فارسی شاعری بیا و جوش تمنای دیدنم بنگر - فارسی غزل (غالب)

نبیل

تکنیکی معاون
مجھے یو ٹیوب پر غالب کی یہ فارسی غزل فریدہ خانم کی آواز میں ملی جو مجھے اچھی لگی۔ مجھے اس غزل کے اشعار اسی طرح کہیں اور نہیں ملے، اس لیے میں انہیں خود سے نوٹ کرکے یہاں پیش کر رہا ہوں اور اپنی سمجھ کے مطابق ان کا اردو ترجمہ بھی لکھ رہا ہوں۔ آپ کو کوئی غلطی نظر آئے تو تصحیح فرما دیں:




بیا و جوش تمنای دیدنم بنگر
چو اشک از سر مژگاں چیکدنم بنگر


آؤ اور میرے شوق دیدار کی انتہا دیکھو
میرے آنسوؤں کو پلکوں سے ٹپکتے ہوئے دیکھو

شنیدہ ام کہ نبینی و نا امید نیم
ندیدن تو شنیدم، شنیدنم بنگر


مجھے تمہاری بے رخی کا پتا ہے لیکن میں مایوس نہیں
تمہاری بے رخی کا میں نے سنا، اب مجھے سنتے ہوئے دیکھو

دمید دانہ و بالید در آشیاں گہے شد
در انتظار او ماندم، چیدنم بنگر


بیج لا کر انہیں گھر میں بویا
اب مجھے انہیں حاصل کرنے کا منتظر دیکھو

زمن بہ جرم تپیدن کنارہ می کردی
بیا بہ خاک من و آرمیدنم بنگر


تم نے میرے جرم کی پاداش میں مجھ سے کنارہ کر لیا
اب میری خاک پر آکر مجھے محو خواب دیکھو
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، لاجواب برادرم :)

تواضعے نہ کُنم بے تواضعے غالب
بہ سایہ خمِ تیغَس خمیدنم بنگر

غالب اس وقت تک انکساری نہیں دکھاتا (نہیں جکھتا) جب تک دوسری طرف سے جکھاؤ نہ ہو، تُو اسکی تلوار کے خم کے سائے (یعنی تلوار کے جکھنے) میں میرا جکھنا دیکھ۔

فقط ایک شعر غلط لکھا گیا ہے گو وہ یو ٹیوب پر پوسٹ کرنے والے نے ہی غلط لکھا ہے اور اسکا ترجمہ بھی غلط ہو گیا ہے اُس سے، فریدہ خانم نے شعر صحیح گایا ہے :)

دمید دانہ و بالید و آشیاں گہ شُد
در انتظارِ ہما دانہ چیدنم بنگر

(دانہ چیدنم: جال میں دانہ ڈالنا)

دانا چھوٹا تھا، بالیدگی ہوئی اور آشیانوں کی جگہ بن گیا یعنی بڑا ہو کر درخت بن گیا، (لیکن میں نے جس مقصد یعنی ہما (خوش بختی) کو پھانسنے کیلیے جال میں دانہ ڈالا تھا وہ پورا نہیں ہوا سو) میرا انتظارِ ہما میں جال میں دانہ ڈالنا تو دیکھ ذرا۔

(بحوالہ کلیاتِ غالب فارسی مترجم ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے توصیف جنہوں نے ویڈیو پوسٹ کی ہے، ان سے میرا فیس بُک پر رابطہ ہے، اوپر والی غلطی انہیں بتا دونگا :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
جزاک اللہ خیر برادرم۔ بہت شکریہ۔ خواجہ حمید یزدانی گورنمنٹ‌ کالج میں فارسی پڑھاتے رہے ہیں اور میرے والد صاحب کے بہت اچھے دوست ہیں۔
اگر آپ کا توصیف صاحب سے رابطہ ہوتا ہے تو انہیں یہاں آنے کی بھی دعوت دیں۔ وہ کافی اچھے ذوق والے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے یوٹیوب پر بہت اچھی کلیکشن اکٹھی کی ہوئی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
توصیف امین واقعی اچھے ذوق کے آدمی ہیں میں ان سے درخواست کرتا ہوں ادھر آنے کی۔

