طارق شاہ
محفلین
غزل
بیخود بدایونی
شبِ فرقت میں آجاتی اَجل ، تو اُس کا کیا جاتا
وہ کیا مُنہ کا نوالہ تھی جو کوئی اُس کو کھا جاتا
چُرائی جان مرنے سے ، یہ طعنہ کب سُنا جاتا
نہ کھاتا زخم خنجر کا ، تو کیا میں زہر کھا جاتا
نہ جاتا ساتھ میّت کے ، مگر مجھ کو مِٹا جاتا
مِری بالیں پہ وہ میری طبیعت بن کے آ جاتا
ستا کر آسماں مجھ کو بڑے چکّر میں آ جاتا
وہ کیا معشوق تھا خالی جو یہ تیرِ دُعا جاتا
قیامت تک نہ جاتا ، پھر کہیں رنگِ حنا جاتا
حنا کے ساتھ ہاتھوں میں جومیرا دل مَلا جاتا
نہ دیتا دل تجھے تو جیتے جی مجھ کو کہا جاتا
کوئی تیرا گِلا مِٹتا ، کوئی شکوہ تِرا جاتا
نہ کیونکر نذرِ دل ہوتا نہ کیوں کر دم مِرا جاتا
اکیلا بھیجتا اُس کو وہ خالی ہاتھ کیا جاتا
شباہت حُور کی، پتّھر کا دل، شعلہ کی خاصیّت !
اگر وہ آدمی ہوتا ، تو کچُھ اُس سے کہا جاتا
مِٹادی مِٹ کے داغِ آرزو نے، عِشق کی دولت
کوئی دن اور رہ جاتا، تو یہ دل کو بنا جاتا
وہ دم بھر کوچلے آتے اور مسیحائی دِکھا جاتے
اُنھیں تھا عذر آنے میں ، پلٹ کر دَم تو آ جاتا
خُدا نے شرم رکھ لی ، مرگیا میں ضبطِ اُلفت میں
بھڑک اُٹھتا جو یہ شعلہ ، کلیجہ منْہ کو آ جاتا
خبر سُن کر مِرے مرنے کی ہک دک وہ بھی رہ جاتے
اڑاتا خاک سر پر جب وہاں پیکِ صبا جاتا
تمھارے عہدِ فردا نے تو برسوں جاں بلب رکھا
قیامت کا تو وعدہ میرا جھگڑا ہی چُکا جاتا
کہاں تک تم جلاتے، تم کہاں تک سرجُدا کرتے
قیامت تک نہ یہ اندازِ تسلیم و رضا جاتا
جنازہ پر بھی وہ آتے ، تو منْہ کو ڈھانک کر آ تے
ہماری جان لے کر بھی ، نہ اندازِ حیا جاتا
نقاہت اِس قدر، اِتنی نزاکت اور پھر ایسی
جو وہ آ تا تو کیا آتا ، جو میں جاتا تو، کیا جاتا
تمھاری یاد، میرا دل، یہ دونوں چلتے پُرزے ہیں
جو اِن میں سے کوئی مِٹتا، مجھے پہلے مِٹا جاتا
تِرے چِتوَن کے بَل کو ہم نے قاتِل تاک رکھّا تھا
کِدھر مقتل میں بچ کر ہم سے یہ تیرِ قضا جاتا
نہ آ یا وہ اِدھر شرمِ ستم سے ، خیر ہی گزُری
قیامت میں کوئی مِل کر قیامت اور ڈھا جاتا
پیامی جمع کرلینے تھے اے دل ! تجھ کو پہلے سے
وہاں جب ایک مر رہتا ، یہاں سے دوسرا جاتا
وہ کافر بد زباں ، میں وضع کا پابند، دِل مُضطر
نہ مجھ سے کُچھ سُنا جاتا ، نہ مجھ سے کُچھ کہا جاتا
لڑائی اِن بُتوں سے آنکھ ، دُنیا میں رہا جب تک !
خُدا کے سامنے کیا خاک بن کر پارسا جاتا
مزہ جب تھا ، قیامت تک نہ آتا ہوش بیخود کو
پِلائی تھی جو مے ساقی نے اِتنی تو پِلا جاتا
مولوی عبدالحئی صدیقی، بیخود بدایونی