محمد بلال افتخار خان
محفلین
کل میری فیورٹ بھانجی مہر کی سالگرہ تھی..مجھے مہر اپنی بیٹیوں کی طرح بہت عزیز ہے۔۔۔ سالگرہ کا کیک لینے گیا تو ایک صاحب نے ریورس کرتے ہوئے میری گاڑی کو ٹکر مار دی۔۔ اور اچھا خاصہ ڈنٹ ڈال دیا۔۔۔ میں غصے میں باہر نکلا کہ 4 بجے کے اجالے میں اس شخص کو نظر نہیں آیا حالنکہ میں نے وارننگ بھی دی اور لوگوں نے بھی وارننگ دی تھی لیکن اس نے دیہان نہیں دیا۔۔۔ مجھے لگا کہ کوئی ٹین ایجر ٹائپ کا لڑکا ہو گا اس لئے میں مغلظات یکتا گاری سے آترا لیکن سامنے ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھ کر چب ہو گیا لیکن پھر غصے نے ابالا لیا تو تھوری سے اونچی آواز میں دریافت کیا کہ آپ کو نظر نہیں آیا کہ پیچھے گاڑی کھڑی ہے۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ اور بولتا وہ شخص بولا بیٹا میں آپ کے والد کی عمر کا ہوں گا۔۔۔ معاف کرنا جو آپ کا نقصان ہو گیا۔۔۔اُن صاحب کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اُن کو خدشہ ہے کہ میں کوئی بد تمیزی نا کر جائوں ۔۔۔
میرے والدین نے مجھے تعلیم اور آداب سے منور کیا ہے اور میں جن کا مُرید ہوں ان کی تعلیمات بھی عمدہ اخلاق اور کردار ہی ہیں جو معارفت کا ذریعہ بنتی ہیں۔۔
اُس شخص کے الفاظ اور چہرے تاثرات دیکھ کر مجھے شرمندگی محسوس ہونے لگی کہ کیا میں اتنا بُرا ہو گیا ہوں کہ کوئی عمر رسیدہ شخص یہ سوچے کہ کہیں میں کوئی توہین نا کر جائوں۔۔۔۔ اُن کے الفاظ سن کر میرا لحجہ نرم پر گیا۔۔۔ میں نارمل آواز میں بولا کہ میں آپ کو وارننگ دے رہا تھا۔۔۔ لیکن آپ نے وہ بھی نا سنی
وہ شخص بولا غلطی میری ہے میں سوچ میں گم تھا۔۔۔ لیکن آپ پریشان نا ہوں میرا نمبر لے لین آپ کا جو نقصان ہوا اُسے پورا کرنا میری ذمہ داری ہے۔۔۔ میں غلطی مانتا ہوں اور شرمندہ ہوں۔۔۔
اب میں کیا بولتا میں خاموش ہو گیا۔۔۔ میں نے پوچھا آپ ریٹائرڈ فوجی ہیں ،بولا ریٹائرڈ کرنل ہوں ۔۔۔ میں نے یونٹ کا پوچھا کہ کہیں ابو کے جاننے والے نا نکل آئین تو انہوں نے وہ بھی بتا دیا۔۔۔
بولا آپ کا تعلق آرمی سے ہے ۔۔۔میں نے کہا نہیں لیکن جن کی گاڑی ہے وہ ریٹائرڈ آفیسر میں ۔۔۔
کرنل صاحب نے اپنا نمبر دیا اور ہاتھ ملا کر چلے گئے۔۔
گھر آیا تو ابو کو بتایا کہ کیا ہوا۔۔۔ ابو خوش ہوئے بولے نقصان کا دکھ نہیں اللہ نے تمہیں محفوظ رکھا۔۔۔ اور شاید اس چھوٹے نقصان نے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا۔۔۔ اس لئے الحمدو للہ
ابو بولے کہ جب اُس نے کہا کہ میں تمھارے باپ کی عمر کو ہوں تو تمہیں چپ ہو جانا چاہئے تھا۔۔۔
تم نے اچھا کیا جو بد تمیزی نہیں کی اور خود پر کنٹرول رکھا اور اپنے خاندان کی عزت بڑھائی۔۔۔ اُس شخص کی جگہ تمھارا اپنا باپ یعنی میں بھی ہو سکتا تھا۔۔۔ اور یقیناً تمہیں یہ پسند نا آتا کہ کوئی بد تمیزی کرتا۔۔۔
ایک عمر کے بعد انسان تنہا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اس تنہائی میں سوچین اور فکرین اُسے گم رکھتی ہیں۔۔۔ ہمیشہ بزرگوں کو احترام دو کیونکہ وہ زندگی جنگ لڑ چکے ہیں ۔۔۔۔ تم اُن کو آج سپیس دو گے تو کل تمھارے بڑھاپے میں تمہیں سپیس کوئی دے گا۔۔۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے۔۔۔ وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بزرگوں کی عزت نا کرے اور چھوٹون سے شفقت نا کرے۔۔۔