با ادب
محفلین
برآمدے میں پھر سے بھونچال آیا ہے کیا؟ خالی ڈھنڈار پڑے کمرے میں نادیدہ ہستی کی آواز گونجتی ہے. برآمدے کا تو ابھی پتہ نہیں لیکن اس کمرے میں جلد ہی بھونچال.آنے والا ہے ..کمرے کے دوسرے کونے سے بھی فقط آواز سنائی دی ..تصویر مفقود . ..
کمرے میں کیوں؟
کیوں کہ بہت جلد تم میرے ہاتھوں اپنے انجام.کو پہنچنے والی ہو.
لالئی بڑے بول اچھے نہیں ہوتے گلے پڑ جاتے ہیں. آوازیں جاری و ساری ہیں لیکن آواز کی مالک غائب. . .
کل میں نے پورے گھر کی صفائی کی. شام کو پھر دادی کی چارپائی کے نیچے مونگ پھلی کے چھلکے پڑے تھے. وہ بھی خیر ہے میں نے معاف کیا لیکن وہ گناہ بخشنے کو.میں ہر گز تیار نہیں جب میں نے بڑے صوفے کے پیچھے سے قالین کو اٹھا کے دیکھا وہاں بھی چھلکوں کے ڈھیر تھے. . . .
دوسری آواز کافی دیر سے آنی بند ہوچکی تھی. . . . جولائی کی تپتی دوپہر جھلسا دینے والی گرمی. پورا گھر سو رہا تھا سوائے ان تین افراد کے.
دادی. . . جن.کا محبوب مشغلہ ہر روز اپنے ٹرنک نکالنا ' کھنگالنا ان کی صفائی کر کے انھیں دوبارہ انتہائی ترتیب سے رکھنا ... ٹرنکوں کی تعداد لگ بھگ چھ سے سات تھی اور ان ساتوں کی روزانہ صفائی اور ترتیب بلا مبالغہ درست رکھنا دادی کا دلپسند مشغلہ تھا. برآمدے سے کچھ قدم آگے چل کے دائیں کمرے میں جھانک کے دیکھئیے تو بظاہر کمرہ خالی ڈھنڈار پڑا ہے پنکھا اپنی انتہائی رفتار سے رواں دواں ہے جوں ہی آپ بجلی بچانے کی نیت سے پنکھے کا بٹن بند کرنے کے لئیے ہاتھ بڑھائیں گے دو بدترین آوازوں سے آپکا پالا پڑ جائے گا. گھبرائیے مت یہ بد روحیں ہر گز نہیں ... دادی کی چارپائی کے نیچے نسیم حجازی کی کتاب یوسف بن تاشفین ہاتھ میں پکڑے انہماک سے نظریں جمائے ۱۲ سالہ سونا اور سٹور روم میں بستروں کے اوپر تشریف فرما کسی ناول میں محو لالئی ... جن کے انہماک کو یا تو آپس کی کی جانے والی تکرار توڑتی ہے یا پنکھا بند کرنے والے دشمن کی آمد. . . . گھر میں غیر نصابی کتب پڑھنے پہ شدید پابندی ہے. . . . ابا حضور گھر میں موجود ہیں اس لئیے لاڈلی سپوتنیوں کی آماجگاہ دادی کی چارپائی کے نیچے گھس کر چھپ جاؤ یا سٹور روم میں بستروں کے اوپر چڑھ کے چھپ جاؤ.
اس تکون میں بڑی شدید اہمیت انکے لاڈلے بھائی کی بھی ہے جو ہر دوپہر گھر کی چھت پھلانگ کے پچھلی طرف موجود گلی میں کود کے ویڈیوگیم کھیلنے جاتا ہے اور عصر کی آذان کے وقت اسی راستے سے واپس تشریف لا کے کمرے میں دونوں بہنوں کے ساتھ سونے کی لازوال ایکٹنگ کرتا ہے کہ اگر آسکر والوں کو اس ٹیلنٹ کا ادراک ہوتا تو یقین.مانئیے ممکن ہی نہیں تھا اتنی نیچرل اداکاری پہ انھیں ایوارڈ نہ ملتا ..
عصر تک یوسف بن تاشفین دادی کے ٹرنک میں چھپا دی جاتی. لالئی کا ناول بستر کے نیچے دب جاتا. اور لاڈلے میاں وضو کر کے گھر میں بنے چبوترے پہ بہنوں کے ساتھ ہل.ہل کے قرآن پڑھنے میں مشغول ہوجاتے. . . .
ابا کلینک جاتے ہوئے آخری طائرانہ نگاہ نیک فرماں بردار اولاد پہ ڈالتے اور آخری فرمان جاری ہوتا. قرآن پڑھنے کے بعد ایک گھنٹہ کھیلنا ہے. پھر مغرب کے بعد سکول کا سبق پڑھنے بیٹھنا ہے.
بس راجر سر کہنے کی دیر ہوتی ..یہاں ابا میاں گھر سے نکلے وہاں اماں کو سپارے کا سبق سنا کے گھر میں دھما چوکڑی مچ گئی.
