بیچارہ شہزور۔ ص 194-205

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
شاید قصبہ جھریام کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ کسی سفید فام خاتون نے اُس کی حدود میں قدم رکھا تھا۔ جولیانا فنٹر واٹر جدھر سے گزرتی تماشہ بن جاتی ۔۔۔۔ ہر چند کہ فرحانہ جاوید اسے پسند نہیں کرتی تھی۔ لیکن میاں توقیر کے مشورے کے مطابق اس نے اپنی ایک طالبہ جولیا کے حوالے کر دی تھی تاکہ وہ اُس کے لئے مترجم کے فرائض انجام دیتی رہے۔ اس لڑکی کا نام سائرہ تھا۔ شوخ و چنچل اور اسمارٹ تھی۔ زبان رُکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔
دونوں ناشتہ کر کے نکل جاتیں اور لنچ کے وقت تک مقامی عورتوں سے گفتگو کرتی پھرتیں۔ میاں توقیر محمد کی مہمان ہونے کی وجہ سے قصبے کے انتہائی قدامت پسند گھرانوں میں بھی اُن کا گزر ہو گیا تھا۔ ورنہ یہاں ایسے افراد بھی موجود تھے جو بے پردہ خواتین سے اپنی خواتین کا پردہ کراتے تھے۔ قصبے کی مکین عورتوں سے بھی اُن کا پردہ تھا۔
پچھلے دنوں فرحانہ جاوید تھکن کا بہانہ کر کے حویلی سے باہر نہیں نکلی تھی۔ میاں صاحب کو تو اُس نے یہ بتایا تھا کہ اُسے کسی قدر بخار رہنے لگا ہے۔ لیکن طبی امداد لینے پر راضی نہیں ہوئی تھی۔
“نہیں جناب! میں اپنا علاج خود ہی کر لیتی ہوں۔۔۔۔ اگر ڈاکٹروں کے چکر میں پڑئیے تو سلسلہ طویل ہو جاتا ہے۔!“ اُس نے کہا تھا۔
“مگر یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا۔“ میاں صاحب بولے۔
“فکر نہ کیجئے۔۔۔۔ بس تھوڑے آرام سے ٹھیک ہو جاؤں گی۔“
“مجھے تو کل سے پریشانی ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کس بات کی۔۔۔۔!“
“یعنی کہ آپ کی صحت۔!“
“آپ تو پورے قصبے کے لئے پریشان رہتے ہیں۔“ وہ مسکرائی تھی۔
“وہ۔۔۔۔ تو ہے لیکن۔۔۔۔!“
“لیکن کیا۔۔۔۔!“ وہ نیم وا آنکھوں سے انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔
“آپ مہمان ہیں نا۔۔۔۔!“ میاں صاحب گڑبڑا کر جلدی سے بول پڑے۔
فرحانہ نے خاموش ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھی۔ چہرے سے اضمحلال ظاہر ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ “کچھ لوگ بڑے بدنصیب ہوتے ہیں۔“
“جی!“ میاں صاحب چونک پڑے۔
“جی ہاں۔!“ فرحانہ نے آنکھیں کھول دیں اور اُن کی طرف دیکھے بغیر بولی۔
“یہ درست ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے کوئی پریشان ہونے والا بھی نہیں ہوتا۔“
“مم۔۔۔۔ میں نہیں سمجھا۔!“
“کم از کم میرے لئے کوئی پریشان ہونے والا نہیں ہے۔!“
“مجھے بے حد افسوس ہے۔۔۔۔ کیا آپ کے خاندان والے۔۔۔۔!“
“آپ سے زیادہ بُرے دن دیکھے ہیں میں نے۔۔۔۔ آپ کم از کم یہ تو جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔!“
“اوہ۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ افسوس ہے۔!“ میاں صاحب کو ان کے علاوہ اور کوئی الفاظ نہ مل سکے۔
“اس کی ضرورت نہیں۔!“ وہ ہاتھ اٹھا کر بولی۔ “جذبات سے خالی الفاظ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔!“
“اوہ“ میاں صاحب نروس ہو گئے تھے۔
