طارق شاہ
محفلین
غزلِ
بیخود دہلوی
یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہُوا
مجھے خراب کِیا آپ بھی خراب ہُوا
اَجل میں،زِیست میں، تُربت میں، حشْرمیں ظالم
تِرے سِتم کے لِئے میں ہی اِنتخاب ہُوا
نگاہِ مست کو ساقی کی کون دے الزام
مِرا نصیب، کہ رُسوا مِرا شباب ہُوا
ہمارے عشق کی دس بیس نے بھی داد نہ دی
کِسی کا حُسن، زمانے میں اِنتخاب ہُوا
فنا کا دعویٰ ہزاروں کو تھا، زمانے میں
حباب نے مجھے دیکھا، تو آب آب ہُوا
بیخود دہلوی