پسندیدہ کھیل کونا کونا. . . اس کھیل کے اصول تھے ہر فرد ایک کونے میں کھڑا ہوجاتا اور جس کو کونا نہیں ملتا وہ تاک میں کھڑا ہوتا یہاں کوئی اپنا کونا تبدیل کرنے کی غرض سے ساتھی کی طرف بھاگے اور وہ اسکے کونے پہ قبضہ کرے. . . صحن میں ہر آڑ کو بچے کونا مانتے تھے. . تندور کے پاس کھڑے ہوگئے . کسی نے اعتراض کیا یہ کونا نہیں. اعتراض مسترد. ہے یہ کونا. . . کھیل جاری رہتا.
مغرب ہوتی. اماں گو کہ پڑھنے لکھنے سے قطعی نابلد تھیں لیکن ابا کا فرمان پلو سے باندھے رکھتیں. بابا نے کہا تھا مغرب کی نماز پڑھ کے نو بجے تک پڑھنا ہے. بستے اٹھاؤ.
جلدی جلدی کتابیں اٹھاتے پڑھنے کے شوقین بچے. جتنا جلدی ممکن ہوتا سکول کا کام.ختم.کرتے. آٹھ بجے کا ڈرامہ دیکھنا فرض تھا. ابا کا فرمان نو بجے تک پڑھائی. پورے نو بجے ابا کے اسکوٹر کی آواز گلی میں گونجتی. پورے نو بجے ٹی وی بند بچے دم سادھے بستر میں پائے جاتے ..یقین.مانئیے آج بھی کسی خود کار نظام.کے تحت نو بجے ٹی وی بند کر دیتے ہیں. ہماری کتاب میں نو بجے کے بعد ٹی وی دیکھنا گناہ صغیرہ تھا. ہمارے ابا کا آج تک ایسا رعب ہے کہ پتہ چل جائے گلی میں ابو آئے کھڑے ہیں تو پہلا کام.ہم ٹی وی بند کرتے ہیں اور دوسرا اپنے تمام ناولز چھپانے کا کیا جاتا ہے. اس بڑھاپے میں بھی روٹین برقرار ہے.
تینوں بہن بھائیوں کی مشترکہ لت تھی عمران سیریز. . آٹھ آنے جیب خرچ ملتا. جو کہ تینوں ملاتے تو ڈیڈھ روپیہ بنتا. اور اس زمانے میں جس کتابوں کی دکان سے عمران سیریز کرائے پہ ملتا تو ایک دن کا دو روپے کرایہ ہوتا. جو بچوں کی جیب پہ بھاری تھا.
اس لئیے کتابیں فراہم کرنے والی ہستی سونا تھی. سونا کی دوستوں کی ایک نا ختم.ہونے والی لائن تھی جس میں صرف وہ لڑکیاں شامل تھیں جن کے بہن بھائی ناولز اور عمران سیریز پڑھتے تھے. ہر آتے جاتے راہگیر سے سلام دعا کی بنیاد فقط اس کے پاس کتابوں کا موجود ہونا تھا. یہ وہ نشئی تھے جو آدھی رات کو چاند کی روشنی میں بھی کتاب پڑھتے تھے.
ان ہی گرمیوں کی بات تھی. تینوں بچوں کی دوستی عروج پہ. ایک دوسرے کے صدقے واری جاتے ہیں. دن میں بھی پڑھائیاں عروج پہ. ہاتھ میں یہ موٹی موٹی کتابیں پکڑے پڑھ پڑھ کے بچے کمزور ہوئے جاتے ہیں. اماں فکر میں گھلتی جاتی ہیں سکول والوں پہ اللہ کی مار اتنا کام دیتے ہیں بچے دن کو سو بھی نہیں پاتے سارا دن پڑھتے ہیں. جی اماں. کورس میں جواب دیا جاتا ہے. . . .
کئی دن سے گھر میں یہ تماشا جاری ہے. ابادن کے وقت گھر آرام.کرنے آتے تو بچوں کے کمرے میں کم ہی جھانکتے.
۱۵ سالہ لالئی ۱۲ سالہ سونا اور نو سالہ بھائی.
جب دیکھو عمران کے قصیدے. . . اماں پاس سے گزرتی ہیں جملہ کان میں پڑتا ہے. لالئی عمران ٹیکنی کلر کیوں پہنتا ہے؟
عمران جو بھی پہنے اس کے لئیے بنا ہے.
اماں حیران.
اماں پاس لیٹی ہیں کھسر پھسر کی آواز آتی ہے. سونا عمران نے جوزف کو کیسے قابو کیا؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو. جوزف کے پاس دیوتاؤں کے منتر ہیں ..بھائی کو منتروں میں دلچسپی.
بھائی تم عمران کو جلدی نہیں پڑھتے ہم تمھیں کتاب نہیں دیا کریں گے. ہر جملہ عمران سے شروع ہو کے عمران پہ ختم.
