شہزاد وحید
محفلین
آج کل بینج واچنگ کے چرچے ہیں جس کا میں بھی رسیا ہوں۔لیکن کبھی کبھی لڑکپن کا زمانہ بہت یاد آتا ہے جب بینج واچنگ نہیں بینج ریڈنگ ہوا کرتی تھی۔ نصاب کی کتب میں اپنے پسندیدہ مصنف کی کتاب یا ناول چھپا کر پڑھنا دلچسپ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔
کل لڑکپن کے زمانے کا پسندیدہ شخص یعنی محلے کی لائبریری کا آنر فوت ہو گیا۔ پسندیدہ اس لئے بھی کہ اپنے شوق کو پیشہ بنانے میں کامیاب ہو جانا بھی اپنے آپ میں ایک تمغہ ہے۔ وہ فوت ہوا اور کیا ہی برے حالوں فوت ہوا۔ گاہکی میں شدید کمی کی وجہ سے اسے کچھ سال پہلے ہی اپنی سیلف میڈ لائبریری بند کرنی پڑی اور زندگی کے آخری چند سال تنگی میں گزرے۔
یہ ماضی کے گم داشتے اس لیئے بھی یاد آجاتے ہیں کہ موبائل میں انگریزی اور اردو کے بے شمار ناولز اور کتب سٹور کر رکھی ہیں لیکن کبھی ایک منٹ نہیں نکال سکا ایک سے دوسرے صفحہ پر پہنچ پانے کے لیئے۔ اور پھر یاد آتی ہے لڑکپن کی " بینج ریڈنگ"۔ اوائل عمر میں بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، پیغام، نونہال، تعلیم و تربیت سے ترقی کرتے ہوئے ٹارزن، عمرو عیار، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو، چلوسک ملوسک، بوستان خیال، انسپکٹر جمشید، امیر حمزہ سیریز اور پھر اگلی سطح میں داخل ہوتے ہوئے عمران سیریز، سب رنگ، عمران ڈائجسٹ کے اپنے ہی جہان تھے۔ پھر جو ہاتھ پاوں کھلے تو ایم اے راحت کے طویل سلسلوں جیسے نروان کی تلاش، طالوت، پائل، صدیوں کا بیٹا اور پھر بقیہ مصفین کے سلسلے شکاری، دیوتا، موت کے سوداگر اور پھر تھوڑا ادب سے لگاو بھڑا تو مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے، ممتاز مفتی کے ایلی کی داستان اور پھر کون سا مصنف تھا جس کی بینج ریڈنگ نہ کی ہو۔ بانو قدسیہ، اے حمید، ابن صفی اور لسٹ از جسٹ سو لانگ۔
کل جنازہ پڑھنے کے بعد سے منظر ماضی ابھی ذہن میں ہے۔ کیسا دلچپ وقت تھا وہ۔ کچھ آپ لوگ بھی شیئر کریں اپنی مطالعہ کی داستان۔
کل لڑکپن کے زمانے کا پسندیدہ شخص یعنی محلے کی لائبریری کا آنر فوت ہو گیا۔ پسندیدہ اس لئے بھی کہ اپنے شوق کو پیشہ بنانے میں کامیاب ہو جانا بھی اپنے آپ میں ایک تمغہ ہے۔ وہ فوت ہوا اور کیا ہی برے حالوں فوت ہوا۔ گاہکی میں شدید کمی کی وجہ سے اسے کچھ سال پہلے ہی اپنی سیلف میڈ لائبریری بند کرنی پڑی اور زندگی کے آخری چند سال تنگی میں گزرے۔
یہ ماضی کے گم داشتے اس لیئے بھی یاد آجاتے ہیں کہ موبائل میں انگریزی اور اردو کے بے شمار ناولز اور کتب سٹور کر رکھی ہیں لیکن کبھی ایک منٹ نہیں نکال سکا ایک سے دوسرے صفحہ پر پہنچ پانے کے لیئے۔ اور پھر یاد آتی ہے لڑکپن کی " بینج ریڈنگ"۔ اوائل عمر میں بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، پیغام، نونہال، تعلیم و تربیت سے ترقی کرتے ہوئے ٹارزن، عمرو عیار، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو، چلوسک ملوسک، بوستان خیال، انسپکٹر جمشید، امیر حمزہ سیریز اور پھر اگلی سطح میں داخل ہوتے ہوئے عمران سیریز، سب رنگ، عمران ڈائجسٹ کے اپنے ہی جہان تھے۔ پھر جو ہاتھ پاوں کھلے تو ایم اے راحت کے طویل سلسلوں جیسے نروان کی تلاش، طالوت، پائل، صدیوں کا بیٹا اور پھر بقیہ مصفین کے سلسلے شکاری، دیوتا، موت کے سوداگر اور پھر تھوڑا ادب سے لگاو بھڑا تو مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے، ممتاز مفتی کے ایلی کی داستان اور پھر کون سا مصنف تھا جس کی بینج ریڈنگ نہ کی ہو۔ بانو قدسیہ، اے حمید، ابن صفی اور لسٹ از جسٹ سو لانگ۔
کل جنازہ پڑھنے کے بعد سے منظر ماضی ابھی ذہن میں ہے۔ کیسا دلچپ وقت تھا وہ۔ کچھ آپ لوگ بھی شیئر کریں اپنی مطالعہ کی داستان۔