بیش قیمت جانوروں کی غیر طبعی م

غلام رسول | فروری 2013
murda-hathi-sawa-lakh-ka-1-300x336.jpg

وہ کھال بنگال ٹائیگر کی ہی تھی۔ اُس چھوٹی سی جگہ میں اتنے زیادہ جانوروں کی کھالیں، سر، سینگ اور دیگر حصے پڑے تھے کہ انھیں گننا محال ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ میرے سامنے دیوار پر سٹف شدہ (کیمیائی طریقے سے مردہ جانوروں کو گلنے سڑنے کے قدرتی عمل سے محفوظ بنانے کے عمل کو سٹفنگ کہتے ہیں) نایاب کالا چیتا اور اُس کے پہلو میں ہی ’’یاک‘‘ (ایک قسم کا بھینسا) دیوار پر آویزاں تھے۔ اُس کے نیچے ہی فرش پر ایک پورا سالم ہرن پڑا ہوا تھا جس کے منہ پر پولیتھین بیگ (شاپر) چڑھا ہوا تھا۔ شاید اُسے سٹف کرنے کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ سامنے ایک چھوٹی سی سیمنٹ کی سلیب پر بہت سے نادر و نایاب سٹف شدہ پرندے موجود تھے۔​
سٹف جانوروں و پرندوں کا ڈیلر اُن سب کے نام اور قیمتیں بتا رہا تھا۔ کیونکہ راقم خود ’’زوالوجی‘‘ (جانوروں کے مطالعے کے علم کو زوالوجی کہتے ہیں)کا طالب علم تھا اس لیے راقم کو اُن میں سے بیشتر نایاب و نادر پرندوں و جانوروں کے بارے میں کافی علم تھا۔ لیکن اُن میں سے کچھ تو میرے لیے بھی نئے تھے جن کے بارے میں اُس غیرقانونی ڈیلر کا دعویٰ تھا کہ وہ انتہائی نایاب ہیں اور اُس کے علاوہ کسی اور ڈیلر سے نہیں ملیں گے۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ باقی سارے ڈیلر اُس کا کچرا (بچا کُچا) بیچتے ہیں۔​
جہاں اُس قبر نما تنگ کمرے میں جابجا صفحہ ہستی سے ناپید ہوتے نادرونایاب جانداروں کے محفوظ شدہ، مردہ اجسام اور اُن کے جسم کے وہ حصے موجود تھے جنھیں امراء اپنے ڈائننگ رومز اور محلات کی زینت بنانا فخر سمجھتے ہیں، وہاں اس بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ پاکستان سے کتنے ہی جانوروں و پرندوں کا وجود ختم کر دیا گیا ہے اور اس غیرقانونی تجارت سے باقی ماندہ جاندار بھی اسی خطرے سے دوچار ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کی سرزمین پر ہاتھی و شیر جیسے شاندار جانور موجود تھے اور آج یہ جانور پاکستان میں صرف چڑیاگھروں میں ہی ملتے ہیں اور یہاں بھی یہ نایاب جانور محفوظ نہیں۔ چڑیاگھر کے عملے کی ملی بھگت سے ان قیمتی و نایاب جانوروں کو غیر فطری موت سے دوچار کردیا جاتا ہے اور پھر انھیں موت کے سوداگر خرید لیتے ہیں جن کا کام جانوروں، پرندوں کے اجسام کو محفوظ کرکے ’’سٹفنگ کرکے‘‘ بیچنا ہے۔​
اگر کوئی عام انسان اُس کمرے میں ہو تو اُسے گھِن و بدبو سے اُلٹی آجاتی لیکن کیونکہ مجھے اس قسم کے حالات کا پہلے بھی تجربہ ہو چکا تھا اس لیے میں خود کو اُن بے شمار مردہ اجسام میں سنبھالنے میں کامیاب رہا۔ سیمنٹ کی بنی اُس سلیب پر جابجا مختلف بوتلوں میں انواع و اقسام کے کیمیکلز و سپرے نظر آ رہے تھے۔ اُس ’’لاشوں کے سوداگر‘‘ کا کہنا تھا کہ بازار میں ایسے سپرے دستیاب ہیں جن کے استعمال سے یہ جانور و پرندے گلتے سڑتے نہیں۔ ساتھ ہی پلاسٹک کے کچھ ٹب بھی موجود تھے جن میں جانوروں کی باقیات موجود تھیں۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ ٹیکسی ڈرمی کا عمل کہیں اور نہیں اُسی چھوٹی سی جگہ پر کیا جاتا تھا۔​
