محمد رضا سلیم
محفلین
بہکا دیا تھا دِل کو غریبانہ حال نے
شرمندہ کر دیا مجھے میرے سوال نے
بے حد بُری یہ میری تمنّائے شوق تھی
اُجڑا چمن بنایا تگ و دوئے مال نے
خالی تھے ہاتھ کوئی بھی زادِ سفر نہ تھا
ہجرِجہاں کمایا میری خام چال نے
ذوقِ نمو جو مِٹ گیا بنجر ہوا وجود
قیدی بنا لیا تھا اُمیدوں کے جال نے
اِک ذکر نے سہارا دے رکھّا تھا یوں فقط
سوکھے شجر کو جیسے تروتازہ ڈال نے
قصّہ تھا اِک غلام سا اپنی حیات کا
آخر سکوں رضا دیا مرگِ کمال نے
شرمندہ کر دیا مجھے میرے سوال نے
بے حد بُری یہ میری تمنّائے شوق تھی
اُجڑا چمن بنایا تگ و دوئے مال نے
خالی تھے ہاتھ کوئی بھی زادِ سفر نہ تھا
ہجرِجہاں کمایا میری خام چال نے
ذوقِ نمو جو مِٹ گیا بنجر ہوا وجود
قیدی بنا لیا تھا اُمیدوں کے جال نے
اِک ذکر نے سہارا دے رکھّا تھا یوں فقط
سوکھے شجر کو جیسے تروتازہ ڈال نے
قصّہ تھا اِک غلام سا اپنی حیات کا
آخر سکوں رضا دیا مرگِ کمال نے