توصیف امین واقعی اچھے ذوق کے آدمی ہیں میں ان سے درخواست کرتا ہوں ادھر آنے کی۔
خواجہ حمید یزدانی صاحب کی بھی آپ نے خوب کہی، ابھی آج صبح ناشتے پر انہی کا ذکرِ خیر ہو رہا تھا (جو کہ اکثر ہوتا رہتا ہے)، اور ظاہر ہے ذکرِ خیر میں کر رہا تھا، میں بیوی تو انکی برائیاں ہی کر رہی تھی
دراصل، اس غزل نے مجھے مسحور کر دیا ہے، اور ابھی کچھ دن اور اسکے سحر میں رہوں گا، رات تین چار بجے تک اسے موبائل فون میں کاپی کرنے کے بعد سنتا رہا اور صبح ناشتے کے ساتھ جب غالب کے دو تین فارسی دیوان کھول لیے تو بیگم کی تلخ ترش باتیں شروع ہو گئیں، دراصل خواجہ صاحب کی بیگم مرحومہ میری ساس کی دوست تھیں، اور گھر بھی پاس پاس ہی تھے، میری بیوی نے خواجہ صاحب کی تصویر دیکھی تو شروع ہو گئی ہے کہ یہ "عالم فاضل" بھی تمھاری طرح اپنی بیوی کے ساتھ بدزبان تھے اور ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے تھے، انکی بیگم ناراض ہو ان کے گھر آ جاتی تھیں اور پھر میری ساس ہی انکی صلح صفائی کرواتی تھیں، نیز یہ کہ تمام پڑھے لکھے لوگ ایسے ہی "فضول" ہوتے ہیں (ظاہر ہے سنسر کر کے لکھ رہا ہوں)
اور تم پر کیا اللہ کی مار ہے کہ ناشتہ بھی سکون سے نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔
آمدم بر سرِ مطلب، مذکورہ شعر خواجہ صاحب نے ایسے ہی لکھا ہے جیسا کہ اوپر لکھا یعنی
دمید دانہ و بالید و آشیاں گہِ شُد
در انتظارِ ہما
دانہ چیدنم بنگر
اور ساتھ میں دانہ چیدنم کا علیحدہ سے مطلب بھی لکھا ہے، لیکن مجھے یہ شک تھا کہ گلوکارہ نے اسے واضح کیوں نہیں گایا، "ہما" کا لفظ تو واضح ہے لیکن اگلا نہیں، سو دو مزید دیوان صبح دیکھے
شیخ غلام علی اینڈ سنز کے کلیاتِ غالب فارسی (جو بغیر ترجمے کے ہیں)
شرح غزلیاتِ غالب فارسی از صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
اور ان دونوں کتابوں میں شعر اسطرح سے ہے
دمید دانہ و بالید و آشیاں گہِ شُد
در انتظارِ ہما
دام چیدنم بنگر
یعنی 'دانہ چیدنم' کی جگہ 'دام چیدنم' لکھا ہے۔ جب کہ خواجہ صاحب نے دانہ چیدنم کا مطلب بھی علیحدہ سے لکھا ہے لیکن میرے ذاتی خیال میں 'دام چیدنم' ہی صحیح ہے کیونکہ اس شعر کی شرح مولانا حالی نے بھی کی ہے اور انہوں نے دام چیدنم کے ساتھ کی ہے۔
مزید یہ کہ توصیف نے 'گہِ' کو 'گہے' لکھا ہے جس کا مطلب کبھی کبھار ہوتا ہے لیکن 'گہِ' دراصل 'گاہ' سے ہے یعنی آشیاں گاہ (آشیانے کی جگہ) کو شعری ضرورت کیلیے غالب نے 'آشیاں گہِ' کیا ہے۔
دانہ یا دام سے نہ تو مطلب پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ وزن پر، لیکن خیر، غلط غلط ہے اور صحیح صحیح
گیارہ اشعار پر مشتمل غالب کی خوبصورت غزلوں میں اسکا شمار ہوتا ہے کسی وقت مکمل لکھوں گا، ابھی صرف وہ اشعار جو گلوکارہ نے گائے ہیں:
بیا و جوشِ تمنائے دیدنم بنگر
چو اشک از سر مژگاں چیکدنم بنگر
آ اور میرے شوقِ دیدار کا جوش دیکھ اور دیکھ کہ میں آنسوؤں کی طرح پلکوں سے ٹپک رہا ہوں۔ مولانا حالی لکھتے ہیں جوشِ تمنائے دیدار کا اظہار اس سے زیادہ خوبصورت اور بہتر نہیں ہو سکتا کہ میں خود ہی اشکوں کی طرح پلکوں سے ٹپک رہا ہوں۔
شنیدہ ام کہ نبینی و نا امید نیَم
ندیدنِ تو شنیدم، شنیدنم بنگر
میں نے سنا ہے کہ تو میری طرف نہیں دیکھتا لیکن میں پھر بھی ناامید نہیں ہوں، میں نے تیرا نہ دیکھنا تو سن لیا اب تو میرا سننا دیکھ (یعنی میری وہ حالتِ اضطراب دیکھ جو مجھ پر یہ سن کر گزری کہ تو میری طرف نہیں دیکھتا اور نا امید اس لیے نہیں کہ تو میری یہ حالت تو دیکھے گا ہی)
دمید دانہ و بالید و آشیاں گہِ شد
در انتظارِ ہُما دام چیدنم بنگر
دانا چھوٹا تھا، بالیدگی ہوئی اور آشیانوں کی جگہ بن گیا یعنی بڑا ہو کر درخت بن گیا یعنی عمریں گزر گئیں، (لیکن میں نے جس مقصد یعنی ہما (خوش بختی) کو پھانسنے کیلیے جال میں دانہ ڈالا تھا وہ پورا نہیں ہوا سو) میرا انتظارِ ہما میں جال میں دانہ ڈالنا دیکھ یعنی خوش بختی کی آرزو ہی رہی اور عمر گزر گئی مگر نہیں ملی۔
ز من بہ جرمِ تپیدن کنارہ می کردی
بیا بہ خاکِ من و آرمیدنم بنگر
تو میرے جرمِ تپیدن یعنی بے قراری و بے چینی و تڑپ کی وجہ سے مجھ سے کنارہ کر لیا کرتا تھا، سو اب میری خاک پر آ اور میرا آرام کرنا دیکھ یعنی موت سے وہ سب بے قراریاں مٹ گئیں سو اب تو کنارہ کش نہ رہ۔