اس کا مطلب صاف تھا کہ یہ نادرونایاب جانور و پرندے بھی کسی دور دراز کے شہر یا قصبے سے نہیں کسی قریبی جگہ سے ہی لائے جاتے تھے اور چڑیاگھر سے چند قدم کی دوری پر موجود اس اڈے پر تازہ تازہ ہوا سٹفنگ کا عمل یہ ثابت کر رہا تھا کہ ’’خام مال‘‘ چڑیاگھرسے ہی آیا ہے۔ اتنے میں میری نظر دیوار پر کیمیکل لگی ہرن کی کھال پر پڑی۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ اُس کھال کو کچھ ہی دیر قبل ’’مسالحہ‘‘ وغیرہ لگایا گیا تھا تاکہ اُسے محفوظ کیا جاسکے۔​
ڈیلر بار بار ایک ہی سوال کر رہا تھا آپ کو کون سا جانور چاہیے؟ آپ کو کون سا جانور چاہیے؟ میں نے معصوم سا چہرہ بناتے ہوئے اُسے کہا بھائی! کچھ دکھائو گے تو ہی پسند کریں گے نا اور فیصلہ کریں گے کہ کیا لینا ہے۔ میرے ساتھ آئے ہوئے دوست نے ڈیلر کو بتایا کہ میں ایک یونیورسٹی میں شعبہ زوالوجی(حیوانیات) سے تعلق رکھتا ہوں۔ یہ سن کر ڈیلر کچھ زیادہ ہی مہربان ہوگیا۔ کیونکہ ہر ایک یونیورسٹی و کالج کے بائیولوجی اور زوالوجی شعبہ میں ’’سٹف شدہ‘‘ مردہ جانوروں کو رکھا جاتا ہے تاکہ طالب علم ان کو بغور مطالعہ کرسکیں۔​
لیکن یہ اپنی جگہ ایک اور سوال سوچنے کا مقام ہے کہ انٹرنیٹ و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں جب تقریباً سارے ہی جانوروں و پرندوں کی تصاویر، ویڈیوز اور معلومات کا ایک وسیع و عریض خزانہ انٹرنیٹ پر موجود ہے تو ان نادرونایاب پرندوں کو غیر فطری اور بے رحمانہ طریقے کے ذریعے موت سے دوچار کرنے اور اُس کے بعد اُن کے اجسام اور جسم کے حصوں کو مسالا جات (کیمیکلز) لگا کر محفوظ بنانے والے نام نہاد ’’ٹیکسی ڈرمسٹس‘‘ اور درحقیقت نایاب جانوروں اور پرندوں کی موت کے سوداگروں سے یہ جانور و پرندے خرید کر آخر اُن کی حوصلہ افزائی کیوں کی جائے۔ اگر اس ’’موت‘‘ کے خریدار ہی نہیں ہوں گے تو یہ غیر قانونی کاروبار خودبخود اپنی موت آپ مر جائے گا۔
راقم کا خیال تھا کہ اس غیرقانونی ڈیلر کی دکان صرف ایک ہی کمرے پر مشتمل ہوگی جس میں ہم اُس وقت کھڑے تھے۔ لیکن جیسے ہی موت کے اُس سوداگر کو ہمارے اوپر کچھ اعتماد ہوا اور اُسے یہ محسوس ہوا کہ ہم اُس کے اچھے خریدار ثابت ہو سکتے ہیں اُس نے ایک اور کمرے کا تالا کھول دیا۔ اس کمرے میں توجیسے پرندوں و جانوروں (سٹف ہوئے اور ٹیکسی ڈرمی کے عمل سے گزرے ہوئے) کا گودام ہو۔ ایک دیوار پر ’’سانبھر‘‘ کا سر جسے لکڑی کے ایک تختے پر لگایا گیا تھا دیوار پر آویزاں تھا۔ ڈیلر مجھے بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ یہ پاکستان میں بہت ہی نایاب ہے۔ دوسری دیوار پر ’’پارا‘‘ کا سر دیوار پر آویزاں تھا۔​