کچھ دیر خاموشی رہی تھی۔ پھر فرحانہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ “مجھے شرمندگی ہے! میں جذباتی ہو گئی تھی۔ مجھے معاف کر دیجئے! آپ بہت ہمدرد اور نیک آدمی ہیں۔!“
“مجھے شرمندہ نہ کیجئے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“حقیقت عرض کر رہی ہوں۔۔۔۔ نہ جانے کیوں۔۔۔۔ آپ کی موجودگی میں۔!“ وہ جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہو گئی۔ میاں صاحب استفہامیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے رہے۔
“میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں،!“ وہ تھوڑی دیر بعد اُلجھ کر بولی۔
“بے تکلفی سے کہہ دیجئے۔۔۔۔!“
“اس احساس کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہوں۔!“
میاں صاحب کی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات پائے جاتے تھے۔۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے بزبانِ خاموشی گھگھیا رہے ہوں۔ “تمہیں میری قسم ہے کہہ دو۔۔۔۔ جو کچھ کہنا چاہتی ہو۔!“
لیکن فرحانہ نے پھر خاموش ہو کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ میاں صاحب کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب انہیں کیا کہنا چاہئیے! کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی تھا۔
بدقت ہکلائے۔۔۔۔ “در۔۔۔۔دراصل۔۔۔۔میں یہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔کہ شائد میں کچھ مدد کر سکوں۔۔۔۔مطلب یہ کہ آپ کے افرادِ خانہ کو ڈھونڈنے میں مدد دے سکوں۔“
“افرادِ خاندان۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔کیا میں نے ابھی یہ نہیں کہا تھا۔۔۔۔کم از کم آپ یہ تو جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں۔!“
“مم۔۔۔۔میں نہیں سمجھا۔!“
“کریم پور کے اُس تباہ کُن زلزلے کے بارے میں تو آپ نے سُنا ہی ہو گا جس نے پورے شہر کو کھنڈر بنا دیا تھا۔!“
“جی ہاں! میرے بچپن کی بات ہے۔“
“وہیں۔۔۔۔ایک کھنڈر میں روتی پائی گئی تھی۔۔۔۔یتیم خانے کے ریکارڈ کے مطابق میری عمر دو سال سے زیادہ نہیں تھی۔۔۔۔کوئی نہیں جانتا کہ میرے والدین کون تھے۔۔۔۔اُس کھنڈر کے آس پاس کوئی ایسا فرد نہیں مل سکا تھا جو میری شناخت کر سکتا۔!“
میاں صاحب کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔ فرحانہ اُن کیطرف نہیں دیکھ رہی تھی۔ انھوں نے موقع غنیمت جان کر جلدی سے اپنی آنکھیں خشک کیں اور بھرائی ہوئی آواز میں بولے۔ “آپ کے حالات سُن کر گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ آپ کے غم کے سامنے میرا غم تو کچھ بھی نہیں ہے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحانہ مزید کچھ کہنے والی تھی کہ لڑکیوں کے ہنسنے کی آواز آئی۔ شائد وہ سب واپس آ گئی تھیں۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ لیکن آنے والیاں صرف جولیانا اور سائرہ تھیں۔
“ہلو۔“ جولیا میاں صاحب سے مخاطب ہو کر چہکی۔
وہ اٹھ گئے تھے اور انہوں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کا استقبال کیا تھا۔
“تمہارا کیا حال ہے۔!“ جولیا نے فرحانہ سے پوچھا۔
“تھکن اور ہلکا سا ٹمپریچر۔!“