اماں کو پتنگے لگے ہیں لالئی کی شامت. یہ عمران کون ہے.؟
لالئی حیران کون عمران اماں؟ ( بے چاری
سب سے بڑی اولاد. وہم و گمان میں بھی نہیں کہ اماں عمران سیریز والے عمران کی بابت استفسار کر رہی ہیں وہ تو ہم.بہن بھائیوں کا سیکرٹ تھا اماں کیا جانے عمران کیا ہوتا ہے. ایم ایس سی ڈی ایس سی آکسن. عمران. سیکرٹ سروس کا ایکسٹو. انٹیلی جنس کا شاطر دماغ. ہماری معصوم اماں کے معصوم ذہن میں ایسا عمراں سما سکتا ہے لالئی نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا) .
اچھا کون عمران. آج آنے دو تمھارے بابا کو اب ان کو ہی بتانا کون عمران.
اماں خدا کے لئیے کس عمران کا پوچھ رہی ہیں؟ سونا منجھلی بہن جو عمران اور کتابوں کا چسکہ لگانے والی شاطر دماغ ہستی تھیں معاملہ سلجھانے آگے بڑھیں.
اماں آپ عمران کو کیسے جانتی ہیں؟ اور آپ کو کس نے بتایا کہ لالئی کسی عمران کو جانتی ہیں.
پوری دوپہر تم.تینوں عمران کے بارے میں باتیں کرتے رہے ہو.
تینوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا ہنسی کا فوارہ چھوٹا اور سب کا ہنس ہنس کے برا حال.
اماں وہ عمران. وہ تو ہیرو ہے.
غضب خدا کا ہماری ماں کا کیا پتہ کہ ہیرو کیا ہوتا ہے. وہ علاقہ غیر کے ساتھ والے گاؤں کی جم پل. سکول تو بہت بڑی بات اماں نے تو شہر کا منہ بھی ابا سے شادی کے بعد دیکھا. اور اماں کی زندگی میں نہ تو کوئی ہیرو تھا نہ زیرو. ایک ڈاکٹر صاحب تھے جو ہمارے ابا تھے. وہ ان.کے ایسے پیر تھے کہ اگر فرما دیتے بچوں کو رسی سے باندھ کے کنوئیں میں ٹانگ دو تو اماں تب تک سکھ کا سانس نہ لیتیں جب تک ہمیں ٹانگ نہ دیتیں. ان کا ایمان تھا کا صاحب نے جو کہہ دیا اس کو مان لینا ہی نجات اور فلاح کا ذریعہ ہے اگر انکے حکم.کی خلاف ورزی ہوئی تو ایسی تباہی آئے گی کہ دنیا میں کچھ باقی نہ بچے گا. اور کبھی زندگی میں اماں نے جب بھی ابا کی نہ مانی ان کے ساتھ واقعی کچھ برا ہوجاتا جس کا فائدہ بابا کو ضرور ہوتا. ان کا اعتقاد پختہ ہوجاتا کہ تمھارے ابا کی نا مانی تھی اللہ نے سزا دی. ابا اگر کہہ دیتے اس سال لالئی کے سالانہ امتحان کے نمبر کم ہوں گے تو اماں آنکھ بند کر کے ایمان لے آتیں. بے چاری لالئی اگر فرسٹ ڈویژن سے بھی پاس ہو جاتیں تو اماں کا اعتقاد ہوتا رعایتی پاس ہوئی ہے صاحب نے جو کہا تھا ویسا ہی ہوا. اب اماں کے صاحب سے بچوں کی بڑی جان جاتی تھی .
اس لئیے ضروری تھا کہ اس سے پہلے کہ عمران کا معاملہ صاحب کی عدالت میں پیش ہو اماں کو عمران سے تعارف کروایا جائے. اور تعارف کے لئیے شعلہ بیان مقرر اور ابا کی لاڈو سونا کے علاوہ اور کس کو پیش کیا جا سکتا تھا.
سونا ابا کی لاڈلی ترین وہ اولاد تھی کہ گھر میں ابا کے بعد اگر کسی کے پاس دلیل تھی تو وہ سونا تھی. بچوں میں اگر کوئی دماغ سے عاری اور جذبات سے پر تھا تو وہ سونا تھی. کہ باقی سب ابا کی نظر میں شریف النفس خاموش گم سم بچے تھے. جبکہ سونا نے بات تب تک نہیں ماننی جب تک اس کو دلائل سے مطمئن نہ کیا جاتا. کون جانتا تھا بچی آگے چل کے وکالت پڑھے گی. بعد از جوانی محترمہ کی شعلہ بیانی اور منطق سے پر گفتگو سن کے جب لوگ ارشاد فرماتے جی وکیل ہیں تو بہن بھائی ضرور فرماتے جی پیدائشی ہیں.
بیان شروع ہوتا ہے اماں جب ہم چھوٹے تھے ( یعنی ۱۲ سالہ بچی جب چھوٹی تھی) تو نانی ہمیں سالو راجہ کی کہانی سناتی سالو راجہ کہانی کا کردار تھا. تھا نا اماں.
ہاں تھا.
سیف الملوک کون تھا اماں؟
شہزادہ تھا.
آپ نے دیکھ رکھا تھا؟
کہانی میں تھا بھئی.
