نیلم
محفلین
بیوائیں " غفلت نہیں عزت کی مستحق "
اسلام نے انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا فرمایا ہے۔اس فیض سے معاشرہ اسی وقت مستفید ہوسکتا ہے جب زندگی کے ہر شعبے میں صرف خدائی احکام ہی نافذ ہوں۔اس نظام کے بعض اجزا کو رائج کرنا اور بعض کو خارج کرنا ، فساد فی الارض (یعنی گمراہی اور بدخواہی) کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ سراسر ظلم ہے کہ ہم سودکے مضر درخت کی آبیاری بھی کریں اور اسلام کے معاشی نظام کی دہائی بھی دیں۔ہم رشوت کے مال سے حویلیاں تعمیر کریں اور ان کے اندر رہ کر سکونِ قلب کی تمنا کریں۔
ہم نکاح کو مشکل سے مشکل تر بھی بنائیں اور فحاشی اور بے راہ روی کو بھی کوسیں۔دو متضاد طرز زندگی کے محلول سے سکھ اور آرام نہیں بلکہ انتشار وبے کلی ہی پیدا ہوگی۔میںآج جس موضوع پر لب کشائی کی جسارت کررہی ہوں اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ہم اپنے پیارے نبی آقائے نامدار محمد عربی کے متعدد نکاحوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔آپ کی حیات طیبہ میں جن خوش قسمت خواتین کو آپ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا، ان کی تفصیل یوں ہے۔
1۔ خدیجہ بنت خویلد بن اسد
پہلے دو نکاح عتیق بن عائدبن عبداللہ مخزومی اور ابو ہالہ بن نیاس تمیمی سے ہوئے۔ان دونوں کا انتقال ہوا۔ابو ہالہ کے بچے حضور کے ساتھ آپ کے نکاح کے وقت آپ کی گود میں تھے۔نکاح کے وقت حضور کی عمر مبارک پچیس برس اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس برس تھی۔آپ سے حضورکو چار بیٹیاں اور دو بیٹے اللہ نے عطا فرمائے۔ فرزندانِ نبی صغر سنی میں ہی انتقال فرماگئے جبکہ چاروں دختراں کی شادی ہوئی۔حضور نے جب اس دنیا سے پردہ فرمایا تو صرف حضرت فاطمہ بقید حیات تھیں۔
2۔سودہ بنت زمعہ بن قیس
ان کی پہلی شادی سکران بن عمروکے ساتھ ہوئی تھی۔دونوں میاں بیوی اولین مومنین میں سے تھے۔ دونوں نے حبشہ ہجرت کی۔واپسی پر حضرت سکران کا انتقال ہوا۔ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد پچاس برس کی عمر میں حضور نے ان سے نکاح کیا۔تقریباً آپ کی ہم عمر تھیں۔
3۔عائشہ بنت ابی بکربن ابی قحافہ
حضور کے یارِغار ،مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے اور قریش کے مکرم و محترم حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی تھیں۔کافی کم عمر میں حضور سے نکاح ہوا۔علم و فضل میں نہایت کمال تھا۔دین اور فقہ کے بارے میں نامی گرامی صحابہ ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
4۔حفصہ بنت عمربن الخطاب
حضرت نتیس بن حذافہ بن قیس سہمی سے پہلا نکاح ہوا۔حبشہ اور اس کے بعد مدینہ ہجرت کی۔ جنگ احد میں ان کے شوہر زخمی ہوئے اور اللہ کے پیارے ہوئے۔ رسول اللہ نے ان کے شوہر کی خدمات اور ان کے والد کی عظمت و مقام کے پیش نظر ان سے نکاح کیا۔
5۔زینب بنت خزیمہ بن الحارث
پہلے دو نکاح حارث بن عبدالمطلب کے بیٹوں طفیل اور عبیدہ کے ساتھ ہوئے تھے۔ان کی وفات کے بعد عبداللہ بن حجش کے نکاح میں آئیں۔عبداللہ غزوہ احد میں شہید ہوئے۔اس کے بعد حضور نے ان سے نکاح کیا۔ کچھ مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوا۔
