بیخودی

نور وجدان

لائبریرین
بیخودی ذات کا اصل شعور نہیں ہے بلکہ بیخودی میں حاصل شدہ علم شعوری سطح سے مربوط ہونے لگتا ہے تو انسان اسی حال میں انائے اکبر تک پہنچنے لگتا ہے. بیخود پاگل ہوتا ہے، بیخود مجذوب ہوتا ہے. کچھ لوگوں کے لیے یہ وقتی کیفیت بھی ہوتی ہے. بیخودی تاہم ذات کا ایسا جوہر ہے جو شعور تک نہیں لے جاسکتا ہے. انسان کی ہمہ وقت جہت اسکے لیے اصل دروازے وا کردیتی ہے ....

بیخودی کیا ہے؟ بعض لوگ آپ نے ایسے بھی دیکھے جو دنیا سے بیگانے مست پھرتے ہیں .... ان کو جس کام کی دھن لگ جائے وہ سب کرتے ہیں باقی سب چھوڑ دیتے ہیں ... اگر کسی کو کرکٹ کھیلنے کا شوق ہے تو خوب کھیلے گا. اگر کسی کو اسیکچنگ کا شوق ہے تو وہ بھی خوب ہوگا .... اگر کسی کو عشق ہوگیا تو عشق کا ہوگیا اور دنیا کو چھوڑ دیا .... بیخودی نے اصل اک کام سے جوڑ دیا، اسکام کے طریقے بھی بتادئیے اور اسکے وضع کردہ اصولوں میں جینے والے کے لیےباقی ماندہ اشیاء سے وابستگی عذاب ہوجائے گی .....


شعور کیا ہے؟ شعور بیخودی سے نکلتا راستہ ہے یوں سمجھ لیجیے بیخودی رات ہے تو شعور صبح کا سویرا .... ہر دن اک نئی صبح لاتا ہے. رات میں چاند کی روشنی اور دن میں صبح کا سویرا ... سویرے کی اساس رات ہے. اگر رات نہ آئے تو کبھی دن نہ ہو مگر دن اور رات کا تسلسل ذات کی.کھوج کے لیے ضروری ہے ناکہ رات میں کھوئے رہنا اور دن کو بھول جانا ....


بیخودی میں انسان وہ عکس دیکھ لیتا ہے،جو منعکس اصل سے ہوتا ہے ...اس منعکس کو شعور میں پیوست کرنا شعور کے بنا ممکن نہیں ... ...اسلیے بیخودی انسان کو آشنائے راز کرتو دیتی ہے مگر زمانہ "انا الحق " کی.صدائیں سنتا ہے، سنگسار کرتا ہے .... جبکہ شعور والے زینہ.بہ.زینہ.ذات کی گہرائی.تک پہنچ کے نا صرف خود کو سنوارتے ہیں بلکہ.دوسروں کے لیے بھی مثل.شمع ہوجاتے.ہیں
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت خوب۔۔
اسی ضمن میں علامہ اقبال کے فلسفہ بیخودی سے متعلق ایک ذیل میں ایک اقتباس پیش ہے ۔۔۔

فلسفہ خودی کے ساتھ علامہ اقبال نے نظریہ بیخودی پیش کیا ہے۔ فرد جب تکمیل خودی کے بعد اپنا رابطہ ملت کے ساتھ استوار کرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو معاشرے کے سپرد کرتا ہے تو اقبال اسے بے خودی کا عمل کہتے ہیں، انہوں نے اس کیفیت کو ’’خود شکنی‘‘ کا نام بھی دیا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’حقیقی اسلامی بیخودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات اور رجحانات و تخیلات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہوجاتا ہے،۔‘‘

دانا مرد نے تجلی کے بغیر راستہ نہ چلا اور نادان خیالوں کی دولتیوں سے مر گیا۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بہت خوب۔۔
اسی ضمن میں علامہ اقبال کے فلسفہ بیخودی سے متعلق ایک ذیل میں ایک اقتباس پیش ہے ۔۔۔

فلسفہ خودی کے ساتھ علامہ اقبال نے نظریہ بیخودی پیش کیا ہے۔ فرد جب تکمیل خودی کے بعد اپنا رابطہ ملت کے ساتھ استوار کرتا ہے اور اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو معاشرے کے سپرد کرتا ہے تو اقبال اسے بے خودی کا عمل کہتے ہیں، انہوں نے اس کیفیت کو ’’خود شکنی‘‘ کا نام بھی دیا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’حقیقی اسلامی بیخودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات اور رجحانات و تخیلات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہوجاتا ہے،۔‘‘

دانا مرد نے تجلی کے بغیر راستہ نہ چلا اور نادان خیالوں کی دولتیوں سے مر گیا۔
بہت خوب!


