علی صہیب
محفلین
.
(جناب محمد تابش صدیقی کے حکم پر..
تحریکِ آزادیِ کشمیر کے لیے پروفیسر الیف الدین ترابی مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں! اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے، بہت اعلیٰ پائے کے انسان تھے۔ مرحوم معروف ادیب، شاعر، سیاسی رہنما اور عالمی سطح بالخصوص عرب ممالک میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کی آواز تھے)
خد و خالِ لب و عارض کا نقشہ ساحرانہ تھا
الیف الدّیں ترابی کا وہ چہرہ شاعرانہ تھا
ہر اک بندے سے ہی اس کا، رویہ دلبرانہ تھا
بیاں اب میں کروں کیا کیا، غرض بندہ یگانہ تھا
جوانوں کے لیے طرزِ شفیق و ناصحانہ تھا
عدوِّ دیں ہو تو اس کا رویہ ناقدانہ تھا
وہ سر تا پا جواں ہمت کا زندہ استعارہ تھا
ضعیف عمری میں معمولِ شبانہ محنتانہ تھا
وہ مانندِ صحابہؓ تھا، وہ اک روشن منارہ تھا
ہمارا کل اثاثہ تھا، یہی بس کل فسانہ تھا
نہیں نازاں تھا عظمت پر، سپہ سالار عظمت کا
پہ شاگرد اس کا ہونے پر تو نازاں اک زمانہ تھا
نہ منصب کا غرور اس کو کبھی چھو کر گزر پایا
کہ لہجہ خسروانہ تھا نہ غصّہ غاصبانہ تھا
وہ اک علمی ذخیرہ تھا، وہ اک گنجِ پوشیدہ تھا
یہی اس کے قصیدے کا ، اے لوگو! شاخسانہ تھا
بوقتِ وصل انگشتِ شہادت سے گواہی دی
عجب انساں تھا کیسی شاں سے جنت کو روانہ تھا
ہوئے دو برس اسے بچھڑے، مگر ہم اس کو نہ بھولے
بمع یادوں کے ہر مشکل میں وہ شانہ بہ شانہ تھا
علی صہیب
(جناب محمد تابش صدیقی کے حکم پر..
تحریکِ آزادیِ کشمیر کے لیے پروفیسر الیف الدین ترابی مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں! اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے، بہت اعلیٰ پائے کے انسان تھے۔ مرحوم معروف ادیب، شاعر، سیاسی رہنما اور عالمی سطح بالخصوص عرب ممالک میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کی آواز تھے)
خد و خالِ لب و عارض کا نقشہ ساحرانہ تھا
الیف الدّیں ترابی کا وہ چہرہ شاعرانہ تھا
ہر اک بندے سے ہی اس کا، رویہ دلبرانہ تھا
بیاں اب میں کروں کیا کیا، غرض بندہ یگانہ تھا
جوانوں کے لیے طرزِ شفیق و ناصحانہ تھا
عدوِّ دیں ہو تو اس کا رویہ ناقدانہ تھا
وہ سر تا پا جواں ہمت کا زندہ استعارہ تھا
ضعیف عمری میں معمولِ شبانہ محنتانہ تھا
وہ مانندِ صحابہؓ تھا، وہ اک روشن منارہ تھا
ہمارا کل اثاثہ تھا، یہی بس کل فسانہ تھا
نہیں نازاں تھا عظمت پر، سپہ سالار عظمت کا
پہ شاگرد اس کا ہونے پر تو نازاں اک زمانہ تھا
نہ منصب کا غرور اس کو کبھی چھو کر گزر پایا
کہ لہجہ خسروانہ تھا نہ غصّہ غاصبانہ تھا
وہ اک علمی ذخیرہ تھا، وہ اک گنجِ پوشیدہ تھا
یہی اس کے قصیدے کا ، اے لوگو! شاخسانہ تھا
بوقتِ وصل انگشتِ شہادت سے گواہی دی
عجب انساں تھا کیسی شاں سے جنت کو روانہ تھا
ہوئے دو برس اسے بچھڑے، مگر ہم اس کو نہ بھولے
بمع یادوں کے ہر مشکل میں وہ شانہ بہ شانہ تھا
علی صہیب