فرحت کیانی
لائبریرین
بیادِ فیض
قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں
میں تیری بات کہ دنیا کا تذکرہ لکھوں
لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی
ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں
جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو
تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کر بلا لکھوں
تیرے بغیر ہے ہر نقش "نقشِ فریادی"
تو پھول "دستِ صبا" پر ہے آبلہ لکھوں
مثالِ "دستِ تہہِ سنگ" تھی وفا ان کی
سو کس طرح انہیں یارانِ باصفا لکھوں
حدیثِ کوچۂ قاتل ہے نامۂ زنداں
سو اس کو قصۂ تعزیرِ ناروا لکھوں
جگہ جگہ ہیں "صلیبیں مرے دریچے میں"
سو اسمِ عیسیٰ و منصور جا بجا لکھوں
گرفتہ دل ہے بہت "شامِ شہرِ یاراں" آج
کہاں ہے تُو کہ تجھے حال دلبرا لکھوں
کہاں گیا ہے "مرے دل مرے مسافر" تُو
کہ میں تجھے رہ و منزل کا ماجرا لکھوں
تُو مجھ کو چھوڑ گیا لکھ کے "نسخہ ہائے وفا"
میں کس طرح تجھے اے دوست بے وفا لکھوں
"شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں"
خدا نکردہ کہ میں تیرا مرثیہ لکھوں
احمد فراز
قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں
میں تیری بات کہ دنیا کا تذکرہ لکھوں
لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی
ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں
جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو
تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کر بلا لکھوں
تیرے بغیر ہے ہر نقش "نقشِ فریادی"
تو پھول "دستِ صبا" پر ہے آبلہ لکھوں
مثالِ "دستِ تہہِ سنگ" تھی وفا ان کی
سو کس طرح انہیں یارانِ باصفا لکھوں
حدیثِ کوچۂ قاتل ہے نامۂ زنداں
سو اس کو قصۂ تعزیرِ ناروا لکھوں
جگہ جگہ ہیں "صلیبیں مرے دریچے میں"
سو اسمِ عیسیٰ و منصور جا بجا لکھوں
گرفتہ دل ہے بہت "شامِ شہرِ یاراں" آج
کہاں ہے تُو کہ تجھے حال دلبرا لکھوں
کہاں گیا ہے "مرے دل مرے مسافر" تُو
کہ میں تجھے رہ و منزل کا ماجرا لکھوں
تُو مجھ کو چھوڑ گیا لکھ کے "نسخہ ہائے وفا"
میں کس طرح تجھے اے دوست بے وفا لکھوں
"شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں"
خدا نکردہ کہ میں تیرا مرثیہ لکھوں
احمد فراز