خواجہ حمید یزدانی صاحب کی بھی آپ نے خوب کہی، ابھی آج صبح ناشتے پر انہی کا ذکرِ خیر ہو رہا تھا (جو کہ اکثر ہوتا رہتا ہے)، اور ظاہر ہے ذکرِ خیر میں کر رہا تھا، میں بیوی تو انکی برائیاں ہی کر رہی تھی :)

دراصل، اس غزل نے مجھے مسحور کر دیا ہے، اور ابھی کچھ دن اور اسکے سحر میں رہوں گا، رات تین چار بجے تک اسے موبائل فون میں کاپی کرنے کے بعد سنتا رہا اور صبح ناشتے کے ساتھ جب غالب کے دو تین فارسی دیوان کھول لیے تو بیگم کی تلخ ترش باتیں شروع ہو گئیں، دراصل خواجہ صاحب کی بیگم مرحومہ میری ساس کی دوست تھیں، اور گھر بھی پاس پاس ہی تھے، میری بیوی نے خواجہ صاحب کی تصویر دیکھی تو شروع ہو گئی ہے کہ یہ "عالم فاضل" بھی تمھاری طرح اپنی بیوی کے ساتھ بدزبان تھے اور ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے تھے، انکی بیگم ناراض ہو ان کے گھر آ جاتی تھیں اور پھر میری ساس ہی انکی صلح صفائی کرواتی تھیں، نیز یہ کہ تمام پڑھے لکھے لوگ ایسے ہی "فضول" ہوتے ہیں (ظاہر ہے سنسر کر کے لکھ رہا ہوں) :) اور تم پر کیا اللہ کی مار ہے کہ ناشتہ بھی سکون سے نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔

آمدم بر سرِ مطلب، مذکورہ شعر خواجہ صاحب نے ایسے ہی لکھا ہے جیسا کہ اوپر لکھا یعنی

دمید دانہ و بالید و آشیاں گہِ شُد
در انتظارِ ہما دانہ چیدنم بنگر

اور ساتھ میں دانہ چیدنم کا علیحدہ سے مطلب بھی لکھا ہے، لیکن مجھے یہ شک تھا کہ گلوکارہ نے اسے واضح کیوں نہیں گایا، "ہما" کا لفظ تو واضح ہے لیکن اگلا نہیں، سو دو مزید دیوان صبح دیکھے

شیخ غلام علی اینڈ سنز کے کلیاتِ غالب فارسی (جو بغیر ترجمے کے ہیں)
شرح غزلیاتِ غالب فارسی از صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

اور ان دونوں کتابوں میں شعر اسطرح سے ہے

دمید دانہ و بالید و آشیاں گہِ شُد
در انتظارِ ہما دام چیدنم بنگر

یعنی 'دانہ چیدنم' کی جگہ 'دام چیدنم' لکھا ہے۔ جب کہ خواجہ صاحب نے دانہ چیدنم کا مطلب بھی علیحدہ سے لکھا ہے لیکن میرے ذاتی خیال میں 'دام چیدنم' ہی صحیح ہے کیونکہ اس شعر کی شرح مولانا حالی نے بھی کی ہے اور انہوں نے دام چیدنم کے ساتھ کی ہے۔

مزید یہ کہ توصیف نے 'گہِ' کو 'گہے' لکھا ہے جس کا مطلب کبھی کبھار ہوتا ہے لیکن 'گہِ' دراصل 'گاہ' سے ہے یعنی آشیاں گاہ (آشیانے کی جگہ) کو شعری ضرورت کیلیے غالب نے 'آشیاں گہِ' کیا ہے۔

دانہ یا دام سے نہ تو مطلب پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ وزن پر، لیکن خیر، غلط غلط ہے اور صحیح صحیح :)

گیارہ اشعار پر مشتمل غالب کی خوبصورت غزلوں میں اسکا شمار ہوتا ہے کسی وقت مکمل لکھوں گا، ابھی صرف وہ اشعار جو گلوکارہ نے گائے ہیں:

بیا و جوشِ تمنائے دیدنم بنگر
چو اشک از سر مژگاں چیکدنم بنگر

آ اور میرے شوقِ دیدار کا جوش دیکھ اور دیکھ کہ میں آنسوؤں کی طرح پلکوں سے ٹپک رہا ہوں۔ مولانا حالی لکھتے ہیں جوشِ تمنائے دیدار کا اظہار اس سے زیادہ خوبصورت اور بہتر نہیں ہو سکتا کہ میں خود ہی اشکوں کی طرح پلکوں سے ٹپک رہا ہوں۔

شنیدہ ام کہ نبینی و نا امید نیَم
ندیدنِ تو شنیدم، شنیدنم بنگر

میں نے سنا ہے کہ تو میری طرف نہیں دیکھتا لیکن میں پھر بھی ناامید نہیں ہوں، میں نے تیرا نہ دیکھنا تو سن لیا اب تو میرا سننا دیکھ (یعنی میری وہ حالتِ اضطراب دیکھ جو مجھ پر یہ سن کر گزری کہ تو میری طرف نہیں دیکھتا اور نا امید اس لیے نہیں کہ تو میری یہ حالت تو دیکھے گا ہی)

دمید دانہ و بالید و آشیاں گہِ شد
در انتظارِ ہُما دام چیدنم بنگر

دانا چھوٹا تھا، بالیدگی ہوئی اور آشیانوں کی جگہ بن گیا یعنی بڑا ہو کر درخت بن گیا یعنی عمریں گزر گئیں، (لیکن میں نے جس مقصد یعنی ہما (خوش بختی) کو پھانسنے کیلیے جال میں دانہ ڈالا تھا وہ پورا نہیں ہوا سو) میرا انتظارِ ہما میں جال میں دانہ ڈالنا دیکھ یعنی خوش بختی کی آرزو ہی رہی اور عمر گزر گئی مگر نہیں ملی۔

ز من بہ جرمِ تپیدن کنارہ می کردی
بیا بہ خاکِ من و آرمیدنم بنگر

تو میرے جرمِ تپیدن یعنی بے قراری و بے چینی و تڑپ کی وجہ سے مجھ سے کنارہ کر لیا کرتا تھا، سو اب میری خاک پر آ اور میرا آرام کرنا دیکھ یعنی موت سے وہ سب بے قراریاں مٹ گئیں سو اب تو کنارہ کش نہ رہ۔
 

توصیف امین

محفلین
اسلام وعلیکم
اردو محفل پہ میرا آنا جانا تو بہت عرصے سے ہے یہاں تک کہ میں نے اپنا اکاونٹ بھی تقریبا دو پرس قبل بنایا تھا۔ لیکن سچ کہوں تو مجھے یہاں کے معاملات دوسرے فورمز کی نسبت کچھ مشکل لگے۔ربط دیکھنا ہیں تو اتنی پوسٹ کیجیے۔اور یہاں کا اردو کی بورڈ بھی کام نہیں کرتا۔۔ خیر وہ سب اپنی جگہ۔ امید ہے جلد ہی اس محفل کے قواعد اور آداب سے واقفیت ہو جائے گی۔
سب سے پہلے تو نبیل صاحب کا محفل مین بلانے پر مشکور ہوں اور وارث بھائی کا تو ہمیشہ سے شکر گزار رہا ہوں جو ہر موقع پر میری فارسی سمجھنے میں راہنمائی فرماتے ہیں اور میں نے ان کی مدد سے کافی قوالیاں اور غزلیں بمع ترجمہ یو ٹیوب پہ رکھی بھی ہیں۔
اس ترجمے کو دیکھ کر خیال آ رہا کہ دوبارہ سے اس غزل کو درست شاعری اور ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ جلد ہی یہ کام کر دیا جائے گا۔
میں چونکہ اس فورم کو ابھی اچھی طرح سمجھ نہیں پایا، سو ابتدا میں آپ دوستوں کی مدد کی ضرورت ہو گی۔
ایک بار پھر آپ دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا

والسلام
توصیف امین
 
Top