محمد علم اللہ
محفلین
بیوی سے خطاب
تمہارے تن کو لباسِ حریر مل نہ سکا
اٹھارہ سال یونہی حسرتوں میں بیت گئے
تمہارے واسطے ساٹن کا سوٹ سِل نہ سکا
بساطِ زر پہ کئی لوگ کھیل جیت گئے
گلہ کرو، نہ کرو، یہ صبر و ضبط محبت بھرا تکلف ہے
مری نظر میں تم اک شکوہءِ مجسم ہو
نہ کوئی آہ نہ وائے، نہ حیف نہ اُف ہے
تم اپنے ذوق کا اک مرثیہ ہو، ماتم ہو
سہیلیوں کے تمہارے قہقہے ستاتے ہیں
پڑوسنوں کے یہی ٹھاٹھ چھیڑ جاتے ہیں
تمہارے دل میں جو اٹھتی ہیں رشک کی لہریں
تو کتنے ذوق ہیں جو پیچ و تاب کھاتے ہیں
یہ سارھیاں، یہ غرارے، یہ سینڈلیں، یہ نقاب
یہ انگیائیں، یہ موباف اور بنیانیں
یہ خوشبوؤں کے بگولے، یہ پوڈروں کے سراب
کہاں سے آتے ہیں، کس مول آپ کیا جانیں
گرہ کٹوں کی عفونت بھری کمائی کے
مظاہرے ہیں جو پوری طرح سے عریاں ہیں
اگر میں چاہوں تو ظلم و ستم کی منڈی میں
ضمیر بیچ کے دولت کما کے لے آؤں
میں کاٹ کاٹ کے افلاس و ضعف کی جیبیں
تمہارے واسطے سکے اڑا کے لے آؤں
حریمِ سادہ دلی میں نقب زنی کر کے
ہزار عیش کے ساماں چرا کے لے آؤں
دماغ پاس ہے اس کو کرائے پر دے کر
میں ایک جنت راحت سجا کے لے آؤں
اگر میں چاہوں تو اک جنبشِ قلم کے طفیل
طلا و سیم کے دریا بہا کے لے آؤں
مگر یہ سوچ تو لو
مرے ضمیر کی جب روح کر گئی پرواز
تو ایک لاش کو بن ٹھن کے کیا دکھاؤ گی
مری خودی جو گنوا دے حیات کے انداز
تو کیسے پیکر لحمی سے دل لگاؤ گی
تم اک ذلیل سے سوداگرِ ہوس کے لیے
پھر احترام کا جذبہ کہاں سے لاؤ گی
وہ حق فروش جو گر جائے اپنی نظروں سے
تم اپنی آنکھوں پہ کیسے اسے بٹھاؤ گی
نعیم صدیقی
تمہارے تن کو لباسِ حریر مل نہ سکا
اٹھارہ سال یونہی حسرتوں میں بیت گئے
تمہارے واسطے ساٹن کا سوٹ سِل نہ سکا
بساطِ زر پہ کئی لوگ کھیل جیت گئے
گلہ کرو، نہ کرو، یہ صبر و ضبط محبت بھرا تکلف ہے
مری نظر میں تم اک شکوہءِ مجسم ہو
نہ کوئی آہ نہ وائے، نہ حیف نہ اُف ہے
تم اپنے ذوق کا اک مرثیہ ہو، ماتم ہو
سہیلیوں کے تمہارے قہقہے ستاتے ہیں
پڑوسنوں کے یہی ٹھاٹھ چھیڑ جاتے ہیں
تمہارے دل میں جو اٹھتی ہیں رشک کی لہریں
تو کتنے ذوق ہیں جو پیچ و تاب کھاتے ہیں
یہ سارھیاں، یہ غرارے، یہ سینڈلیں، یہ نقاب
یہ انگیائیں، یہ موباف اور بنیانیں
یہ خوشبوؤں کے بگولے، یہ پوڈروں کے سراب
کہاں سے آتے ہیں، کس مول آپ کیا جانیں
گرہ کٹوں کی عفونت بھری کمائی کے
مظاہرے ہیں جو پوری طرح سے عریاں ہیں
اگر میں چاہوں تو ظلم و ستم کی منڈی میں
ضمیر بیچ کے دولت کما کے لے آؤں
میں کاٹ کاٹ کے افلاس و ضعف کی جیبیں
تمہارے واسطے سکے اڑا کے لے آؤں
حریمِ سادہ دلی میں نقب زنی کر کے
ہزار عیش کے ساماں چرا کے لے آؤں
دماغ پاس ہے اس کو کرائے پر دے کر
میں ایک جنت راحت سجا کے لے آؤں
اگر میں چاہوں تو اک جنبشِ قلم کے طفیل
طلا و سیم کے دریا بہا کے لے آؤں
مگر یہ سوچ تو لو
مرے ضمیر کی جب روح کر گئی پرواز
تو ایک لاش کو بن ٹھن کے کیا دکھاؤ گی
مری خودی جو گنوا دے حیات کے انداز
تو کیسے پیکر لحمی سے دل لگاؤ گی
تم اک ذلیل سے سوداگرِ ہوس کے لیے
پھر احترام کا جذبہ کہاں سے لاؤ گی
وہ حق فروش جو گر جائے اپنی نظروں سے
تم اپنی آنکھوں پہ کیسے اسے بٹھاؤ گی
نعیم صدیقی