حسرت جاوید
محفلین
تو آپ نے کون سا جذبہ خیر سگالی کے تحت یہ حق دیا تھا۔ آپ کے ایسا کرنے کے پیچھے بھی تو یہی نیت کار فرما تھی۔کیونکہ بیرون ملک زیادہ تر صرف تحریک انصاف کا ووٹر ہے۔
تو آپ نے کون سا جذبہ خیر سگالی کے تحت یہ حق دیا تھا۔ آپ کے ایسا کرنے کے پیچھے بھی تو یہی نیت کار فرما تھی۔کیونکہ بیرون ملک زیادہ تر صرف تحریک انصاف کا ووٹر ہے۔
تحریک انصاف بہت جلدی بھول جاتی ہے کہ وہ خود اقتدار میں اسی عدلیہ اور میڈیا کی وجہ سے آئی ہے۔ اس وقت سب اچھا تھا؟ یعنی اگر عدلیہ اور میڈیا تحریک انصاف کے مفاد کا سبب ہے تو سب اچھا ہے اور اگر نہیں ہے تو کرپٹ اور منافق ہے۔کرپٹ عدلیہ اور منافق میڈیا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ کس قسم کی دلیل ہے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینے کی؟ ایسے تو پھر اپوزیشن کا نئے الیکشن کا مطالبہ کرنا بھی بدنیتی ہے کہ اس سے ان کی حکومت بننے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ کیا حکومت اس دلیل کی بنیاد پر اقتدار سے چمٹی رہے اور اگلا الیکشن ہونے ہی نہ دے؟تو آپ نے کون سا جذبہ خیر سگالی کے تحت یہ حق دیا تھا۔ آپ کے ایسا کرنے کے پیچھے بھی تو یہی نیت کار فرما تھی۔
اچھا؟ ہم تو سمجھے تھا کہ جب حکمران ٹھیک ہو باقی سب خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔اچھی کارکردگی دکھانے کیلئے بیروکریسی، عدلیہ، میڈیا کا کردار ٹھیک ہونا ضروری ہے۔
کنفلکٹ آف انٹرسٹ بھول گئے ہیں؟یہ کس قسم کی دلیل ہے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینے کی؟ ایسے تو پھر اپوزیشن کا نئے الیکشن کا مطالبہ کرنا بھی بدنیتی ہے کہ اس سے ان کی حکومت بننے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ کیا حکومت اس دلیل کی بنیاد پر اقتدار سے چمٹی رہے اور اگلا الیکشن ہونے ہی نہ دے؟
ایسے تو پھر کوئی بھی الیکشن کروانا ملک کے مفاد کے خلاف ہے کہ اس سے چور لٹیروں کی حکومت بن سکتی ہے۔الیکشن کمیشن کی بات بالکل درست ہے۔ چونکہ آپ کی پارٹی کے مفادات کے خلاف ہے اس لیے ہر جگہ 'جانبداری' کا رونا رویا جا رہا ہے۔ آپ کا بیانیہ محض اتنا سا ہے کہ کوئی بھی ادارہ جو آپ کی پارٹی کے مفادات کے خلاف ہے وہ اپوزیشن کے حق میں ہے یعنی تحریکِ انصاف بے لگام چلنے کو ترجیح دیتی ہے اور جو اس کے مفاد کے خلاف ہو گا اس پہ اپوزیشن کے حق میں ہونے کا رونا دھونا شروع ہو جائے گا۔
عدالت عظمی نے نواز شریف کو طویل ٹرائل کے بعد نااہل کیا۔ نیب عدالت نے ۱۰۰ سے زائد پیشیاں بھگتا کر نواز شریف کو کرپشن پر سزا دی۔ یہ سب ان کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ ان کو باعزت بری ہونے کیلئے منی ٹریل دینے سے کس نے روک رکھا تھا؟تحریک انصاف بہت جلدی بھول جاتی ہے کہ وہ خود اقتدار میں اسی عدلیہ اور میڈیا کی وجہ سے آئی ہے۔ اس وقت سب اچھا تھا؟ یعنی اگر عدلیہ اور میڈیا تحریک انصاف کے مفاد کا سبب ہے تو سب اچھا ہے اور اگر نہیں ہے تو کرپٹ اور منافق ہے۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پہلے آپ الیکشن کمیشن کی بات پڑھیں، پھر میرا مراسلہ پڑھیں اور پھر دوبارہ اپنا مراسلہ ریویو کریں۔ اپنی مرضی کا مطلب نکال کر تو کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ایسے تو پھر کوئی بھی الیکشن کروانا ملک کے مفاد کے خلاف ہے کہ اس سے چور لٹیروں کی حکومت بن سکتی ہے۔
