سید انور محمود
محفلین
تاریخ:05 مارچ، 2017
عرفان اللہ مروت جیسے لوگوں کو پیپلز پارٹی میں نہیں جیل میں ہونا چاہئے، اس کے گھناؤنے اقدامات قابل مذمت ہیں، جنکومعاف نہیں کیا جاسکتا۔ عرفان اللہ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے اعلان کے فوراً بعدسابق وزیر اعظم بینظیربھٹواور سابق صدرآصف علی زرداری کی صاحبزادیوں بختاوربھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری نے عرفان اللہ مروت کے پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بیان پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بختاوربھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ بیمار ذہنیت کے لوگوں کو جیل میں سڑنا چاہیے، ایسے لوگوں کو پیپلزپارٹی کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے، پیپلزپارٹی کی قیادت ایک خاتون نےسنبھالی تھی۔عرفان اللہ مروت سابق صدر غلام اسحاق خان کا داماد ہے۔ وہ پیپلز پارٹی سے منحرف ہونے والے سابق وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کے دور کی سی آئی اے کے سابق ڈی آئی جی سمیع اللہ مروت کے ساتھ مل کر متنازع شخصیت رہا ہے۔ بینظیر بھٹو نے اس پر پیپلزپارٹی کے رہنماوں اور کارکنوں پر ظلم و تشدد کا الزام لگایا تھا۔عرفان اللہ مروت ایک بدکرادر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کی دنیا میں سیاسی لوٹے کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
سابق صدر غلام اسحاق نے جب 1990 میں بینظیربھٹو کی پہلی حکومت ختم کی تو وفاق میں نواز شریف وزیر اعظم اور سندھ میں جام صادق علی وزیر اعلیٰ بنے۔ کیونکہ عرفان اللہ مروت اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان کے داماد تھے لہٰذا سندھ کابینہ میں ان کو بھی وزیر بنایا گیا، انہوں نے وزارت کی کرسی سنبھالتے ہی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا جینا مشکل کردیا تھا۔1991میں کراچی کی ایک معزز فیملی سے تعلق رکھنے والی لڑکی وینا حیات نے ایک پولیس رپورٹ کرائی جس میں انہوں نےالزام لگایا تھا کہ عرفان اللہ مروت نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کا گینگ ریپ کیا ہے۔ یہ خاتون سابق وزیراعلیٰ سکندر حیات کی پوتی اور مسلم لیگ کےسینئر رہنما سردار شوکت حیات کی بیٹی تھی۔ پیپلز پارٹی سمیت متعدد این جی اوز نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جبکہ عرفان اللہ مروت نے جواب میں الزام لگایا کہ اس کو پھنسانے کے لیے آصف زرداری کے آدمیوں نے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے۔ یہ اسکینڈل نوئے کی دہائی کا ایک بڑا اسکینڈل تھا جس کی وجہ سے سندھ میں جام صادق علی اور مرکز میں نوازشریف کی حکومتیں قبل از وقت ختم ہوگیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی 30 نومبر 1967 میں وجود میں آئی تھی ، پچاس سال پرانی اس پارٹی کے چہرئے پر اب کوئی رونق نہیں ہے بلکہ کرپشن کی دھول سے اٹی ہوئی اس کی بدصورتی اس کے چہرئے پر واضع نظر آتی ہے۔ کرپشن کی شروعات تو آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت سے ہی شروع کردی تھی لیکن بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد 2008 سے 2013 تک وفاق اور 2008 سے اب تک صوبہ سندھ میں آصف زرداری کی کرپشن جاری ہے۔ آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کے کرپشن کی وجہ سے 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک علاقائی پارٹی بن گئی اور اب آصف زرداری پیپلز پارٹی کو صرف قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں تک وہی مقام دلانا چاہ رہے ہیں جو کبھی اس پارٹی کو حاصل تھا، وہ آیندہ انتخابات میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے آمادہ ہیں۔آج آصف زرداری کو سب سے زیادہ خوف یہ ہے کہ کہیں بچی کچھی پیپلز پارٹی ختم نہ ہوجائے، ان کو نہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی تلاش ہے اور نہ ہی تھر میں مرنے والے بھوکے بچوں کی، نہ ہی یہ یاد ہے کہ پیپلز پارٹی 2008 میں بینظیر بھٹوکی زندگی کےعوض اقتدار میں آئی تھی۔
