کاشفی

محفلین
بیسویں صدی کے خدا سے
(سید ہاشم لکھنوی - 1910ء)
بندے پُکارتے ہیں کہ خالق کوئی نہیں
ایک اور آب و گل کا تماشہ بنا تو دے

ایک شور ہے کہ بعد فنا زندگی نہیں
پردے اُٹھا کے حشر کا منظر دکھا تو دے

جنّت بنی ہوئی ہے خودآرائیِ خیال
کوثر کی ایک موج جہاں میں بہا تو دے

یوسف کا حُسن قصہء پارینہ ہوگیا
دنیا تڑپ اُٹھے کوئی ایسا بنا تو دے

دنیا کو آستانہء وحدت پہ پھیر دُوں
مالک مجھے رموزِ الہٰی سکھا تو دے

عالم کی بےرُخی پہ نہ جا میں تو محو ہوں
کچھ عہدِ ماسلف کے فسانے سنا تو دے
 
Top