بالکل اماں بالکل. اسی طرح کہانی میں عمران بھی ہے. عمران بہت بہادر ہے اماں وہ فوجی ہے ( اللہ.معاف) . وہ ملک کے لئیے کام.کرتا ہے راشد منہاس کی طرح اماں. وہ.میجر عزیز بھٹی والا ڈرامہ دیکھا ہے نا بالکل ویسے.
اماں سوچ میں گم.
یہ کہانی کہاں ہے.
لالئی کی عقل پیدا ہی ماتم.کے لئیے ہوئی ہے. عمران سیریز لائیں اماں کے ہاتھ میں دی.
اب یہ وہ قسط ہے جسے ابھی ہم نے نہیں پڑھا اور اللہ معاف کرے انسان کی کم بختی آئی ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے. عمران سیریز کی یہ قسط مسلمانوں کی نسل کشی اور یورپ کی نسل میں اضافے کے متعلق تھی. اسے بھی ہماری کم.نصیبی سمجھئیے کہ ہم.نے اس دن سے پہلے اور اس دن کے بعد اس نوعیت کی کوئی کتاب نہ دوبارہ دیکھی نا پڑھی.
لیکن اس دن وہ کتاب اماں کے ہاتھ میں تھما دی گئی.
اماں نے کتاب رکھ لی. ضیا ( پھو پھی زاد) آئے گا شام کو اس سے پڑھواؤں گی اگر اچھی ہوئی تو پڑھ لیا کرنا.
ہماری ماں نے ہمیں اس دن زندگی میں پہلی اور آخری بار چیک کیا. اور ہم مار کھا گئے.
والدہ محترمہ کی شخصیت انتہائی شائستہ اور نرم مزاج یے. ہم نے انھیں کبھی کسی بھی بات پہ غصے میں نہیں دیکھا حتٰی کہ ابا کی دوسری شادی کے موقع پر بھی نہیں. ہماری ابا کی بیگمات نے زندگی ایک دوسرے کے سنگ ہنستے کھیلتے گزاری ہے. مجال ہے کبھی کوئی لڑائی سننے میں آئی ہو ..
ضیا بھائی ہمارے پھپھی زاد حافظ قرآن تھے ہمیں تجوید پڑھانے آتے تھے.
اس دن آئے اماں نے کتاب تھمائی ضیا پڑھو اس کتاب میں کیا لکھا ہے اور جب ضیا نے پڑھا تو ہمارے چوبیس طبق روشن. گو وہ کوئی ایسی غلط باتیں بھی نہیں تھیں لیکن ان بچوں کے لئیے بہت بڑی بات تھی جو سمجھتے تھے کہ ہمارے امی ابو بھی آپس میں بہن بھائی ہیں. اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ سب سے چھوٹا بھائی احمد تو ابا کو اپنا بھی شوہر سمجھتا تھاکیونکہ اگر وہ اماں کے شوہر تھے تو احمد کے بھی تھے لیکن یہ بہت بعدکے زمانے کی بات ہے احمد ہم سے آٹھویں نمبر پہ ہے اور اس وقت جب یہ واقعہ رونما ہوا احمد کا نام نشان بھی نہیں تھا. احمد کے آنے تک بھی ہم فقط اتنا جانتے تھے کہ گھر میں امی ابو شوہر بیوی قسم کے بہن بھائی ہیں. کیسے ہیں ہم.اس سے کوئی.مطلب نہ تھا ہمارے اپنے کرنے کے دنیا میں بہت کام تھے.
ضیا بھائی نے جو جملہ پڑھا اس کا مفہوم کچھ یوں تھا.
یورپ کی عوام میں کم اولاد کے رجحان کی وجہ سے اب وہاں صرف یا تو بوڑھے ہیں یا بچے .. اب ان کی انٹیلی جنس کثرت ولادت کے کسی مشن پہ کام کرنے والی تھی.
اماں کو شاید یہ لائنز نہ سمجھ آتیں یا وہ اپنے فطری بھولپن کے باعث انھیں نظر انداز کر دیتیں پر برا ہو ضیا بھائی کا. جلتی پہ تیل کا کام انھوں نے کیا. مامی یہ بہت بری کتاب ہے.
اس میں اچھی باتیں نہیں ہیں.
تاریخ گواہ ہے بعد میں میں نے اس کتاب کو دوبارہ سہ بارہ پڑھا اس میں کوئی اخلاق باختہ بات نہیں تھی. لیکن ضیا صاحب تیر چلا چکے تھے.
اماں کو پتنگے لگ گئے. سونا کی گھچی مروڑتے مروڑتے رہنے دی کیونکہ وہ اس گروہ کا وہ سرغنہ تھی جو ترسیل کتب کا کام جاری رکھتی جسے گلی محلے میں گھومنے کی آزادی تھی اور وہ گھوم پھر کے تمام باجیوں کی کتابیں گھر لایا کرتی. چاہے وہ اردو کی دسویں جماعت کی کتاب ہی کیوں نہ ہو.
لاڈلا بیٹا اور بڑی بیٹی وہ معصوم ٹہرے جنھیں سونا ورغلا کر گمراہ کیا کرتی تھی ورنہ وہ بے زبان تو بہت معصوم تھے.