“مجھے تو یہاں کی ہوا بے حد راس آئی ہے۔!“ جولیا نے میاں صاحب کی طرف دیکھ کر کہا۔ “جناب! آپ جنت میں رہتے ہیں۔!“
“شکریہ۔“
جولیا وہیں بیٹھ گئی تھی اور سائرہ دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی۔
“آج کتنا کام کیا آپ نے۔“ میاں صاحب نے جولیا سے پوچھا۔
“کام۔۔۔۔بھلا اتنے پیارے لوگوں میں کام ہو سکتا ہے۔ سارا وقت تو باتوں میں گزر جاتا ہے۔ کتنی اچھی عورتیں ہیں۔ کتنی پُرخلوص۔ کاش! میں آپ کی زبان جانتی ہوتی اور اُن سے براہِ راست گفتگو کر سکتی۔!“
“میں تو ابھی تک یہی نہیں سمجھ سکی کہ تم کرنا کیا چاہتی ہو۔!“ فرحانہ بولی۔
“میں خود بھی نہیں جانتی کہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں۔!“
“کیا بات ہوئی۔“
“آخرمیں کیا لکھوں گی۔ کس طرح لکھوں گی۔!“
“یہ تو پہلے ہی سوچنا چاہئیے تھا۔!“
“میں نااہلی کی بات نہیں کر رہی۔۔۔۔! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔۔۔۔رہن سہن اور رسم و رواج ہر لکھوں۔۔۔۔یا آدمی کی معصومیت کو مرکزی خیال بنا کر کوئی کہانی لکھ ڈالوں۔ میں آدمی کے مستقبل سے مایوس ہو گئی تھی۔ لیکن یہاں کی اُن عورتوں سے مل کر بڑی ڈھارس بندھی ہے جن پر ابھی تک باہر کے نظریات حملہ آور نہیں ہوئے ہیں۔“
فرحانہ نے بُرا سا منہ بنایا تھا لیکن کچھ بولی نہیں تھی۔ میاں صاحب کا چہرہ دمکنے لگا تھا۔ قصبے کی عورتوں کی تعریف سُن کر۔۔۔۔وہ بھی ایک غیر ملکی عورت کی زبانی جو خود ان کے خیال کے مطابق روشنی سے تاریکی میں چلی آئی تھی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تو آپ کا خیال ہے کہ یہ عورتیں سُوجھ بُوجھ بھی رکھتی ہیں۔“ انہوں نے پُرمسرت لہجے میں سوال کیا۔
“صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہے ان کے پاس! البتہ وہ اُس کا تجزیہ نہیں کر سکتیں۔ ہم تجزیہ کر سکتے ہیں لیکن خود کو اس کی افادیت سے محروم کر چکے ہیں۔“
“آپ بڑی عجیب باتیں کر رہی ہیں۔!“
“آج کے آدمی کے پاس باتوں کے علاوہ اور رہا ہی کیا ہے۔!“ فرحانہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
“تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔“ جولیا بولی۔
“لیکن بات تھی آپ کے کچھ لکھنے یا نہ لکھنے کی،!“ میاں صاحب نے کہا۔
“بہت سوچ سمجھ کر قلم اٹھانا پڑے گا۔!“
“بہرحال آپ لکھیں گی۔!“
“ظاہر ہے۔!“
“اتنی باتیں تو محض باتوں کی خاطر ہوئیں تھیں۔!“ فرحانہ نے چٹکی لی۔
“مجھے اس سے انکار نہیں ہے مس جاوید۔“ جولیانا ہنس کر بولی۔ “میاں توقیر باتیں سنتے ہوئے بہت اچھے لگتے ہیں۔“
میاں توقیر کے کانوں کی لوئیں سُرخ ہو گئیں اور وہ چھت کی طرف دیکھنے لگے۔
“میرا خیال ہے کہ اب لنچ کر لینا چاہئیے۔!“ انھوں نے کسی قدر ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا۔
“ابھی دوسری لڑکیاں نہیں آئیں۔!“
“اوہ۔۔۔۔یہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔“ وہ جلدی سے بولے۔ “لیکن آپ نے ناشتے میں صرف ایک کپ چائے پی تھی۔!“
ذرا ہی دیر میں وہ بھی پہنچ گئی تھیں۔۔۔۔اور لنچ کے لئے میز لگا دی گئی تھی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کھانے کے دوران صرف لڑکیاں آپس میں گفتگو کرتی رہی تھیں۔ یہ تینوں خاموشی سے کھاتے رہے تھے۔