آج آپ کیسی عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ اورسیز پاکستانی ملکی برآمداد سے زیادہ ترسیلات زر ملک کو بھجواتے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ زیادہ تر تحریک انصاف کے ووٹر ہیں اس لئے ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ یہ کوئی دلیل ہے؟
۱۸ ویں ترمیم کنفلکٹ آف انٹرسٹ نہیں؟ وفاق سے اختیارات لے کر صوبوں کو منتقل کر دیے جہاں ن لیگ اور پی پی کی مضبوط حکومتیں قائم تھی۔ یہ اختیارات آگے ضلعی، تحصیل اور شہری سطح تک منتقل نہ کرنا کنفلیکٹ آف انٹرسٹ نظر نہیں آتا؟ اسی ترمیم میں نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بنانے کی راہ ہموار کرنے کیلئے تبدیلی کی گئی۔ وہ سب عین جمہوری عمل تھا کیونکہ ۱۸ ویں ترمیم ان دو خاندانی جماعتوں کے مفاد میں تھی۔ اب تحریک انصاف کے وقت وہی چیز سخت بری لگ رہی ہے۔کنفلکٹ آف انٹرسٹ بھول گئے ہیں؟
الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ اپوزیشن کی منظوری سے الیکٹرونک ووٹنگ، مشین ووٹنگ سے متعلق قانون بنا کر ہمارے پاس لائیں پھر ہم اس کی منظوری دیں گے۔ یعنی اگر اپوزیشن کو لگتا ہے کہ مشین ووٹنگ، الیکٹرونک ووٹنگ سے اس کے ووٹ کم ہوجاتے ہیں تو پھر بیشک وہ اس کی منظوری نہ دے۔ جس پر ہم الیکشن کمیشن والے اسی پرانے گھسے پٹے کاغذی ووٹنگ والے طریقہ پر عام انتخابات کروا دیتے ہیں۔ تاکہ ماضی کی طرح دھاندلی کا شور پڑے اور انتخابات متنازعہ ہو جائیں۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پہلے آپ الیکشن کمیشن کی بات پڑھیں، پھر میرا مراسلہ پڑھیں اور پھر دوبارہ اپنا مراسلہ ریویو کریں۔ اپنی مرضی کا مطلب نکال کر تو کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔
بالکل بھی نہیں کیونکہ آئین میں یہ تبدیلی پارلیمنٹ نے کی تھی نہ کہ پی پی پی نے محض آرڈینینس جاری کر کے ایسا کیا تھا۔ پارلیمنٹ سپریم ہے نہ کہ اقتدار میں آئی ہوئی جماعت۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پہلے آپ الیکشن کمیشن کی بات پڑھیں، پھر میرا مراسلہ پڑھیں اور پھر دوبارہ اپنا مراسلہ ریویو کریں۔ اپنی مرضی کا مطلب نکال کر تو کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےالیکشن کمیشن کو آن بورڈ لیا جانا چاہیے تھا کہ آخر انہوں نے انتخابات کروانے ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا اعتراض درست ہے۔
آرمی چیف کے لئے ایکسٹینشن آئینی تبدیلی مانگ رہا تھا۔ ایک دو جماعتوں کو چھوڑ کر باقی تمام نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ حالانکہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے دیگر جرنیلوں کا حق مارا جا رہا تھا۔ لیکن تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفاد میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دیا۔ اس غلط فیصلہ کو بھی محض پارلیمانی بالا دستی کی وجہ سے پھر ٹھیک مان لیںبالکل بھی نہیں کیونکہ آئین میں یہ تبدیلی پارلیمنٹ نے کی تھی نہ کہ پی پی پی نے محض آرڈینینس جاری کر کے ایسا کیا تھا۔ پارلیمنٹ سپریم ہے نہ کہ اقتدار میں آئی ہوئی جماعت۔
اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بالکل ملنا چاہیے لیکن یہ حق پارلیمنٹ کی متفقہ رائے سے ہو نہ کہ ایک پارٹی کی منشاء پہ کیونکہ سپریم اتھارٹی پارلیمنٹ ہے۔
فیصلہ چاہے آپ کے یا میرے اعتبار سے غلط ہو یا صحیح، ہمیں جتنا بھی برا لگے لیکن سپریم اتھارٹی پارلیمنٹ ہے۔ اس طرح تو پھر ہم جمہوری کلچر کی بجائے آمریت و بادشاہت کو فروغ دے رہے ہیں۔آرمی چیف کے لئے ایکسٹینشن آئینی تبدیلی مانگ رہا تھا۔ ایک دو جماعتوں کو چھوڑ کر باقی تمام نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ حالانکہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے دیگر جرنیلوں کا حق مارا جا رہا تھا۔ لیکن تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفاد میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دیا۔ اس غلط فیصلہ کو بھی محض آئینی بالا دستی کی وجہ سے پھر ٹھیک مان لیں
فروغ صرف صحیح اور انصاف پر مبنی فیصلوں کو دینا چاہیے۔ نہ کہ محض پارلیمانی اکثریت کے فیصلوں کو۔فیصلہ چاہے آپ کے یا میرے اعتبار سے غلط ہو یا صحیح، ہمیں جتنا بھی برا لگے لیکن سپریم اتھارٹی پارلیمنٹ ہے۔ اس طرح تو پھر ہم جمہوری کلچر کی بجائے آمریت و بادشاہت کو فروغ دے رہے ہیں۔
صحیح اور غلط معاشرہ طے کرتا ہے، اور ہر معاشرے میں صحیح اور غلط کے معیارات مختلف ہیں۔ جو فیصلہ آپ کو مغربی اقدار کے حساب سے صحیح نظر آ رہا ہو، وہ مشرقی اقدار کے حساب سے غلط بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے فیصلے کا صحیح حق دار معاشرہ ہے (امرھم شوری بینھم) نہ کہ کوئی فردِ واحد اپنے حساب سے فیصلوں کو صحیح سمجھتے ہوئے معاشرے پہ مسلط کرتا جائے۔فروغ صرف صحیح اور انصاف پر مبنی فیصلوں کو دینا چاہیے۔ نہ کہ محض پارلیمانی اکثریت کے فیصلوں کو۔
آپ کی آنکھوں کے سامنے قادیانیوں کیخلاف دوسری آئینی ترمیم، مقامی حکومتوں کیخلاف ۱۸ ویں، جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کیلئے خصوصی آئینی ترمیم جیسے غلط پارلیمانی فیصلے موجود ہیں۔ اگر نا انصافی و ظلم پر مبنی یہ پارلیمانی فیصلے ہی عین جمہوری کلچر ہے تو پھر آمریت و بادشاہت اس سے زیادہ مختلف کلچر نہیں۔
کیا انصاف کا معیار عالمی ہے یا اسے بھی الگ الگ معاشرہ کے حساب سے سیٹ کرنا پڑے گا؟ اسرائیلی پارلیمان ایک قانون پاس کرتی ہے کہ مشرقی یروشلم میں جن یہودی گھروں پر عربوں کا قبضہ ہے وہ اسے کلیم کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی عدالتیں پارلیمانی بالا دستی پر چلتے ہوئے عربوں کو ان گھروں سے نکالنا شروع کر دیتی ہے جن کے اپنے گھروں پر یہود نے مغربی یروشلم میں قبضے کر رکھے ہیں۔ اور جن کی وجہ سے ان عربوں کو یہودیوں کے گھروں پر قبضے کرنے پڑے۔صحیح اور غلط معاشرہ طے کرتا ہے، اور ہر معاشرے میں صحیح اور غلط کے معیارات مختلف ہیں۔ جو فیصلہ آپ کو مغربی اقدار کے حساب سے صحیح نظر آ رہا ہو، وہ مشرقی اقدار کے حساب سے غلط بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے فیصلے کا صحیح حق دار معاشرہ ہے (امرھم شوری بینھم) نہ کہ کوئی فردِ واحد اپنے حساب سے فیصلوں کو صحیح سمجھتے ہوئے معاشرے پہ مسلط کرتا جائے۔
خدارا! اتنا ماضی میں بھی نہ جائیے! بہت کچھ سامنے آگیا تو نری شرمندگی ہی شرمندگی ہوگیاور بہت ماضی میں جائیں تو اور بھی بہت کچھ سامنے آ جائے گا