سونا کا ناطقہ کچھ دن بند رہا لیکن وہی اسکی شعلہ بیانی اور منطقی دلیلیں اماں کو ایسا رام کر گئیں کہ آج تک کتاب سے رشتہ جڑا ہوا ہے.
کمرے میں کیوں؟
کیوں کہ بہت جلد تم میرے ہاتھوں اپنے انجام.کو پہنچنے والی ہو.
لالئی بڑے بول اچھے نہیں ہوتے گلے پڑ جاتے ہیں. آوازیں جاری و ساری ہیں لیکن آواز کی مالک غائب. . .
کل میں نے پورے گھر کی صفائی کی. شام کو پھر دادی کی چارپائی کے نیچے مونگ پھلی کے چھلکے پڑے تھے. وہ بھی خیر ہے میں نے معاف کیا لیکن وہ گناہ بخشنے کو.میں ہر گز تیار نہیں جب میں نے بڑے صوفے کے پیچھے سے قالین کو اٹھا کے دیکھا وہاں بھی چھلکوں کے ڈھیر تھے. . . .
دوسری آواز کافی دیر سے آنی بند ہوچکی تھی. . . . جولائی کی تپتی دوپہر جھلسا دینے والی گرمی. پورا گھر سو رہا تھا سوائے ان تین افراد کے.
دادی. . . جن.کا محبوب مشغلہ ہر روز اپنے ٹرنک نکالنا ' کھنگالنا ان کی صفائی کر کے انھیں دوبارہ انتہائی ترتیب سے رکھنا ... ٹرنکوں کی تعداد لگ بھگ چھ سے سات تھی اور ان ساتوں کی روزانہ صفائی اور ترتیب بلا مبالغہ درست رکھنا دادی کا دلپسند مشغلہ تھا. برآمدے سے کچھ قدم آگے چل کے دائیں کمرے میں جھانک کے دیکھئیے تو بظاہر کمرہ خالی ڈھنڈار پڑا ہے پنکھا اپنی انتہائی رفتار سے رواں دواں ہے جوں ہی آپ بجلی بچانے کی نیت سے پنکھے کا بٹن بند کرنے کے لئیے ہاتھ بڑھائیں گے دو بدترین آوازوں سے آپکا پالا پڑ جائے گا. گھبرائیے مت یہ بد روحیں ہر گز نہیں ... دادی کی چارپائی کے نیچے نسیم حجازی کی کتاب یوسف بن تاشفین ہاتھ میں پکڑے انہماک سے نظریں جمائے ۱۲ سالہ سونا اور سٹور روم میں بستروں کے اوپر تشریف فرما کسی ناول میں محو لالئی ... جن کے انہماک کو یا تو آپس کی کی جانے والی تکرار توڑتی ہے یا پنکھا بند کرنے والے دشمن کی آمد. . . . گھر میں غیر نصابی کتب پڑھنے پہ شدید پابندی ہے. . . . ابا حضور گھر میں موجود ہیں اس لئیے لاڈلی سپوتنیوں کی آماجگاہ دادی کی چارپائی کے نیچے گھس کر چھپ جاؤ یا سٹور روم میں بستروں کے اوپر چڑھ کے چھپ جاؤ.
اس تکون میں بڑی شدید اہمیت انکے لاڈلے بھائی کی بھی ہے جو ہر دوپہر گھر کی چھت پھلانگ کے پچھلی طرف موجود گلی میں کود کے ویڈیوگیم کھیلنے جاتا ہے اور عصر کی آذان کے وقت اسی راستے سے واپس تشریف لا کے کمرے میں دونوں بہنوں کے ساتھ سونے کی لازوال ایکٹنگ کرتا ہے کہ اگر آسکر والوں کو اس ٹیلنٹ کا ادراک ہوتا تو یقین.مانئیے ممکن ہی نہیں تھا اتنی نیچرل اداکاری پہ انھیں ایوارڈ نہ ملتا ..
عصر تک یوسف بن تاشفین دادی کے ٹرنک میں چھپا دی جاتی. لالئی کا ناول بستر کے نیچے دب جاتا. اور لاڈلے میاں وضو کر کے گھر میں بنے چبوترے پہ بہنوں کے ساتھ ہل.ہل کے قرآن پڑھنے میں مشغول ہوجاتے. . . .
ابا کلینک جاتے ہوئے آخری طائرانہ نگاہ نیک فرماں بردار اولاد پہ ڈالتے اور آخری فرمان جاری ہوتا. قرآن پڑھنے کے بعد ایک گھنٹہ کھیلنا ہے. پھر مغرب کے بعد سکول کا سبق پڑھنے بیٹھنا ہے.
بس راجر سر کہنے کی دیر ہوتی ..یہاں ابا میاں گھر سے نکلے وہاں اماں کو سپارے کا سبق سنا کے گھر میں دھما چوکڑی مچ گئی.