6۔ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ بن مغیرہ
ابو سلمہ بن عبدالاسد کے نکاح میں تھیں،حبشہ ہجرت کی پھر جب دونوں نے مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے خاندان نے ام سلمہ کوجانے سے روک دیا۔بڑے کرب میں تقریباً ایک سال گزرا۔غزوہ بدر میں ابو سلمہ زخمی ہوئے اور پھر جانبر نہیں ہوسکے۔ان کی شہادت کے وجہ سے ان کے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ذمہ داری ام سلمہ پر آپڑی۔
حضور نے نکاح کا پیغام بھیجا۔بچوں کی وجہ سے ام سلمہ نے تامل کیا لیکن حضور خود ان کی پرورش کے خواہاں تھے اس لئے نکاح ہوگیا۔ام سلمہ علم وفضل میں بڑے رتبے پر فائز تھیں۔صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب مسلمان احرام کھولنے سے کترارہے تھے تو حضور کی انہی زوجہ محترمہ نے تجویز کی کہ حضور خود اپنا احرام کھولیں تو باقی مسلمان خود ہی تعمیل کریں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
7۔زینب بنت حجش بن رئاب
حضور نے ان کا نکاح اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارث کے ساتھ کیا لیکن ان دونوں کا نباہ نہیں ہوسکا۔ اللہ کے حکم کے تابع آنحضور نے ان کے ساتھ خود نکاح کیا۔اس سے اس جاہلی فتنہ کا تاقیامت خاتمہ ہوا جس کے مطابق منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔
8۔ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان بن حرب
ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔پہلا نکاح عبیداللہ بن حجش سے تھا۔دونوں نے قبولِ اسلام کے بعد حبشہ ہجرت کی جہاں ان کی ایک بیٹی حبیبہ پیدا ہوئیں۔عبیداللہ نے وہاں عیسائیت اختیار کی لیکن ام حبیبہ اسلام پر جمی رہیں۔ عبیداللہ کی وہیں وفات ہوئی۔حضور نے شاہ نجاشی کے ذریعہ پیغام نکاح بھیجا جو ام حبیبہ نے قبول کیا۔ان کی صاحبزادی حبیبہ کو رسول اللہ کی بارگاہ میں ہی تربیت ملی۔
9۔جویریہ بنت الحارث بن ابی ضرار
پہلی شادی مسافح بن صفوان سے ہوئی تھی۔ قبیلہ بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔اس قبیلہ کے ساتھ جنگ ہوئی۔قبیلے والے ہارگئے۔جویریہ مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئیںاور ثابت بن قیس کے حصہ آئیں۔ان سے آزادی کیلئے ایک رقم ٹھہرالی۔مدد کیلئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئیں۔
آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ اپنے قبیلہ کے سردار کی بیٹی ہیں تو ان کو تجویز پیش کی کہ میں ثابت کو رقم دے کر آپ کو آزاد کردیتا ہوں اور خود آپ سے نکاح کرلیتا ہوں۔جویریہ نے تجویز مان کراور ان کے والد نے ان کا نکاح حضور سے کیا۔بنو مصطلق اس سلوک سے بے حد متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔
10۔صفیہ بنت حیی بن اخطب
پہلے سلام بن مشکم اور پھر کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں تھیں۔کنانہ غزوہ خیبر میں مارا گیا۔حضرت صفیہ گرفتارہوئیں۔جب حضور کومعلوم ہوا کہ یہ قبیلہ بنو نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں تو آپ نے ان سے نکاح کیا۔
11۔میمونہ بنت الحارث