کپڑے سکھانے کے لیے استعمال ہونے والی نائیلون کی رسی پر، جن کلپس کی مدد سے کپڑوں کو لٹکایا جاتا ہے، نادرپرندے لٹک رہے تھے۔ مردوں کا سوداگر ایک ایک کرکے سٹف شدہ پرندوں کو مجھے دِکھا رہا تھا۔ اُس نے مجھے فالکن، کونج، نایاب اقسام کے تیتروبٹیر، مور اور بہت ساری اقسام کے نادر پرندے دکھائے۔چکور کے بارے میں بھی ڈیلر کا یہ دعویٰ تھا کہ اتنا بڑا چکور تو کسی شکاری نے بھی نہیں دیکھا ہوگا جو اُس کے پاس موجود تھا۔ اس ’’سوداگر‘‘ کا یہ دعویٰ تھا کہ آپ مجھے کسی بھی جانور کا آرڈر دیں۔ چاہے سالم جانور کا یا کسی خاص حصے کا وہ لاکر حاضر کر دے گا۔​
راقم جب گھر سے نکلنے لگا تھا تو اپنا کیمرہ ساتھ لے جانے لگا۔ لیکن پھر اس خیال سے اُسے واپس رکھ دیا کہ اُس ڈیلر کو شک نہ ہوجائے۔ اب ارادہ تو یہ تھا کہ جب موقع ملا موبائل سے ہی سہی چند اایک تصویریں بنالوں گا تاکہ ثبوت کے طور پر استعمال کی جا سکیں لیکن دل میں ایک ڈر بھی تھا کہ اگر ’’مردوں اور موت کے اس سوداگر‘‘ کو میرے ارادے کی بھنک بھی پڑ گئی کہ میں وہاں اُسے اور اس کے غیرقانونی کاروبار کو بے نقاب کرنے آیا ہوں تو کہیں کسی مصیبت سے نہ دوچار ہوجائوں۔ ویسے بھی اُس ڈیلر کا ڈیل ڈول، حلیہ اور وضع قطع کافی بھیانک تھی۔​
اُس کے سر پر پرانے زخموں کے تین واضح نشان تھے اور چہرے سے ایسی پُراسراریت ٹپک رہی تھی کہ اُسے دیکھ کر ہی جسم میں خوف کی ایک لہر سی محسوس ہوتی تھی۔ ہر لمحے یوں محسوس ہوتا رہا کہ جیسے ہم مافیا کے کسی فرد کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ ہم پوری طرح سے اُس کے رحم و کرم پر تھے۔ اگر اُسے ذرا سا بھی شک ہو جاتا تو ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اس لیے میرا دوست اشاروں کنایوں میں واپس جانے کی بات کر رہا تھا۔ جبکہ میں سب خطروں کو نظرانداز کرکے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔​
اتنے میں ڈیلر نے مجھے سٹف شدہ پورا سالم ’’کینگرو‘‘ دکھایا۔ کینگرو کے چہرے پر معصومیت کے ایسے پُراثر تاثرات تھے جن سے میرا دل یہ سوچ کر ہی غمناک ہو گیا کہ نہ جانے کتنے ہی جانوروں و پرندوں کو موت کے ان سوداگروں نے غیر طبعی و غیر فطری موت سے دوچار کیا ہوگیا۔ میں فرش پر پڑے شترمرغ کے جسم اور اُس کے خوبصورت و معصوم سر کو کیسے بھول سکتا ہوں جیسے وہ اپنے قاتلوں کے احتساب کا سوال کر رہا ہو۔​
فرش پر جابجا نایاب و نادر جانوروں کے اتنے زیادہ اجسام و کھالیں، سر، سینگ موجود تھے کہ میں نے اُس ’’مردوں کے سوداگر‘‘ سے پوچھ ہی لیا کہ کیا یہ سب گلتا سڑتا نہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ اس کمرے میں نہیں۔ میں نے پوچھا اُس کی کیا وجہ ہے۔ اُس ڈیلر کا یہ کہنا تھا کیونکہ اُس نے کمرے میں خاص سپرے کیا ہوا تھا۔ دیواروں پر موجود جو چیز کثرت سے نظر آر ہی تھی وہ تھی مختلف اقسام کے ہرنوں کے سر۔ کیونکہ دلفریب سینگوں کے ساتھ ہرن اور کچھ اور نایاب جانوروں کا خوبصورت اور معصوم سا سر ایک عجیب ہی پُرکیف منظر پیش کرتا ہے اور ان جانوروں کے خریداروں کی بھی کمی نہیں ہے۔​