پسندیدہ کھیل کونا کونا. . . اس کھیل کے اصول تھے ہر فرد ایک کونے میں کھڑا ہوجاتا اور جس کو کونا نہیں ملتا وہ تاک میں کھڑا ہوتا یہاں کوئی اپنا کونا تبدیل کرنے کی غرض سے ساتھی کی طرف بھاگے اور وہ اسکے کونے پہ قبضہ کرے. . . صحن میں ہر آڑ کو بچے کونا مانتے تھے. . تندور کے پاس کھڑے ہوگئے . کسی نے اعتراض کیا یہ کونا نہیں. اعتراض مسترد. ہے یہ کونا. . . کھیل جاری رہتا.
مغرب ہوتی. اماں گو کہ پڑھنے لکھنے سے قطعی نابلد تھیں لیکن ابا کا فرمان پلو سے باندھے رکھتیں. بابا نے کہا تھا مغرب کی نماز پڑھ کے نو بجے تک پڑھنا ہے. بستے اٹھاؤ.
جلدی جلدی کتابیں اٹھاتے پڑھنے کے شوقین بچے. جتنا جلدی ممکن ہوتا سکول کا کام.ختم.کرتے. آٹھ بجے کا ڈرامہ دیکھنا فرض تھا. ابا کا فرمان نو بجے تک پڑھائی. پورے نو بجے ابا کے اسکوٹر کی آواز گلی میں گونجتی. پورے نو بجے ٹی وی بند بچے دم سادھے بستر میں پائے جاتے ..یقین.مانئیے آج بھی کسی خود کار نظام.کے تحت نو بجے ٹی وی بند کر دیتے ہیں. ہماری کتاب میں نو بجے کے بعد ٹی وی دیکھنا گناہ صغیرہ تھا. ہمارے ابا کا آج تک ایسا رعب ہے کہ پتہ چل جائے گلی میں ابو آئے کھڑے ہیں تو پہلا کام.ہم ٹی وی بند کرتے ہیں اور دوسرا اپنے تمام ناولز چھپانے کا کیا جاتا ہے. اس بڑھاپے میں بھی روٹین برقرار ہے.
تینوں بہن بھائیوں کی مشترکہ لت تھی عمران سیریز. . آٹھ آنے جیب خرچ ملتا. جو کہ تینوں ملاتے تو ڈیڈھ روپیہ بنتا. اور اس زمانے میں جس کتابوں کی دکان سے عمران سیریز کرائے پہ ملتا تو ایک دن کا دو روپے کرایہ ہوتا. جو بچوں کی جیب پہ بھاری تھا.
اس لئیے کتابیں فراہم کرنے والی ہستی سونا تھی. سونا کی دوستوں کی ایک نا ختم.ہونے والی لائن تھی جس میں صرف وہ لڑکیاں شامل تھیں جن کے بہن بھائی ناولز اور عمران سیریز پڑھتے تھے. ہر آتے جاتے راہگیر سے سلام دعا کی بنیاد فقط اس کے پاس کتابوں کا موجود ہونا تھا. یہ وہ نشئی تھے جو آدھی رات کو چاند کی روشنی میں بھی کتاب پڑھتے تھے.
ان ہی گرمیوں کی بات تھی. تینوں بچوں کی دوستی عروج پہ. ایک دوسرے کے صدقے واری جاتے ہیں. دن میں بھی پڑھائیاں عروج پہ. ہاتھ میں یہ موٹی موٹی کتابیں پکڑے پڑھ پڑھ کے بچے کمزور ہوئے جاتے ہیں. اماں فکر میں گھلتی جاتی ہیں سکول والوں پہ اللہ کی مار اتنا کام دیتے ہیں بچے دن کو سو بھی نہیں پاتے سارا دن پڑھتے ہیں. جی اماں. کورس میں جواب دیا جاتا ہے. . . .
کئی دن سے گھر میں یہ تماشا جاری ہے. ابادن کے وقت گھر آرام.کرنے آتے تو بچوں کے کمرے میں کم ہی جھانکتے.
۱۵ سالہ لالئی ۱۲ سالہ سونا اور نو سالہ بھائی.
جب دیکھو عمران کے قصیدے. . . اماں پاس سے گزرتی ہیں جملہ کان میں پڑتا ہے. لالئی عمران ٹیکنی کلر کیوں پہنتا ہے؟
عمران جو بھی پہنے اس کے لئیے بنا ہے.
اماں حیران.
اماں پاس لیٹی ہیں کھسر پھسر کی آواز آتی ہے. سونا عمران نے جوزف کو کیسے قابو کیا؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو. جوزف کے پاس دیوتاؤں کے منتر ہیں ..بھائی کو منتروں میں دلچسپی.
بھائی تم عمران کو جلدی نہیں پڑھتے ہم تمھیں کتاب نہیں دیا کریں گے. ہر جملہ عمران سے شروع ہو کے عمران پہ ختم.
اماں کو پتنگے لگے ہیں لالئی کی شامت. یہ عمران کون ہے.؟
لالئی حیران کون عمران اماں؟ ( بے چاری
سب سے بڑی اولاد. وہم و گمان میں بھی نہیں کہ اماں عمران سیریز والے عمران کی بابت استفسار کر رہی ہیں وہ تو ہم.بہن بھائیوں کا سیکرٹ تھا اماں کیا جانے عمران کیا ہوتا ہے. ایم ایس سی ڈی ایس سی آکسن. عمران. سیکرٹ سروس کا ایکسٹو. انٹیلی جنس کا شاطر دماغ. ہماری معصوم اماں کے معصوم ذہن میں ایسا عمراں سما سکتا ہے لالئی نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا) .