پہلا نکاح ابو رہم بن عبدالعزی سے ہوا تھا،جس کا انتقال ہوا۔ حضرت میمونہ نے خود کو آنحضور کی خدمت میں ہبہ کردیا اور آپ نے ان سے نکاح کرنا پسند فرمایا۔
12۔ماریہ قبطیہ
حضور نے مختلف سربراہانِ ممالک کے نام جومکتوبات ارسال فرمائے۔ان میں سے ایک مقوقس، والی مصر کے نام تھا۔اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا لیکن قاصدِ رسول (حضرت حاطب) کی بڑی عزت افزائی کی اور واپسی پر ایک خط اور دو لڑکیاں (جو آپس میں بہنیں تھیں) بھیجیں اور لکھا کہ یہ قبطیوں میں بڑی عزت و وقار کی مالک ہیں۔
مصر سے واپسی پر یہ دونوںاس سفیر کی تبلیغ سے مشرف بہ اسلام ہوئیں۔بارگاہِ نبوی میں جب حاضر ہوئیں تو حضور نے حضرت ماریہ کے ساتھ خود نکاح کیا اور ان کی بہن حضرت سیرین قبطیہ کو حضرت حسان بن ثابت کو دے دیا۔
یہ تھی مختصر تفصیل نبی رحمت کی زوجیت کا شرف حاصل کرنے والی خواتین کا۔اس پوری ازدواجی زندگی پر غور کرنے پر دو باتیں سامنے آتی ہیں۔اولاً یہ کہ عمر کا فرق کبھی رسول اللہ کے نکاح میں رکاوٹ نہیں بنا۔ایک طرف پچیس سال کے محمد عربی اور دوسری طرف چالیس سال کی خدیجة الکبریٰ،ایک طرف پچاس سال سے زائد کے نبی رحمت اور دوسری طرف بہرحال بیس سے کم کی حضرت عائشہ صدیقہ۔حضرت سودہ تقریباً آپ کی ہم عمر تھیں۔ثابت ہوا کہ عمر کا تفاوت ، باقی اوصاف اگر موجود ہوںتو، مانع نکاح نہیں ہونا چاہئے۔
ثانیاً ان تمام نکاحوں پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان بارہ (۱۲)میں سے کم از کم دس پہلے شادی کرچکی تھیں۔صرف حضرت عائشہ کنواری تھیں۔حضرت ماریہ قبطیہ کے بارے میں مجھے کوئی ایسا مواد حاصل نہیں ہوسکا جس سے ان کے قبل از اسلام کی زندگی معلوم ہوسکتی۔بہرحا ل یہ طے ہے کہ باقی دس ازواج مطہرات یقینا شوہر دیدہ تھیں اور بعض کے بچے بھی حضو ر کی آغوش تربیت میں پلے بڑھے!
بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی۔حیات طیبہ پر جو کم نصیب تعدد ازواج کی بنا پر انگشت نمائی کرکے اپنی عاقبت برباد کرتے ہیں وہ ذرا سوچیں ایک ایسا شخص جس کے ساتھ نکاح کیلئے حسین ترین دوشیزائیں میسر ہوسکتی تھیں کیوں ان بیوہ اور عمر رسیدہ خواتین کو اپنی زوجیت کا شرف عطا فرماتے ہیں،کیونکہ اسلام باقی مذاہب کی طرح اس بد قسمت عورت کو جو کسی وجہ سے اپنے شوہر سے محروم ہوچکی ہو،کوڑا کرکٹ نہیں سمجھتا۔
وہ اسے ستی کرنے کا حکم صادر نہیں کرتا۔اسلام اسے منحوس تصور نہیں کرتا،بلکہ اپنے شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد ایک مختصر سی مدت (عدت) سے فارغ ہونے کے بعد اسے اپنی زندگی دوبارہ سنوارنے کا بھر پور حق دیتا ہے۔ سبحان اللہ
گذشتہ بیس سال کے دوران ہماری ہزاروں بہنیں بیوہ ہوگئی ہیں۔ہمارے معاشرے میں ان کے دوبارہ نکاح کی بات بھی معیوب ہے۔انہیں گلنے سڑنے کیلئے اور گھٹ گھٹ کر مرنے کیلئے یاخدانخواستہ معاشرے کا ناسور بننے کیلئے چھوڑدیا جاتا ہے۔کوئی بڑا ہی حاتم طائی بنے تو شائد خیرات کے چند ٹکڑے ان کی جھولی میں ڈال دے۔
محمدعربی کے امتی ہونے کے دعویٰ دار مسلمانوں کو اس نبی رحمت کی ازدواجی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہئے جس نے بیواو ں کی دستگیری میں اپنی پوری زندگی وقف فرمائی۔