زرداری کو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی چوتھی مرتبہ بھی ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگاکر برسراقتدار آئی تھی۔ آصف زرداری یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ شاید پیپلزپارٹی اگلی مرتبہ پنجاب میں تو کیا سندھ میں بھی اتنی سیٹیں حاصل نہ کرسکےجتنی 2013 میں حاصل کی تھیں، جبکہ ملک کے باقی صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی ایک کمزور سیاسی جماعت ہے۔ لہذا اب وہ پنجاب کے چوہدریوں شجات اور پرویزسے ہاتھ ملانے کے علاوہ پیپلزپارٹی چھوڑ کر جانے والے فیصل صالح حیات کو پیپلز پارٹی میں واپس آنے پر قبول کرچکی ہے۔ لیکن پنجاب کےچوہدریوں سے لیکر مروت تک کوئی ایک بھی پیپلزپارٹی کے خلاف اپنے سابقہ موقف پر معذرت کرنے کو تیار نہیں۔ زرداری کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ چوہدریوں اور صالح حیات جیسے لوگوں نے یا تو ذوالفقارعلی بھٹو کو یا پھرانکی بیٹی بینظیر بھٹوکو نقصان پہنچایا تھا زرداری کو نہیں۔ آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں عرفان اللہ مروت کے متنازع کردار سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ جس کی بدترین مثال سندھ اسمبلی کی موجوہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور سابق اسپیکر راحیلہ ٹوانہ ہیں۔ دونوں کو گرفتار کرکے سی آئی اے سینٹر میں تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ راحیلہ ٹوانہ تو مہینوں تک جناح اسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں زیر علاج بھی رہیں ہیں۔
عرفان اللہ مروت کی آصف زرداری سے ملاقات پر بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کی جانب سے سخت ناگواری کے اظہار کے بعدآصف زرداری نے اپنی بیٹیوں کے تحفظات کو تسلیم کرلیا ہے۔ ممتاز تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق ’’چوہدریوں یا دیگر کے مقابلے میں عرفان اللہ مروت کا مشکل ہی سے کوئی حلقہ انتخاب ہے۔ اگر کوئی حلقہ بنتا ہے تو وہ بھی کراچی میں محمود آباد کے علاقے سے صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے تو پھر زرداری نے یہ غیرمقبول فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ وہ خیبر پختون خوا میں سیف اللہ خاندان کو خوش کرنا چاہتے ہیں تا کہ بدلے میں وہاں حمایت حاصل کرسکیں‘‘۔ 2007 میں بینظیر بھٹوکے قتل کے بعد آصف زرداری نے پیپلز پارٹی پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی ایک اور ڈرامہ رچایا تھا کہ اپنے تینوں بچوں کے ناموں میں ’’بھٹو‘‘ کا اضافہ کردیا تھا۔ آصف زرداری کے لیے بہتر تھا کہ بچوں کے نام میں ’’بھٹو‘‘ کا اضافہ نہ کرتے اس کے بدلے پیپلز پارٹی کا نام بدل دیتے تو ان کےلیے بہتر تھا، انکوفائدہ یہ ہوتا کہ بینظیر بھٹوکی بیٹیاں ان سے بغاوت نہ کرتیں، شاید بھٹو نام میں اب بھی اثر موجودہے۔ اپنی سو لفظوں کی کہانی ’’بغاوت‘‘ میں نےزرداری کوبتایا ہےکہ پیپلز پارٹی کےحقیقی کارکنوں میں اب بھی بھٹو زندہ ہے، شاید بختاور اور آصفہ والے بھٹو کی شکل میں ۔میری سولفظوں کی کہانی کچھ یوں تھی:۔
۔’’ان کی ماں کو مار دیا گیا، وہ بہت عظیم بے خوف لیڈر تھی۔ کس نے مروایا ،بچے اچھی طرح اپنے باپ کے کردار سے واقف ہیں۔ پھر ایک دن ان کے باپ کی مرضی سے ایک آوارہ مزاج شخص انکی پارٹی میں شامل ہوا، بھائی خاموش رہا لیکن دونوں بہنوں نے باپ کے خلاف بغاوت کردی، بچیوں کی بغاوت کے سامنے باپ نے گھٹنے ٹیک دیئے، کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ یہ اس عظیم خاتون کی بیٹیاں ہیں، جو دہشتگردوں کے سامنے نہ جھکی اور نہ ان سے ڈری، بینظیر بھٹو کی بیٹیوں اس بغاوت پر آپکو سلام‘‘۔
