بیخود دہلوی -- اُٹھے تِری محفل سے تو کِس کام کے اُٹھے

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
بیخود دہلوی
اُٹھے تِری محفل سے تو کِس کام کے اُٹّھے
دل تھام کے بیٹھے تھے، جگر تھام کے اُٹّھے
دم بھر مِرے پہلُو میں اُنہیں چین کہاں ہے
بیٹھے، کہ بہانے سے کسی کام کے اُٹّھے
افسوس سے اغیار نے کیا کیا نہ مَلے ہاتھ
وہ بزْم سے جب ہاتھ مِرا تھام کے اُٹّھے
دنیا میں کسی نے بھی یہ دیکھی نہ نزاکت
اُن سے نہ کبھی حرف مِرے نام کے اُٹّھے
جو ظلم وستم تم نے کئے، سب وہ اُٹھائے
اک رنج والم ہم سے نہ الزام کے اُٹّھے
صدمے تو بہت قید میں جھیلے مِرے دل نے
جھونکے نہ مگر زُلفِ سیاہ فام کے اُٹّھے
ہے رشک کہ یہ بھی کہیں شیدا نہ ہوں اُس کے
تُربت سے بہت لوگ مِرے نام کے اُٹّھے
افسانۂ حُسن اُسکا ہے ہر ایک زباں پر
پردہ نہ کبھی جس کے دروبام سے اُٹّھے
آغازِ محبت میں مَزے دل نے اُٹھائے
پوچھے تو کوئی، رنج بھی الزام کے اُٹّھے
دل نذر میں دے آئے اُسی شوخ کو بیخود
بازار میں جب دام نہ اُس جام کے اُٹّھے
بیخود دہلوی
 

فاتح

لائبریرین
ہمیشہ کی طرح خوبصورت انتخاب طارق شاہ صاحب
دل نذر میں دے آئے اُسی شوخ کو بیخود​
بازار میں جب دام نہ اُس جام کے اُٹّھے​
 

طارق شاہ

محفلین
ہمیشہ کی طرح خوبصورت انتخاب طارق شاہ صاحب
دل نذر میں دے آئے اُسی شوخ کو بیخود​
بازار میں جب دام نہ اُس جام کے اُٹّھے​
تشکّر فاتح صاحب!
ممنون ہوں پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لئے
خوشی ہُوئی جو انتخاب آپ کو پسند آیا
بہت شاد رہیں
 
Top