کھانے کے بعد میاں صاحب فرحانہ کے ساتھ اُسی کمرے میں واپس آ گئے جہاں کچھ دیر قبل بیٹھے رہے تھے۔ جولیا اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ وہ جب سے یہاں آئی تھی لنچ کے بعد قیلولے کی عادی ہو گئی تھی۔ پتا نہیں آب و ہوا کا اثر تھا یا کوئی اور وجہ تھی کہ کھانے کے بعد ہی پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگتی تھیں۔
“اب آپ بھی آرام کیجئے۔“ میاں صاحب نے فرحانہ سے کہا تھا۔
“یعنی آپ جانا چاہتے ہیں۔!“
“یہ بات نہیں۔۔۔۔میں تو آپ کے آرام۔۔۔!“
“میری فکر نہ کیجئے۔“ وہ بات کاٹ کر بولی۔ “اب میری واپسی میں صرف تین دن رہ گئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وقت آپ کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔“
میاں صاحب کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی تھی۔ وہ کہتی رہی۔ “جولیا ٹھیک کہہ رہی تھی کہ یہاں پہنچ کر اس کے نظریات میں تبدیلی ہوئی ہے۔ میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔“
“میں نہیں سمجھا۔“
“مردوں سے مجھے نفرت تھی۔۔۔۔لیکن اب کم از کم ساری دنیا میں ایک مرد ایسا ضرور ہے جس سے میں نفرت نہیں کر سکتی۔“
میاں صاحب ہونقوں کی طرح اُس کی طرف دیکھتے رہے۔
“ایسا مرد جس کے لئے میں اپنی جان تک دے سکتی ہوں۔“
“اوہ۔۔۔۔کک۔۔۔۔کون ہے وہ۔!“ میاں صاحب ہکلائے۔
“یہ آپ پوچھ رہے ہیں۔!“
“جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔!“
“میں نہیں بتاتی۔۔۔۔!“ وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی مسکرائی۔
میاں صاحب کی عجیب کیفیت تھی۔ چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور پلکیں جھکی پڑ رہی تھیں۔ کچھ کہنا چاہتے تھے۔ لیکن زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میری طرف دیکھئے۔!“
میاں صاحب نے کسی شرمیلی لڑکی کے سے انداز میں پلکیں اٹھائی تھیں۔
“کیا میں آپ کے دل میں ذرا سی بھی جگہ بنا سکی ہوں۔!“
“مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔!“ وہ صرف ہکلا کر رہ گئے۔
“میں سمجھ گئی۔!“
میاں صاحب نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔
“آپ کو میری یہ بے تکلفی پسند نہیں آئی۔“
“جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں۔!“
“اوہ۔۔۔۔تو اسکا یہ مطلب ہوا کہ آپ بھی میرے بارے میں سوچتے رہے ہیں۔!“
نہ جانے کیوں میاں صاحب خود کو اچانک چغد محسوس کرنے لگے تھے۔ عجیب سی ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو کر انہوں نے بالآخر ہاتھ پیر ڈال دیئے۔ یعنی اُن کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ پڑا۔
“ارے۔۔۔۔ارے۔۔۔۔یہ کیا۔۔۔۔!“ فرحانہ اٹھ کر ان کی طرف جھپٹی تھی۔
“یہ کیا ہوا۔!“
میاں صاحب دونوں ہاتھوں سے منہ چھپائے سسکیوں اور ہچکیوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
“خدا کے لئے چُپ ہو جائیے۔۔۔۔یہ آپ نے کیا شروع کر دیا۔۔۔۔کچھ بتائیے بھی تو۔۔۔۔!“
میاں صاحب نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی لیکن آواز ایک طویل ہچکی کی صورت اختیار کر گئی۔