فلسفہ ء بیخودی درحقیقت (ان کا) ملت سے رابطہ استوار کرنے پر اور خودی (خود) اپنے سے تعلق استوار کرنے پر .... ذاتی شناخت سے مستحکم ہوتے ذات سے بے نیازی کو انہوں نے بیخودی کا نام دیا ہے ...خود سے بے نیاز ہو "میں " کو مار کے سب میں "خود " کو دیکھ .... "خود " سے مراد سب سے بڑی ذات ہے ... یہی فلاح کا راستہ بھی ہے. میں نے بیخودی کو عمومی معنوں میں لیا.ہے جبکہ اقبال نے خودی کے تعامل سے پیدا ہونے والی نفیسات کو بیخودی سے تعبیر کیا ہے

اقبال کے اس فلسفہ ء بیخودی سے اک شعر یاد آگیا، جسکو میں سمجھنے سے قاصر رہی ہوں ...ہوسکے تو بتائیے گا



فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جُنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک ....
 

اکمل زیدی

محفلین
اقبال کے اس فلسفہ ء بیخودی سے اک شعر یاد آگیا، جسکو میں سمجھنے سے قاصر رہی ہوں ...ہوسکے تو بتائیے گا



فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جُنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک ....

اپنے بے ربط اور کم علمی اور کم فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہاں آپ کے اس سوال کے جواب میں محمد احمد بھائی کے اسی طرح کی کسی لڑی میں دیے گئے جواب سے استفادہ کرونگا
"
ان اشعار میں کوئی ایسی بات نہیں۔۔۔۔! سوائے بے باکی کے۔

اقبال کی نظم "شکوہ" میں اس طرح کے اشعار اُن لوگوں کی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جو اپنے ہر مسئلے اور تکلیف کی وجہ قسمت (خدا ) کو گردانتے ہیں اور اپنے اعمال پر نظر نہیں کرتے۔ اس طرح کے لوگ کبھی بلواسطہ اور کبھی بلا واسطہ خدا سے شاکی نظر آتے ہیں۔ اقبال کا شکوہ بحیثیتِ مجموعی ایسے ہی لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو اپنے اعمال اور کوتاہیوں کا ذمہ دار بھی قدرت، قسمت یا خدا کو ٹھہراتے ہیں۔

گو کہ یہ اشعار بے باکی کی ذمرے میں آتے ہیں تاہم اس نظم کی ساخت ایسے ہی اشعار کی متقاضی ہے ۔ اقبال کا مقصد ہماری اُن کوتاہیوں کی نشاندہی ہے جنہیں ہم قسمت اور خدا کا امر گردانتے ہوئے خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں
۔"
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ دَیرِ کُہن کیا ہے، انبارِ خس و خاشاک
مشکل ہے گزر اس میں بے نالۂ آتش ناک
نخچیرِ محبّت کا قصّہ نہیں طُولانی
لُطفِ خلشِ پَیکاں، آسودگیِ فِتراک
کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملّت میں
سمجھے گا نہ تُو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک
اک شرعِ مسلمانی، اک جذبِ مسلمانی
ہے جذبِ مسلمانی سِرِّ فلک الافلاک
اے رہروِ فرزانہ، بے جذبِ مسلمانی
نے راہِ عمل پیدا نے شاخِ یقیں نم‌ناک
رمزیں ہیں محبّت کی گُستاخی و بےباکی
ہر شوق نہیں گُستاخ، ہر جذب نہیں بےباک
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جُنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک!
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ دَیرِ کُہن کیا ہے، انبارِ خس و خاشاک
مشکل ہے گزر اس میں بے نالۂ آتش ناک
نخچیرِ محبّت کا قصّہ نہیں طُولانی
لُطفِ خلشِ پَیکاں، آسودگیِ فِتراک
کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملّت میں
سمجھے گا نہ تُو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک
اک شرعِ مسلمانی، اک جذبِ مسلمانی
ہے جذبِ مسلمانی سِرِّ فلک الافلاک
اے رہروِ فرزانہ، بے جذبِ مسلمانی
نے راہِ عمل پیدا نے شاخِ یقیں نم‌ناک
رمزیں ہیں محبّت کی گُستاخی و بےباکی
ہر شوق نہیں گُستاخ، ہر جذب نہیں بےباک
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جُنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک!
میں نے اسکی شرح مانگی تھی .. آپ آخری شعر کے بارے میں تفہیم کردیجیے. فکر مت کیجیے میں اقبال کی بیباکی کو نشانہ نہیں بنا رہی بلکہ اہل علم سے اس بارے رائے لے رہی
 
ناچیز کی ناقص رائے میں بیخودی، وہ تجربہ ہے جو انسان حواسِ خمسہ سے ماورا، خالق کی ذات کی قربت کا احساس ہے۔

خودی، اپنی صلاحیت کو پہچاننا اور اس کے نتیجے میں خود داری اور استغنا کا حاصل ہونا ہے۔
 
Top