شمشاد
لائبریرین
آج پرانے رسالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے فاروق قیصر کی یہ تحریر نظر آئی تو سوچا اسے آپ کے ساتھ شریک محفل کروں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بین سے بینڈ تک
فاروق قیصر کے قلم سے
بونگا : انکل سرگم جی، ہانکنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
سرگم : ہانکنے کا مطلب ہے گائے ، بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کو لاٹھی کے زور پہ آگے آگے چلانا۔
بونگا : اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم سب گائے بھینسیں اور بھیڑ بکریاں ہیں۔
سرگم : ہاں یہ تو ہے۔مگر تمہیں اپنے بارے میں اچانک کیسے پتہ چلا؟
بونگا : اخبار میں کسی نے لکھا ہوا تھا کہ عوام کا کیا ہے؟ عوام کو تو جو چاہے اپنی لاٹھی سے یا لالچ سے جدھر چاہے ہانک کے لے جائے۔ اس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ ہم عوام بھیڑ بکریاں ہیں۔
سرگم : اگر تم عوام لوگ پڑھے لکھے ہو جاؤ تو تمہیں کوئی طاقت کی لاٹھی سے گائے، بھینس یا بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں ہانک سکے گا۔
بونگا : لاٹھی سے مجھے یاد آیا سر جی " جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
سرگم : یہ ایک محاورہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جس کے پاس لاٹھی ہو وہی بھینس کو ہانک سکتا ہے۔
بونگا : یہ محاورہ شہر میں چلتا ہو گا۔ ہمارے گاؤں میں تو بھینس والے کی لاٹھی کسی کام نہیں آتی۔
سرگم : کیا مطلب؟ گاؤں میں بھینس رکھنے والے کی لاٹھی اب کسی کام کیوں نہیں آتی؟
بونگا : اب لاٹھی کے مقابلے میں چور ڈاکوؤں اور اٹھائی گیروں کے پاس بندوق اور پستول جو ہوتی ہے۔ بھینس والا بیچارہ لاٹھی لہراتا رہ جاتا ہے اور اٹھائی گیر بندوق چلا کر بھینس چھین کر لے جاتا ہے۔
سرگم : تم نے ٹھیک کہا۔ اب ہمارنے محاوروں کے معنی ہمارے لئے بے معنی ہو چکے ہیں۔
بونگا : جی سر جی۔ اب تو ہمارے بچوں کو بھی پرانے محاوروں میں استعمال ہونے والی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ کل میں نے اسلام آباد کے ایک بچے سے پوچھا کہ بھینس کیا ہوتی ہے تو بچے کی ماں مائنڈ کر گئی اور بولی، بونگے، میرا بچہ اسلام آباد کے انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے۔ اس کو بھینس کا کیا پتہ؟ ایسا سوال تو تمہیں کسی گاؤں کے بچے سے کرنا چاہیے۔
سرگم : بچے کی ماں نے ٹھیک ہی تو کہا۔ یہ محاورہ خالصتاً دیہاتی محاورہ ہے اور اس شہری محاوروں سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ کسی دیہاتی بچے کا ڈبے کے دودھ سے ہو سکتا ہے۔
بونگا : سر جی، ہمیں اب اپنے محاورے یا ان کے معنی نہ صرف تبدیل کر دینے چاہییں، بلکہ شہری محاورے اور دیہاتی محاورے الگ الگ کر دینے چاہییں۔
سرگم : ہاں ہونا تو یہی چاہیے۔ مگر کیا کریں ہمارے نصاب میں یہی محاورے لکھے جا چکے ہیں۔
بونگا : تو کیا ہوا؟ ہمارا نصاب تو تبدیل بھی ہو سکتا ہے ناں۔ یہ کوئی ہمارا نصیب تو نہیں کہ جو لکھا جا چکا ہے وہ کسی طرح تبدیل نہیں ہو سکتا؟
سرگم : نصاب تو ہر حکومت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہی رہتا ہے۔ نصاب کے محاورے تبدیل نہیں ہوتے۔ اب دیکھو نا اسلام آباد میں اتنی بھینسیں نہیں پائی جاتیں جتنے افسر لوگ پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے بجائے " جتنا عہدہ اتنی دھونس" کا محاورہ رائج کر دینا چاہیے تاکہ لوگوں کی سمجھ میں اس کا مطلب تو آ سکے۔