اسلام نے انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا فرمایا ہے۔اس فیض سے معاشرہ اسی وقت مستفید ہوسکتا ہے جب زندگی کے ہر شعبے میں صرف خدائی احکام ہی نافذ ہوں۔اس نظام کے بعض اجزا کو رائج کرنا اور بعض کو خارج کرنا ، فساد فی الارض (یعنی گمراہی اور بدخواہی) کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ سراسر ظلم ہے کہ ہم سودکے مضر درخت کی آبیاری بھی کریں اور اسلام کے معاشی نظام کی دہائی بھی دیں۔ہم رشوت کے مال سے حویلیاں تعمیر کریں اور ان کے اندر رہ کر سکونِ قلب کی تمنا کریں۔
ہم نکاح کو مشکل سے مشکل تر بھی بنائیں اور فحاشی اور بے راہ روی کو بھی کوسیں۔دو متضاد طرز زندگی کے محلول سے سکھ اور آرام نہیں بلکہ انتشار وبے کلی ہی پیدا ہوگی۔میںآج جس موضوع پر لب کشائی کی جسارت کررہی ہوں اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ہم اپنے پیارے نبی آقائے نامدار محمد عربی کے متعدد نکاحوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔آپ کی حیات طیبہ میں جن خوش قسمت خواتین کو آپ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا، ان کی تفصیل یوں ہے۔
1۔ خدیجہ بنت خویلد بن اسد
پہلے دو نکاح عتیق بن عائدبن عبداللہ مخزومی اور ابو ہالہ بن نیاس تمیمی سے ہوئے۔ان دونوں کا انتقال ہوا۔ابو ہالہ کے بچے حضور کے ساتھ آپ کے نکاح کے وقت آپ کی گود میں تھے۔نکاح کے وقت حضور کی عمر مبارک پچیس برس اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس برس تھی۔آپ سے حضورکو چار بیٹیاں اور دو بیٹے اللہ نے عطا فرمائے۔ فرزندانِ نبی صغر سنی میں ہی انتقال فرماگئے جبکہ چاروں دختراں کی شادی ہوئی۔حضور نے جب اس دنیا سے پردہ فرمایا تو صرف حضرت فاطمہ بقید حیات تھیں۔
2۔سودہ بنت زمعہ بن قیس
ان کی پہلی شادی سکران بن عمروکے ساتھ ہوئی تھی۔دونوں میاں بیوی اولین مومنین میں سے تھے۔ دونوں نے حبشہ ہجرت کی۔واپسی پر حضرت سکران کا انتقال ہوا۔ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد پچاس برس کی عمر میں حضور نے ان سے نکاح کیا۔تقریباً آپ کی ہم عمر تھیں۔
3۔عائشہ بنت ابی بکربن ابی قحافہ
حضور کے یارِغار ،مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے اور قریش کے مکرم و محترم حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی تھیں۔کافی کم عمر میں حضور سے نکاح ہوا۔علم و فضل میں نہایت کمال تھا۔دین اور فقہ کے بارے میں نامی گرامی صحابہ ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
4۔حفصہ بنت عمربن الخطاب
حضرت نتیس بن حذافہ بن قیس سہمی سے پہلا نکاح ہوا۔حبشہ اور اس کے بعد مدینہ ہجرت کی۔ جنگ احد میں ان کے شوہر زخمی ہوئے اور اللہ کے پیارے ہوئے۔ رسول اللہ نے ان کے شوہر کی خدمات اور ان کے والد کی عظمت و مقام کے پیش نظر ان سے نکاح کیا۔
5۔زینب بنت خزیمہ بن الحارث
پہلے دو نکاح حارث بن عبدالمطلب کے بیٹوں طفیل اور عبیدہ کے ساتھ ہوئے تھے۔ان کی وفات کے بعد عبداللہ بن حجش کے نکاح میں آئیں۔عبداللہ غزوہ احد میں شہید ہوئے۔اس کے بعد حضور نے ان سے نکاح کیا۔ کچھ مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوا۔