آپ میں سے اکثر لوگوں نے ہرن کے سر کو امرا کے محلات کے داخلی دروازوں اور ڈرائنگ رومز میں سجا دیکھا ہوگا۔ سوداگر کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ہر سائز کے ہرن کا سر لا سکتا ہے اور وہ جلد ہی اتنے بڑے بڑے ہرنوں کے سر لاکے لگائے گا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چُندھیا جائیں گی اور وہ سر اُس یاک کے سر سے بھی بڑے ہوں گے جو پہلے کمرے میں آویزاں تھا۔ راقم نے تیسرے کمرے میں جانے کی خواہش ظاہر کی تو اُس ڈیلر نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہاں روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ لیکن دور سے ہی میں دیکھ سکتا تھا کہ اُس کمرے میں پہلے والے دو کمروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانوروں و پرندوں کے اجسام کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔​
کبوتر جیسے عام سے پرندے سے لے کر شیر و ٹائیگر جیسے جنگل کے بادشاہ تک ہر قسم کے جانور اور اُن کے جسم کے مختلف اعضا (سینگ، سر، کھالیں) وغیرہ غرض بے شمار جانوروں و پرندوں کی لاشیں وہاں موجود تھیں۔ نہ جانے وہاں اور کتنے ہی کمرے موجود تھے۔ وہاں موجود جانوروں و پرندوں کے اجسام کو دیکھ کر ایک عام آدمی بھی یہ بتا سکتا تھا کہ وہ اپنی قدرتی یا طبعی موت نہیں مرے بلکہ انھیں تندرستی و جوانی میں ہی ’’شوپیس‘‘ بنانے کے لیے اس بے رحم سوداگری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اب تو وہاں کھڑے ہونے میں بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔ دیوہیکل قدوقامت کا وہ سوداگر جو دیکھنے میں ہی بے انتہا ڈرائونا تھا اگر وہ چاہتا تو ہمیں بھی اُن تنگ و تاریک قبر نما چھوٹے چھوٹے کمروں میں بند کر دیتا۔ لیکن وہ اپنی ظاہری شخصیت کے برعکس ایک سیلزمین اور دکان دار کی طرح اپنے پاس موجود انواع واقسام کے نادرونایاب جانوروں کی لاشوں کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔​
اس سوداگر کے پاس پہنچنے کا واقعہ بڑا ہی عجیب تھا۔ راقم کو مدیر محترم نے چڑیاگھر سے ملحقہ آبادی میں ہونے والی اس غیرقانونی تجارت کے بارے میں بتایا اور کہا کہ مجھے پاکستان کے نامور چڑیاگھر میں پرندوں، جانوروں جن میں بیشتر بہت ہی نایاب اور صفحہ ہستی سے معدوم ہونے کے قریب ہیں، کی غیرفطری موت اور پھر ملحقہ آبادی میں انھیں امراء کو بیچنے کے ناجائز کاروبار کا آنکھوں دیکھا حال چاہیے سنی سنائی باتیں نہیں۔ بظاہر تین کمروں پر محیط اُس سوداگر کی دکان کم، سٹوروم زیادہ لگ رہا تھا اور سب سے اہم بات یہ کہ اُسی آبادی میں ہی اُن جانوروں کی لاشوں کو کیمیائی طریقے سے محفوظ کرنے کا عمل کیاجاتا ہے۔​