بینظیر بھٹو کی باغی بیٹیاں
تحریر: سید انور محمودعرفان اللہ مروت جیسے لوگوں کو پیپلز پارٹی میں نہیں جیل میں ہونا چاہئے، اس کے گھناؤنے اقدامات قابل مذمت ہیں، جنکومعاف نہیں کیا جاسکتا۔ عرفان اللہ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے اعلان کے فوراً بعدسابق وزیر اعظم بینظیربھٹواور سابق صدرآصف علی زرداری کی صاحبزادیوں بختاوربھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری نے عرفان اللہ مروت کے پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بیان پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بختاوربھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ بیمار ذہنیت کے لوگوں کو جیل میں سڑنا چاہیے، ایسے لوگوں کو پیپلزپارٹی کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے، پیپلزپارٹی کی قیادت ایک خاتون نےسنبھالی تھی۔عرفان اللہ مروت سابق صدر غلام اسحاق خان کا داماد ہے۔ وہ پیپلز پارٹی سے منحرف ہونے والے سابق وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کے دور کی سی آئی اے کے سابق ڈی آئی جی سمیع اللہ مروت کے ساتھ مل کر متنازع شخصیت رہا ہے۔ بینظیر بھٹو نے اس پر پیپلزپارٹی کے رہنماوں اور کارکنوں پر ظلم و تشدد کا الزام لگایا تھا۔عرفان اللہ مروت ایک بدکرادر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کی دنیا میں سیاسی لوٹے کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
سابق صدر غلام اسحاق نے جب 1990 میں بینظیربھٹو کی پہلی حکومت ختم کی تو وفاق میں نواز شریف وزیر اعظم اور سندھ میں جام صادق علی وزیر اعلیٰ بنے۔ کیونکہ عرفان اللہ مروت اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان کے داماد تھے لہٰذا سندھ کابینہ میں ان کو بھی وزیر بنایا گیا، انہوں نے وزارت کی کرسی سنبھالتے ہی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا جینا مشکل کردیا تھا۔1991میں کراچی کی ایک معزز فیملی سے تعلق رکھنے والی لڑکی وینا حیات نے ایک پولیس رپورٹ کرائی جس میں انہوں نےالزام لگایا تھا کہ عرفان اللہ مروت نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کا گینگ ریپ کیا ہے۔ یہ خاتون سابق وزیراعلیٰ سکندر حیات کی پوتی اور مسلم لیگ کےسینئر رہنما سردار شوکت حیات کی بیٹی تھی۔ پیپلز پارٹی سمیت متعدد این جی اوز نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جبکہ عرفان اللہ مروت نے جواب میں الزام لگایا کہ اس کو پھنسانے کے لیے آصف زرداری کے آدمیوں نے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے۔ یہ اسکینڈل نوئے کی دہائی کا ایک بڑا اسکینڈل تھا جس کی وجہ سے سندھ میں جام صادق علی اور مرکز میں نوازشریف کی حکومتیں قبل از وقت ختم ہوگیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی 30 نومبر 1967 میں وجود میں آئی تھی ، پچاس سال پرانی اس پارٹی کے چہرئے پر اب کوئی رونق نہیں ہے بلکہ کرپشن کی دھول سے اٹی ہوئی اس کی بدصورتی اس کے چہرئے پر واضع نظر آتی ہے۔ کرپشن کی شروعات تو آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت سے ہی شروع کردی تھی لیکن بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد 2008 سے 2013 تک وفاق اور 2008 سے اب تک صوبہ سندھ میں آصف زرداری کی کرپشن جاری ہے۔ آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کے کرپشن کی وجہ سے 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک علاقائی پارٹی بن گئی اور اب آصف زرداری پیپلز پارٹی کو صرف قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں تک وہی مقام دلانا چاہ رہے ہیں جو کبھی اس پارٹی کو حاصل تھا، وہ آیندہ انتخابات میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے آمادہ ہیں۔آج آصف زرداری کو سب سے زیادہ خوف یہ ہے کہ کہیں بچی کچھی پیپلز پارٹی ختم نہ ہوجائے، ان کو نہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی تلاش ہے اور نہ ہی تھر میں مرنے والے بھوکے بچوں کی، نہ ہی یہ یاد ہے کہ پیپلز پارٹی 2008 میں بینظیر بھٹوکی زندگی کےعوض اقتدار میں آئی تھی۔