اچھا کون عمران. آج آنے دو تمھارے بابا کو اب ان کو ہی بتانا کون عمران.
اماں خدا کے لئیے کس عمران کا پوچھ رہی ہیں؟ سونا منجھلی بہن جو عمران اور کتابوں کا چسکہ لگانے والی شاطر دماغ ہستی تھیں معاملہ سلجھانے آگے بڑھیں.
اماں آپ عمران کو کیسے جانتی ہیں؟ اور آپ کو کس نے بتایا کہ لالئی کسی عمران کو جانتی ہیں.
پوری دوپہر تم.تینوں عمران کے بارے میں باتیں کرتے رہے ہو.
تینوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا ہنسی کا فوارہ چھوٹا اور سب کا ہنس ہنس کے برا حال.
اماں وہ عمران. وہ تو ہیرو ہے.
غضب خدا کا ہماری ماں کا کیا پتہ کہ ہیرو کیا ہوتا ہے. وہ علاقہ غیر کے ساتھ والے گاؤں کی جم پل. سکول تو بہت بڑی بات اماں نے تو شہر کا منہ بھی ابا سے شادی کے بعد دیکھا. اور اماں کی زندگی میں نہ تو کوئی ہیرو تھا نہ زیرو. ایک ڈاکٹر صاحب تھے جو ہمارے ابا تھے. وہ ان.کے ایسے پیر تھے کہ اگر فرما دیتے بچوں کو رسی سے باندھ کے کنوئیں میں ٹانگ دو تو اماں تب تک سکھ کا سانس نہ لیتیں جب تک ہمیں ٹانگ نہ دیتیں. ان کا ایمان تھا کا صاحب نے جو کہہ دیا اس کو مان لینا ہی نجات اور فلاح کا ذریعہ ہے اگر انکے حکم.کی خلاف ورزی ہوئی تو ایسی تباہی آئے گی کہ دنیا میں کچھ باقی نہ بچے گا. اور کبھی زندگی میں اماں نے جب بھی ابا کی نہ مانی ان کے ساتھ واقعی کچھ برا ہوجاتا جس کا فائدہ بابا کو ضرور ہوتا. ان کا اعتقاد پختہ ہوجاتا کہ تمھارے ابا کی نا مانی تھی اللہ نے سزا دی. ابا اگر کہہ دیتے اس سال لالئی کے سالانہ امتحان کے نمبر کم ہوں گے تو اماں آنکھ بند کر کے ایمان لے آتیں. بے چاری لالئی اگر فرسٹ ڈویژن سے بھی پاس ہو جاتیں تو اماں کا اعتقاد ہوتا رعایتی پاس ہوئی ہے صاحب نے جو کہا تھا ویسا ہی ہوا. اب اماں کے صاحب سے بچوں کی بڑی جان جاتی تھی .
اس لئیے ضروری تھا کہ اس سے پہلے کہ عمران کا معاملہ صاحب کی عدالت میں پیش ہو اماں کو عمران سے تعارف کروایا جائے. اور تعارف کے لئیے شعلہ بیان مقرر اور ابا کی لاڈو سونا کے علاوہ اور کس کو پیش کیا جا سکتا تھا.
سونا ابا کی لاڈلی ترین وہ اولاد تھی کہ گھر میں ابا کے بعد اگر کسی کے پاس دلیل تھی تو وہ سونا تھی. بچوں میں اگر کوئی دماغ سے عاری اور جذبات سے پر تھا تو وہ سونا تھی. کہ باقی سب ابا کی نظر میں شریف النفس خاموش گم سم بچے تھے. جبکہ سونا نے بات تب تک نہیں ماننی جب تک اس کو دلائل سے مطمئن نہ کیا جاتا. کون جانتا تھا بچی آگے چل کے وکالت پڑھے گی. بعد از جوانی محترمہ کی شعلہ بیانی اور منطق سے پر گفتگو سن کے جب لوگ ارشاد فرماتے جی وکیل ہیں تو بہن بھائی ضرور فرماتے جی پیدائشی ہیں.
بیان شروع ہوتا ہے اماں جب ہم چھوٹے تھے ( یعنی ۱۲ سالہ بچی جب چھوٹی تھی) تو نانی ہمیں سالو راجہ کی کہانی سناتی سالو راجہ کہانی کا کردار تھا. تھا نا اماں.
ہاں تھا.
سیف الملوک کون تھا اماں؟
شہزادہ تھا.
آپ نے دیکھ رکھا تھا؟
کہانی میں تھا بھئی.
بالکل اماں بالکل. اسی طرح کہانی میں عمران بھی ہے. عمران بہت بہادر ہے اماں وہ فوجی ہے ( اللہ.معاف) . وہ ملک کے لئیے کام.کرتا ہے راشد منہاس کی طرح اماں. وہ.میجر عزیز بھٹی والا ڈرامہ دیکھا ہے نا بالکل ویسے.