فرحانہ سچ مچ بوکھلا گئی تھی۔ اُس نے اٹھ کر دروازہ بند کر دیا تھا اور اب اُن کے قریب ہی کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں میاں صاحب کے رونے کی آواز دوسروں تک نہ پہنچ جائے۔
پھر تو اُس نے انہیں وہیں چھوڑا تھا اور خود دروازہ کھول کر باہر نکل آئی تھی۔ یہاں کئی لڑکیاں کھڑی نظر آئیں۔ شاید میاں صاحب کی طویل ہچکی اُن کے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“پپ۔۔۔۔پتہ نہیں کیا بات ہے؟“ وہ احمقانہ انداز میں بولی۔
“کیا ہوا۔۔۔۔مس۔۔۔۔!“
“شش۔۔۔۔شائد۔۔۔۔انہیں اچانک اپنے خاندان والے یاد آ گئے ہیں۔!“
ہچکیوں اور سسکیوں کی آوازیں کھلے ہوئے دروازے سے اُن تک برابر پہنچ رہی تھیں۔
پھر جولیا بھی دکھائی دی۔ اور فرحانہ بالکل ہی بدحواس ہو گئی۔
“کیا ہوا۔۔۔۔کیا بات ہے۔!“ جولیا نے پوچھا۔
“بب۔۔۔۔بس کیا بتاؤں۔!“ فرحانہ اٹک اٹک کر بولی۔ “خود ہی اپنے خاندان والوں کا ذکر چھیرا تھا اور خود ہی رونے لگے۔“
“اوہ۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔تو اب یہاں سے ہٹ جاؤ۔ انہیں تنہا چھوڑ دو۔ کوئی بھی اُن کے سامنے نہ آئے۔ ورنہ انہیں شرمندگی ہو گی۔“
پھر جولیا ان سبھوں کو اپنے کمرے میں سمیٹ لائی تھی۔
قابلِ رحم حالت ہے۔!“ ایک لڑکی بولی۔
“ٹریجڈی ہی ایسی ہوئی تھی۔!“
“لیکن مجھے اس پر حیرت ہے کہ اُس وبا کے سلسلے میں حکومت نے کچھ نہیں کیا۔“ جولیا نے کہا۔
“واقعی حیرت کی بات ہے! اس پر باقاعدہ طبی بورڈ بیٹھنا چاہئیے تھا جو اسباب کا پتا لگاتا۔“ فرحانہ نے کہا۔
“بہرحال وہ ایک بے حد دُکھی آدمی ہیں۔!“ جولیا بولی۔ “اضطراری طور پر رو پڑے ہونگے۔ بعد میں شرمندہ ہوں گے۔ لہٰذا اُن سے اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھا جائے۔!“
“ظاہر ہے کہ یہی ہو گا۔“ فرحانہ نے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تنویر کی حالت بہتر نہیں تھی۔ اُسے سائیکو مینشن ہی کے میڈیکل وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ اور عمران کے محکمے کے بہترین معالج اُس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران نے اُسے جائے واردات سے ہٹا دینے میں بڑی پُھرتی دکھائی تھی کیونکہ پولیس سے مڈبھیڑ نہیں چاہتا تھا۔ پولیس بعد میں پہنچی تھی اور اُسے وہاں دھماکوں کے اثرات اور خون کے دھبوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا تھا۔
صوفی عبدالشکور صاف نکل گیا تھا۔۔۔۔اب تو عمران سوچ رہا تھا کہ اُس نے دیدہ دانستہ انہیں تعاقب کی دعوت دی تھی اور مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہوا صاف بچ نکلا تھا۔
اپنے خیال کی تصدیق کے لئے اُس نے فون پر تھیلما سے رابطہ قائم کرنا چاہا لیکن دوسری طرف صرف گھنٹی بجتی رہی۔ کسی نے دیر تک ریسیور نہ اٹھایا۔
پھر گاڑی کے رجسٹریشن نمبر کے ذریعے مالک کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مگر نتیجہ صفر۔ نمبر جعلی ثابت ہوئے۔ اور اُس میک کی سفید گاڑیاں شہر میں لا تعداد رہی ہوں گی۔