زرداری کو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی چوتھی مرتبہ بھی ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگاکر برسراقتدار آئی تھی۔ آصف زرداری یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ شاید پیپلزپارٹی اگلی مرتبہ پنجاب میں تو کیا سندھ میں بھی اتنی سیٹیں حاصل نہ کرسکےجتنی 2013 میں حاصل کی تھیں، جبکہ ملک کے باقی صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی ایک کمزور سیاسی جماعت ہے۔ لہذا اب وہ پنجاب کے چوہدریوں شجات اور پرویزسے ہاتھ ملانے کے علاوہ پیپلزپارٹی چھوڑ کر جانے والے فیصل صالح حیات کو پیپلز پارٹی میں واپس آنے پر قبول کرچکی ہے۔ لیکن پنجاب کےچوہدریوں سے لیکر مروت تک کوئی ایک بھی پیپلزپارٹی کے خلاف اپنے سابقہ موقف پر معذرت کرنے کو تیار نہیں۔ زرداری کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ چوہدریوں اور صالح حیات جیسے لوگوں نے یا تو ذوالفقارعلی بھٹو کو یا پھرانکی بیٹی بینظیر بھٹوکو نقصان پہنچایا تھا زرداری کو نہیں۔ آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں عرفان اللہ مروت کے متنازع کردار سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ جس کی بدترین مثال سندھ اسمبلی کی موجوہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا اور سابق اسپیکر راحیلہ ٹوانہ ہیں۔ دونوں کو گرفتار کرکے سی آئی اے سینٹر میں تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ راحیلہ ٹوانہ تو مہینوں تک جناح اسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں زیر علاج بھی رہیں ہیں۔
عرفان اللہ مروت کی آصف زرداری سے ملاقات پر بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کی جانب سے سخت ناگواری کے اظہار کے بعدآصف زرداری نے اپنی بیٹیوں کے تحفظات کو تسلیم کرلیا ہے۔ ممتاز تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق ’’چوہدریوں یا دیگر کے مقابلے میں عرفان اللہ مروت کا مشکل ہی سے کوئی حلقہ انتخاب ہے۔ اگر کوئی حلقہ بنتا ہے تو وہ بھی کراچی میں محمود آباد کے علاقے سے صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے تو پھر زرداری نے یہ غیرمقبول فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ وہ خیبر پختون خوا میں سیف اللہ خاندان کو خوش کرنا چاہتے ہیں تا کہ بدلے میں وہاں حمایت حاصل کرسکیں‘‘۔ 2007 میں بینظیر بھٹوکے قتل کے بعد آصف زرداری نے پیپلز پارٹی پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی ایک اور ڈرامہ رچایا تھا کہ اپنے تینوں بچوں کے ناموں میں ’’بھٹو‘‘ کا اضافہ کردیا تھا۔ آصف زرداری کے لیے بہتر تھا کہ بچوں کے نام میں ’’بھٹو‘‘ کا اضافہ نہ کرتے اس کے بدلے پیپلز پارٹی کا نام بدل دیتے تو ان کےلیے بہتر تھا، انکوفائدہ یہ ہوتا کہ بینظیر بھٹوکی بیٹیاں ان سے بغاوت نہ کرتیں، شاید بھٹو نام میں اب بھی اثر موجودہے۔ اپنی سو لفظوں کی کہانی ’’بغاوت‘‘ میں نےزرداری کوبتایا ہےکہ پیپلز پارٹی کےحقیقی کارکنوں میں اب بھی بھٹو زندہ ہے، شاید بختاور اور آصفہ والے بھٹو کی شکل میں ۔میری سولفظوں کی کہانی کچھ یوں تھی:۔
۔’’ان کی ماں کو مار دیا گیا، وہ بہت عظیم بے خوف لیڈر تھی۔ کس نے مروایا ،بچے اچھی طرح اپنے باپ کے کردار سے واقف ہیں۔ پھر ایک دن ان کے باپ کی مرضی سے ایک آوارہ مزاج شخص انکی پارٹی میں شامل ہوا، بھائی خاموش رہا لیکن دونوں بہنوں نے باپ کے خلاف بغاوت کردی، بچیوں کی بغاوت کے سامنے باپ نے گھٹنے ٹیک دیئے، کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ یہ اس عظیم خاتون کی بیٹیاں ہیں، جو دہشتگردوں کے سامنے نہ جھکی اور نہ ان سے ڈری، بینظیر بھٹو کی بیٹیوں اس بغاوت پر آپکو سلام‘‘۔