کاشفی
محفلین
بینظیر قتل کا معمہ کبھی حل نہیں ہوگا، بدستور معمہ ہی رہے گا،ہیرالڈو منوز
نیو یارک…بے نظیر کے قتل کا معمہ کبھی حل نہیں ہوسکے گا ، یہ بدستور ایک معمہ بنا رہے گا ، اس بات کا دعویٰ بے نظیر قتل کیس میں تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کے سربراہ اور یو این کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل ہیرالڈو منوز نے کیا ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک سے زیادہ گروپس بے نظیر کے قتل میں ملوث ہوسکتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ نے یہ حکم دیا ، طالبان نے اسٹیبلشمنٹ عناصر کی مدد سے قاتلانہ کارروائی کی اور جنرل مشرف نے نظر اندازی اپنا کر حملہ آوروں کو سہولت فراہم کی ، مقامی پولیس نے ثبوتوں پر پردہ ڈالا جبکہ بے نظیر کی ذاتی سیکیورٹی ٹیم انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ،حال ہی میں لکھے گئے ایک آرٹیکل میں ہیرالڈو منوز نے قتل کی تحقیقات سے متعلق اپنی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہیں شک ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی کارروائی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنے طورپر کی لیکن بے نظیر کے قتل میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے ملوث ہونے اور ثبوت ضائع کرنے کا شبہ ختم نہیں کیا جاسکتا ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں انہیں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے شرف ملاقات حاصل کرنے میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، اور جب انہوں نے دھمکی دی کہ اقوام متحدہ کی ٹیم پاکستان واپس نہیں آئے گی تب کہیں جاکر آرمی چیف ملاقات پر راضی ہوئے ، اس ملاقات میں آرمی چیف جنرل کیانی نے بیت اللہ محسود کی طرف سے بے نظیر کو قتل کرنے پر اپنا شک ظاہر کیا اور کہا کہ وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ بیت اللہ محسود قبائلی علاقوں سے باہر اتنی بڑی کارروائی کا اہل ہے ۔ہیرالڈو منوز نے انکشاف کیا کہ بے نظیر کے قتل کے بعد میڈیا کو بریفننگ دینے کے لیے سیکریٹری داخلہ بریگیڈیر چیمہ کو نکات آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے فراہم کیے جس نے تحقیقات کاسارا رخ ہی موڑ دیا ، جبکہ ورادات کی جگہ دھودینے سے بھی شواہد غائب ہوئے ، اور ذمہ دار پولیس آفیشلز ایجنسیوں کے خوف سے اپنا کردار ادا کرنے میں پیچھے پیچھے رہے ۔ہیرالڈو منوز نے اپنے ایک ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بے نظیر کی وطن واپسی پر آئی ایس آئی نے ایک اسپیشل سیل قائم کیا جس کا کام بے نظیر بھٹو اور ان پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گردوں پر نظر رکھنا تھا، اس سیل نے بے نظیر کی وطن واپسی کے موقع پر کارساز حملے میں ملوث چار افرا دکو بھی حراست میں رکھا ، لیکن کسی بھی آفیشل نے اقوام متحدہ کی ٹیم کو انٹرویو کے دوران ان افراد کے بارے میں اپنا علم ظاہر نہیں کیا۔