس نے ایسا کچھ نہیں کر سکا۔ لہذا عقلمند اور دانا وہی ہے جو اپنی سفرِ آخرت کیلئے نیک اعمال کا ذخیرہ جمع کرے۔
لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمانوں کی سوچ بدل گئی ہے، ہم اپنے نبی ﷺ سے محبت کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن آپ ﷺ کی بات کی مخالفت کرتے ہوئے ہر اس شخص کو عقلمند سمجھتے ہیں جو بس مال کمانا اور مال بنانا جانتا ہو، چاہے اس کیلئے وہ رشوت خوری، بدعنوانی اور کرپشن ہی کیوں نہ کرے۔
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 4260)
اور فرمانَ الٰہی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّ۔هَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (18) سورة الحشر
’’اے ایمان والوں! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے کل (یعنی قیامت) کیلئے کیا بھیجا ہے اور (پھر) اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘ (18) سورة الحشر
یقیناً اللہ سے ڈرنے والا ہی روزانہ اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اپنی آخرت کیلئے نیک اعمال کا ذخیرہ جمع کرتا ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
اور جو ایسا نہیں کرتا، اسے وعید سناتے ہوئے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
’’اور ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے الله کو بھلا دیا پھر الله نے بھی ان کو ایسا کر دیا کہ وہ اپنے آپ ہی کو بھول گئے (کہ وہ اپنی جانوں کے لئے ہی کچھ بھلائی آگے بھیج دیتے)، یہی لوگ نافرمان ہیں (19) دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے جنتّی ہی بامراد ہیں‘‘ (20) سورة الحشر
بے شک دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے۔ اے اللہ ہمیں اپنے بامراد جنتی بندوں میں شامل فرمالے۔ ہمیں اپنے اُن عقلمند بندوں میں شامل فرما لے جو روزانہ اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور گناہوں سے توبہ کرکے نیک اعمال کی کثرت کرتے ہیں تاکہ کل آخرت میں تیرے سامنے سرخرو ہوں اور تیرے جنت کے وارث بنیں۔ آمین ثمہ آمین۔
 
Top