جس کا واضح مطلب ہے کہ مردہ جانور و پرندے چڑیاگھر سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اتنے نایاب و نادر پرندے اور جانور طبعی و قدرتی موت سے نہیں (مرتیاس) منافع بخش کاروبار کی بھینٹ چڑھانے کے لیے مار دیے جاتے ہیں۔ چڑیاگھر، اُس سے ملحقہ یہ محلہ اور اس مردوں کے سوداگر کی ناجائز کاروبار کی دکان شہر لاہور کے انتہائی حساس مقام پر واقع ہے۔ایک طرف وزیر اعلیٰ ہائوس کی بلندو بالا دیواریں ہیں، دوسری طرف لاہور پولیس کے سربراہ کا دفتر متصل بلال احمر کا دفتر ہے اور بالکل سامنے روزنامہ نوائے وقت، نیشن اور پاکستان ٹو ڈے کے دفاتر، شارع فاطمہ جناح سے ہر دن کئی لاکھ گزرنے والی گاڑیوں میں بیٹھے بے خبر شہری کب جانتے ہوں گے کہ سڑک سے چند قدم دور کیسا گھنائونا کاروبار جاری ہے۔​
ایسے کھلے عام اور سرِعام یہ کاروبار ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارے ہمیشہ کی طرح بے نیاز اور خاموش تماشائی بن کر ان سوداگروں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اس محلے میں داخل ہوتے ہی ہمیں محسوس ہوا جیسے ہم کسی ایسے علاقہ غیر میں آگئے ہیں جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں اور ’’لاشوں کے سوداگروں‘‘ کا غنڈہ راج ہے۔ رات کو چڑیاگھر میں جونایاب و معدوم جانور اور پرندے ’’مر‘‘ جاتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی موت قدرتی ہوتی ہے یا غیر طبعی وہ صبح ہی آپ کو ’’مردوں کے سوداگر‘‘ کے پاس سے مل جائیں گے اور اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے کسی سٹفڈ جانور یا پرندے کا آرڈر دیا اور اگلے ہی دن وہ جانور چڑیاگھر میں اتفاق سے مر جائے اور اس سوداگر کی دکان پر ’’سٹف‘‘ ہونے پہنچ کر آپ کو حیران کر دے۔ آپ میں حیران ہونے کی قوت سے زیادہ، حیران کرنے والوں کی طاقت اور پہنچ زیادہ طاقتور ہے۔ اس لیے یہ کاروبار پورے سکون سے جاری ہے۔ خدا جانے ’’لاشوں کی یہ سوداگری‘‘ کب ختم ہوگی۔ شاید جب تک چڑیا گھر میں ایک بھی جانور یا پرندہ باقی ہے، یہ جاری رہے گی۔​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 
ہماری ذلت و رسوائی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم یوں تو حکومت کو الزام دیتے ہیں لیکن ہم خود ان سے بھی بڑے ۔۔۔۔۔ ہوتے ہیں
خدا جانے ’’لاشوں کی یہ سوداگری‘‘ کب ختم ہوگی
اس سوال کا جواب تو اگلے ہی جملے میں دے دیا گیا ہے
جب تک چڑیا گھر میں ایک بھی جانور یا پرندہ باقی ہے
 
اک چشم کشا تحریر ۔۔۔ مگر کیا کریں آنکھوں پہ پٹی ہی بہت دبیز بندھی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بھائی جی ایک سحیح شکاری ہی ایک صحیح کنزرویٹر ہوتا ہے پیر پگاڑہ اور غلام مصطفیٰ کھر کی مثال سامنے ہے
شکاری تو ویسے ہی بدنام ہیں
 
ہماری ذلت و رسوائی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم یوں تو حکومت کو الزام دیتے ہیں لیکن ہم خود ان سے بھی بڑے ۔۔۔ ۔۔ ہوتے ہیں

اس سوال کا جواب تو اگلے ہی جملے میں دے دیا گیا ہے
بات سچی ہے کاکا کیا کر سکتے ہیں
 
Top