بونگا : اس طرح تو ہمیں کئی اور محاورے بھی تبدیل کرنے پڑیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بین سے بینڈ تک
فاروق قیصر کے قلم سے
بونگا : انکل سرگم جی، ہانکنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
سرگم : ہانکنے کا مطلب ہے گائے ، بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کو لاٹھی کے زور پہ آگے آگے چلانا۔
بونگا : اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم سب گائے بھینسیں اور بھیڑ بکریاں ہیں۔
سرگم : ہاں یہ تو ہے۔مگر تمہیں اپنے بارے میں اچانک کیسے پتہ چلا؟
بونگا : اخبار میں کسی نے لکھا ہوا تھا کہ عوام کا کیا ہے؟ عوام کو تو جو چاہے اپنی لاٹھی سے یا لالچ سے جدھر چاہے ہانک کے لے جائے۔ اس کا مطلب یہی ہوا ناں کہ ہم عوام بھیڑ بکریاں ہیں۔
سرگم : اگر تم عوام لوگ پڑھے لکھے ہو جاؤ تو تمہیں کوئی طاقت کی لاٹھی سے گائے، بھینس یا بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں ہانک سکے گا۔
بونگا : لاٹھی سے مجھے یاد آیا سر جی " جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
سرگم : یہ ایک محاورہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جس کے پاس لاٹھی ہو وہی بھینس کو ہانک سکتا ہے۔
بونگا : یہ محاورہ شہر میں چلتا ہو گا۔ ہمارے گاؤں میں تو بھینس والے کی لاٹھی کسی کام نہیں آتی۔
سرگم : کیا مطلب؟ گاؤں میں بھینس رکھنے والے کی لاٹھی اب کسی کام کیوں نہیں آتی؟
بونگا : اب لاٹھی کے مقابلے میں چور ڈاکوؤں اور اٹھائی گیروں کے پاس بندوق اور پستول جو ہوتی ہے۔ بھینس والا بیچارہ لاٹھی لہراتا رہ جاتا ہے اور اٹھائی گیر بندوق چلا کر بھینس چھین کر لے جاتا ہے۔
سرگم : تم نے ٹھیک کہا۔ اب ہمارنے محاوروں کے معنی ہمارے لئے بے معنی ہو چکے ہیں۔
بونگا : جی سر جی۔ اب تو ہمارے بچوں کو بھی پرانے محاوروں میں استعمال ہونے والی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ کل میں نے اسلام آباد کے ایک بچے سے پوچھا کہ بھینس کیا ہوتی ہے تو بچے کی ماں مائنڈ کر گئی اور بولی، بونگے، میرا بچہ اسلام آباد کے انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے۔ اس کو بھینس کا کیا پتہ؟ ایسا سوال تو تمہیں کسی گاؤں کے بچے سے کرنا چاہیے۔
سرگم : بچے کی ماں نے ٹھیک ہی تو کہا۔ یہ محاورہ خالصتاً دیہاتی محاورہ ہے اور اس شہری محاوروں سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ کسی دیہاتی بچے کا ڈبے کے دودھ سے ہو سکتا ہے۔
بونگا : سر جی، ہمیں اب اپنے محاورے یا ان کے معنی نہ صرف تبدیل کر دینے چاہییں، بلکہ شہری محاورے اور دیہاتی محاورے الگ الگ کر دینے چاہییں۔
سرگم : ہاں ہونا تو یہی چاہیے۔ مگر کیا کریں ہمارے نصاب میں یہی محاورے لکھے جا چکے ہیں۔
بونگا : تو کیا ہوا؟ ہمارا نصاب تو تبدیل بھی ہو سکتا ہے ناں۔ یہ کوئی ہمارا نصیب تو نہیں کہ جو لکھا جا چکا ہے وہ کسی طرح تبدیل نہیں ہو سکتا؟
سرگم : نصاب تو ہر حکومت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہی رہتا ہے۔ نصاب کے محاورے تبدیل نہیں ہوتے۔ اب دیکھو نا اسلام آباد میں اتنی بھینسیں نہیں پائی جاتیں جتنے افسر لوگ پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے بجائے " جتنا عہدہ اتنی دھونس" کا محاورہ رائج کر دینا چاہیے تاکہ لوگوں کی سمجھ میں اس کا مطلب تو آ سکے۔
بونگا : اس طرح تو ہمیں کئی اور محاورے بھی تبدیل کرنے پڑیں گے۔