امجد میانداد
محفلین
السلام علیکم،
ذرا تصور کریں اس کرب کا اور اس درد کا جب ایک لڑکی صرف پانچ روپے لیکر زچگی کے دوران ہسپتال جائے اور وہاں موت اور زندگی کی کشمکش کے بعد اس کا بچہ صرف 5 منٹ کے لیئے اس کی زندگی میں آئے اور ہمیشہ کے لیئے چلا جائے بقول اس کی ماں کے "کفن کمانے چلا گیا"۔ اور وہ درد ہو گا جب ہسپتال کے بِل اور کفن دفن کے لیئے اسے بستر سے اٹھنا پڑا اور وہ کسی کے پاس گئی، کفن دفن کے لیئے ادھار مانگنے، ایسی حالت میں
جب درد شاعری کرواتا ہے تو وہ شاعری کیسی ہوتی ہے، درد ایسا درد جس میں ذہنی رو تک انسان کے بس میں نہ ہو، ہوش اور بیہوشی کی خبر نہ ہو، بس صرف درد لکھا جا رہا ہو، سارا شگفتہ مرحومہ ایک ایسی شاعرہ جس کے بارے میں بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔ یہاں محفل میں ان کے بارے میں کچھ پڑھنے کو ملا تو بہت ملال ہوا، پھر کافی کچھ سرچ کیا اور کافی کچھ اکٹھا کیا تو سارا شگفتہ کی ذات کھلی۔
بیٹے کی موت کے بعد وہ درد سے آشنا ہوئی اور درد لکھنا شروع کیا، صرف 29 سال کی عمر میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان لے لی۔ ٹوٹے دلوں نے بہت شاعری کی، محبت میں زخم خورداؤں نے کمال کی شاعری کی، درد اور کرب سے گزروں نے بھی عجب شاعری کی۔
پر ذرا سارا شگفتہ کی شاعری پڑھیں اور بہکیں۔ بے شک اس کی شاعری بہکی ہوئی لگتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے حواس میں نہیں تھی لیکن اس کی شاعری پڑھنے سے پہلے اس کی زندگی کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے اس کرب کا جاننا بہت ضروری ہے، امریتا پریتم نے اس کے بارے میں کتاب لکھی کہ وہ اس کے کرب کی گواہ تھی۔ انڈیا میں ایک ڈرامہ بھی بنایا گیا، جسے شیو سینا کی کڑی مخالفت سے بھی گزرنا پڑا۔
میں ابھی بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں سارا شگفتہ کے بارے میں۔ یہاں سیدہ شگفتہ نے ان کی کتاب بھی شئیر کی ہے اور امریتا پریتم کی کتاب سے کچھ اقتباسات بھی شئیر کیے ہیں۔ سارا شگفتہ کی زندگی پر روشنی ڈالنے کے لیے ہم خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 8 مارچ کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک محفلِ مشاعرہ منعقد کرنے جا رہے ہیں۔ ہم بھی ان لوگوں میں نام چاہتے ہیں جو زندہ کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتے اور مرے ہوؤں کو آسمان سے بھی اوپر لیجانا چاہتے ہیں۔
ذرا تصور کریں اس کرب کا اور اس درد کا جب ایک لڑکی صرف پانچ روپے لیکر زچگی کے دوران ہسپتال جائے اور وہاں موت اور زندگی کی کشمکش کے بعد اس کا بچہ صرف 5 منٹ کے لیئے اس کی زندگی میں آئے اور ہمیشہ کے لیئے چلا جائے بقول اس کی ماں کے "کفن کمانے چلا گیا"۔ اور وہ درد ہو گا جب ہسپتال کے بِل اور کفن دفن کے لیئے اسے بستر سے اٹھنا پڑا اور وہ کسی کے پاس گئی، کفن دفن کے لیئے ادھار مانگنے، ایسی حالت میں
جب درد شاعری کرواتا ہے تو وہ شاعری کیسی ہوتی ہے، درد ایسا درد جس میں ذہنی رو تک انسان کے بس میں نہ ہو، ہوش اور بیہوشی کی خبر نہ ہو، بس صرف درد لکھا جا رہا ہو، سارا شگفتہ مرحومہ ایک ایسی شاعرہ جس کے بارے میں بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔ یہاں محفل میں ان کے بارے میں کچھ پڑھنے کو ملا تو بہت ملال ہوا، پھر کافی کچھ سرچ کیا اور کافی کچھ اکٹھا کیا تو سارا شگفتہ کی ذات کھلی۔
بیٹے کی موت کے بعد وہ درد سے آشنا ہوئی اور درد لکھنا شروع کیا، صرف 29 سال کی عمر میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان لے لی۔ ٹوٹے دلوں نے بہت شاعری کی، محبت میں زخم خورداؤں نے کمال کی شاعری کی، درد اور کرب سے گزروں نے بھی عجب شاعری کی۔
پر ذرا سارا شگفتہ کی شاعری پڑھیں اور بہکیں۔ بے شک اس کی شاعری بہکی ہوئی لگتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے حواس میں نہیں تھی لیکن اس کی شاعری پڑھنے سے پہلے اس کی زندگی کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے اس کرب کا جاننا بہت ضروری ہے، امریتا پریتم نے اس کے بارے میں کتاب لکھی کہ وہ اس کے کرب کی گواہ تھی۔ انڈیا میں ایک ڈرامہ بھی بنایا گیا، جسے شیو سینا کی کڑی مخالفت سے بھی گزرنا پڑا۔
میں ابھی بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں سارا شگفتہ کے بارے میں۔ یہاں سیدہ شگفتہ نے ان کی کتاب بھی شئیر کی ہے اور امریتا پریتم کی کتاب سے کچھ اقتباسات بھی شئیر کیے ہیں۔ سارا شگفتہ کی زندگی پر روشنی ڈالنے کے لیے ہم خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 8 مارچ کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک محفلِ مشاعرہ منعقد کرنے جا رہے ہیں۔ ہم بھی ان لوگوں میں نام چاہتے ہیں جو زندہ کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتے اور مرے ہوؤں کو آسمان سے بھی اوپر لیجانا چاہتے ہیں۔