اماں سوچ میں گم.
یہ کہانی کہاں ہے.
لالئی کی عقل پیدا ہی ماتم.کے لئیے ہوئی ہے. عمران سیریز لائیں اماں کے ہاتھ میں دی.
اب یہ وہ قسط ہے جسے ابھی ہم نے نہیں پڑھا اور اللہ معاف کرے انسان کی کم بختی آئی ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے. عمران سیریز کی یہ قسط مسلمانوں کی نسل کشی اور یورپ کی نسل میں اضافے کے متعلق تھی. اسے بھی ہماری کم.نصیبی سمجھئیے کہ ہم.نے اس دن سے پہلے اور اس دن کے بعد اس نوعیت کی کوئی کتاب نہ دوبارہ دیکھی نا پڑھی.
لیکن اس دن وہ کتاب اماں کے ہاتھ میں تھما دی گئی.
اماں نے کتاب رکھ لی. ضیا ( پھو پھی زاد) آئے گا شام کو اس سے پڑھواؤں گی اگر اچھی ہوئی تو پڑھ لیا کرنا.
ہماری ماں نے ہمیں اس دن زندگی میں پہلی اور آخری بار چیک کیا. اور ہم مار کھا گئے.
والدہ محترمہ کی شخصیت انتہائی شائستہ اور نرم مزاج یے. ہم نے انھیں کبھی کسی بھی بات پہ غصے میں نہیں دیکھا حتٰی کہ ابا کی دوسری شادی کے موقع پر بھی نہیں. ہماری ابا کی بیگمات نے زندگی ایک دوسرے کے سنگ ہنستے کھیلتے گزاری ہے. مجال ہے کبھی کوئی لڑائی سننے میں آئی ہو ..
ضیا بھائی ہمارے پھپھی زاد حافظ قرآن تھے ہمیں تجوید پڑھانے آتے تھے.
اس دن آئے اماں نے کتاب تھمائی ضیا پڑھو اس کتاب میں کیا لکھا ہے اور جب ضیا نے پڑھا تو ہمارے چوبیس طبق روشن. گو وہ کوئی ایسی غلط باتیں بھی نہیں تھیں لیکن ان بچوں کے لئیے بہت بڑی بات تھی جو سمجھتے تھے کہ ہمارے امی ابو بھی آپس میں بہن بھائی ہیں. اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ سب سے چھوٹا بھائی احمد تو ابا کو اپنا بھی شوہر سمجھتا تھاکیونکہ اگر وہ اماں کے شوہر تھے تو احمد کے بھی تھے لیکن یہ بہت بعدکے زمانے کی بات ہے احمد ہم سے آٹھویں نمبر پہ ہے اور اس وقت جب یہ واقعہ رونما ہوا احمد کا نام نشان بھی نہیں تھا. احمد کے آنے تک بھی ہم فقط اتنا جانتے تھے کہ گھر میں امی ابو شوہر بیوی قسم کے بہن بھائی ہیں. کیسے ہیں ہم.اس سے کوئی.مطلب نہ تھا ہمارے اپنے کرنے کے دنیا میں بہت کام تھے.
ضیا بھائی نے جو جملہ پڑھا اس کا مفہوم کچھ یوں تھا.
یورپ کی عوام میں کم اولاد کے رجحان کی وجہ سے اب وہاں صرف یا تو بوڑھے ہیں یا بچے .. اب ان کی انٹیلی جنس کثرت ولادت کے کسی مشن پہ کام کرنے والی تھی.
اماں کو شاید یہ لائنز نہ سمجھ آتیں یا وہ اپنے فطری بھولپن کے باعث انھیں نظر انداز کر دیتیں پر برا ہو ضیا بھائی کا. جلتی پہ تیل کا کام انھوں نے کیا. مامی یہ بہت بری کتاب ہے.
اس میں اچھی باتیں نہیں ہیں.
تاریخ گواہ ہے بعد میں میں نے اس کتاب کو دوبارہ سہ بارہ پڑھا اس میں کوئی اخلاق باختہ بات نہیں تھی. لیکن ضیا صاحب تیر چلا چکے تھے.
اماں کو پتنگے لگ گئے. سونا کی گھچی مروڑتے مروڑتے رہنے دی کیونکہ وہ اس گروہ کا وہ سرغنہ تھی جو ترسیل کتب کا کام جاری رکھتی جسے گلی محلے میں گھومنے کی آزادی تھی اور وہ گھوم پھر کے تمام باجیوں کی کتابیں گھر لایا کرتی. چاہے وہ اردو کی دسویں جماعت کی کتاب ہی کیوں نہ ہو.
لاڈلا بیٹا اور بڑی بیٹی وہ معصوم ٹہرے جنھیں سونا ورغلا کر گمراہ کیا کرتی تھی ورنہ وہ بے زبان تو بہت معصوم تھے.
سونا کا ناطقہ کچھ دن بند رہا لیکن وہی اسکی شعلہ بیانی اور منطقی دلیلیں اماں کو ایسا رام کر گئیں کہ آج تک کتاب سے رشتہ جڑا ہوا ہے.