6۔ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ بن مغیرہ
ابو سلمہ بن عبدالاسد کے نکاح میں تھیں،حبشہ ہجرت کی پھر جب دونوں نے مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے خاندان نے ام سلمہ کوجانے سے روک دیا۔بڑے کرب میں تقریباً ایک سال گزرا۔غزوہ بدر میں ابو سلمہ زخمی ہوئے اور پھر جانبر نہیں ہوسکے۔ان کی شہادت کے وجہ سے ان کے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ذمہ داری ام سلمہ پر آپڑی۔
حضور نے نکاح کا پیغام بھیجا۔بچوں کی وجہ سے ام سلمہ نے تامل کیا لیکن حضور خود ان کی پرورش کے خواہاں تھے اس لئے نکاح ہوگیا۔ام سلمہ علم وفضل میں بڑے رتبے پر فائز تھیں۔صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب مسلمان احرام کھولنے سے کترارہے تھے تو حضور کی انہی زوجہ محترمہ نے تجویز کی کہ حضور خود اپنا احرام کھولیں تو باقی مسلمان خود ہی تعمیل کریں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
7۔زینب بنت حجش بن رئاب
حضور نے ان کا نکاح اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارث کے ساتھ کیا لیکن ان دونوں کا نباہ نہیں ہوسکا۔ اللہ کے حکم کے تابع آنحضور نے ان کے ساتھ خود نکاح کیا۔اس سے اس جاہلی فتنہ کا تاقیامت خاتمہ ہوا جس کے مطابق منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔
8۔ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان بن حرب
ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔پہلا نکاح عبیداللہ بن حجش سے تھا۔دونوں نے قبولِ اسلام کے بعد حبشہ ہجرت کی جہاں ان کی ایک بیٹی حبیبہ پیدا ہوئیں۔عبیداللہ نے وہاں عیسائیت اختیار کی لیکن ام حبیبہ اسلام پر جمی رہیں۔ عبیداللہ کی وہیں وفات ہوئی۔حضور نے شاہ نجاشی کے ذریعہ پیغام نکاح بھیجا جو ام حبیبہ نے قبول کیا۔ان کی صاحبزادی حبیبہ کو رسول اللہ کی بارگاہ میں ہی تربیت ملی۔
9۔جویریہ بنت الحارث بن ابی ضرار
پہلی شادی مسافح بن صفوان سے ہوئی تھی۔ قبیلہ بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔اس قبیلہ کے ساتھ جنگ ہوئی۔قبیلے والے ہارگئے۔جویریہ مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئیںاور ثابت بن قیس کے حصہ آئیں۔ان سے آزادی کیلئے ایک رقم ٹھہرالی۔مدد کیلئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئیں۔
آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ اپنے قبیلہ کے سردار کی بیٹی ہیں تو ان کو تجویز پیش کی کہ میں ثابت کو رقم دے کر آپ کو آزاد کردیتا ہوں اور خود آپ سے نکاح کرلیتا ہوں۔جویریہ نے تجویز مان کراور ان کے والد نے ان کا نکاح حضور سے کیا۔بنو مصطلق اس سلوک سے بے حد متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔
10۔صفیہ بنت حیی بن اخطب
پہلے سلام بن مشکم اور پھر کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں تھیں۔کنانہ غزوہ خیبر میں مارا گیا۔حضرت صفیہ گرفتارہوئیں۔جب حضور کومعلوم ہوا کہ یہ قبیلہ بنو نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں تو آپ نے ان سے نکاح کیا۔
11۔میمونہ بنت الحارث
پہلا نکاح ابو رہم بن عبدالعزی سے ہوا تھا،جس کا انتقال ہوا۔ حضرت میمونہ نے خود کو آنحضور کی خدمت میں ہبہ کردیا اور آپ نے ان سے نکاح کرنا پسند فرمایا۔
12۔ماریہ قبطیہ
حضور نے مختلف سربراہانِ ممالک کے نام جومکتوبات ارسال فرمائے۔ان میں سے ایک مقوقس، والی مصر کے نام تھا۔اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا لیکن قاصدِ رسول (حضرت حاطب) کی بڑی عزت افزائی کی اور واپسی پر ایک خط اور دو لڑکیاں (جو آپس میں بہنیں تھیں) بھیجیں اور لکھا کہ یہ قبطیوں میں بڑی عزت و وقار کی مالک ہیں۔
مصر سے واپسی پر یہ دونوںاس سفیر کی تبلیغ سے مشرف بہ اسلام ہوئیں۔بارگاہِ نبوی میں جب حاضر ہوئیں تو حضور نے حضرت ماریہ کے ساتھ خود نکاح کیا اور ان کی بہن حضرت سیرین قبطیہ کو حضرت حسان بن ثابت کو دے دیا۔
یہ تھی مختصر تفصیل نبی رحمت کی زوجیت کا شرف حاصل کرنے والی خواتین کا۔اس پوری ازدواجی زندگی پر غور کرنے پر دو باتیں سامنے آتی ہیں۔اولاً یہ کہ عمر کا فرق کبھی رسول اللہ کے نکاح میں رکاوٹ نہیں بنا۔ایک طرف پچیس سال کے محمد عربی اور دوسری طرف چالیس سال کی خدیجة الکبریٰ،ایک طرف پچاس سال سے زائد کے نبی رحمت اور دوسری طرف بہرحال بیس سے کم کی حضرت عائشہ صدیقہ۔حضرت سودہ تقریباً آپ کی ہم عمر تھیں۔ثابت ہوا کہ عمر کا تفاوت ، باقی اوصاف اگر موجود ہوںتو، مانع نکاح نہیں ہونا چاہئے۔
ثانیاً ان تمام نکاحوں پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان بارہ (۱۲)میں سے کم از کم دس پہلے شادی کرچکی تھیں۔صرف حضرت عائشہ کنواری تھیں۔حضرت ماریہ قبطیہ کے بارے میں مجھے کوئی ایسا مواد حاصل نہیں ہوسکا جس سے ان کے قبل از اسلام کی زندگی معلوم ہوسکتی۔بہرحا ل یہ طے ہے کہ باقی دس ازواج مطہرات یقینا شوہر دیدہ تھیں اور بعض کے بچے بھی حضو ر کی آغوش تربیت میں پلے بڑھے!
بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی۔حیات طیبہ پر جو کم نصیب تعدد ازواج کی بنا پر انگشت نمائی کرکے اپنی عاقبت برباد کرتے ہیں وہ ذرا سوچیں ایک ایسا شخص جس کے ساتھ نکاح کیلئے حسین ترین دوشیزائیں میسر ہوسکتی تھیں کیوں ان بیوہ اور عمر رسیدہ خواتین کو اپنی زوجیت کا شرف عطا فرماتے ہیں،کیونکہ اسلام باقی مذاہب کی طرح اس بد قسمت عورت کو جو کسی وجہ سے اپنے شوہر سے محروم ہوچکی ہو،کوڑا کرکٹ نہیں سمجھتا۔
وہ اسے ستی کرنے کا حکم صادر نہیں کرتا۔اسلام اسے منحوس تصور نہیں کرتا،بلکہ اپنے شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد ایک مختصر سی مدت (عدت) سے فارغ ہونے کے بعد اسے اپنی زندگی دوبارہ سنوارنے کا بھر پور حق دیتا ہے۔ سبحان اللہ
گذشتہ بیس سال کے دوران ہماری ہزاروں بہنیں بیوہ ہوگئی ہیں۔ہمارے معاشرے میں ان کے دوبارہ نکاح کی بات بھی معیوب ہے۔انہیں گلنے سڑنے کیلئے اور گھٹ گھٹ کر مرنے کیلئے یاخدانخواستہ معاشرے کا ناسور بننے کیلئے چھوڑدیا جاتا ہے۔کوئی بڑا ہی حاتم طائی بنے تو شائد خیرات کے چند ٹکڑے ان کی جھولی میں ڈال دے۔
محمدعربی کے امتی ہونے کے دعویٰ دار مسلمانوں کو اس نبی رحمت کی ازدواجی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہئے جس نے بیواو ں کی دستگیری میں اپنی پوری زندگی وقف فرمائی۔