اُس نے ایک بار پھر تھیلما کو فون کیا۔ دوسری طرف سے رابطہ قائم ہونے کی آواز کے ساتھ ایک مردانہ آواز سنائی دی تھی۔ اور یہ نادر سلمانی کے علاوہ اور کسی کی آواز نہیں ہو سکتی تھی۔
مصلحتاً عمران کسی امریکن عورت کے سے لہجے اور آواز میں بولا تھا۔ “تھیلما سے ملاؤ۔“
“کون ہے۔۔۔۔؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
“روزا۔!“
“میں کسی روزا کو نہیں جانتا۔!“
“کیا تمہارا جاننا ضروری ہے۔ تھیلما کو بلاؤ۔“ عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔
“ہاں، میرا جاننا ضروری ہے۔!“
“تم آخر ہو کون؟“
“اُس کا شوہر۔!“
“اوہ مسٹر سلمانی۔۔۔۔ہاں! ہم کبھی نہیں ملے۔ تھیلما تمہارا ذکر بڑے پیار سے کرتی ہے۔ لیکن کبھی ملوایا نہیں۔!“
“اچھا۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔وہ بیمار ہے۔۔۔۔سو رہی ہے۔!“
عمران نے طویل سانس لی اور مزید کچھ کہے بغیر سلسلہ منقطع کر دیا۔ پھر بلیک زیرو کے نمبر ڈائیل کئے تھے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ہیلو۔“ بلیک زیرو کی آواز آئی۔
“کیا خبر ہے۔!“
“نگرانی بدستور جاری ہے۔ علامہ آج صبح 9 بجے صرف ایک گھنٹے کے لئے یونی ورسٹی گیا تھا۔ دس بج کر پچیس منٹ پر گھر واپس آ گیا تھا۔ اُس کے بعد سے ابھی تک دوبارہ باہر نہیں نکلا۔!“
“یعنی گھر ہی میں موجود ہے۔۔۔۔!“
“جی ہاں۔۔۔۔!“
“کیا ثبوت ہے؟“
“میں نہیں سمجھا جناب۔!“
“گھر میں موجودگی کا ثبوت مانگ رہا ہوں۔“
“باہر نہیں نکلا۔!“
“ہو سکتا ہے اس طرح نکلا ہو کہ تمہیں علم ہی نہ ہو سکا ہو۔“
“میک اپ میں وہ اپنی جسامت نہیں چھپا سکتا۔!“
“کیا عمارت کے عقبی حصے کی نگرانی بھی کرا رہے ہو؟“
“جی ہاں ، نکاسی کے ہر دروازے کی۔!“
“اس کے باوجود تم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ یونی ورسٹی سے واپسی کے بعد سے گھر ہی پر رہا ہو۔“
“کیا نگرانی کرنے والوں کو وہ کسی کھڑکی یا دروازے سے نظر آتا رہا ہے۔۔۔۔یا انہوں نے اسے کمپاؤنڈ میں ٹہلتے دیکھا تھا۔“
“تفصیل کا علم مجھے نہیں ہے۔!“
“معلوم کر کے مجھے مطلع کرو۔“
“بہت بہتر جناب۔“
ریسیور رکھا ہی تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
“کم اِن۔“ عمران نے اونچی آواز میں کہا۔
آپریشن روم کا ایک اسسٹنٹ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جسے میز پر رکھ کر خاموشی سے واپس چلا گیا۔ عمران نے لفافہ اٹھایا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کوڈ ورڈز میں جولیا کا پیغام تھا۔ جسے ڈی کوڈ کرنے بیٹھ گیا۔
“حالات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مرد نے عورت کے سامنے رونا شروع کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اُسے بُری طرح الجھا چکی ہے۔!“
“اتنا مختصر سا پیغام۔“ عمران پُر تفکر انداز میں بڑبڑایا تھا۔ “مرد نے عورت کے سامنے رونا شروع کر دیا ہے۔ کیا بات ہوئی۔۔۔۔وہ تو پیدا ہوتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے عورت کے سامنے۔۔۔۔ہشت۔۔۔۔!“
فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔اور اُس نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔ بلیک زیرو کی کال تھی اور وہ کہہ رہا تھا۔ “نہیں جناب۔۔۔۔بس وہ گھر کے اندر گیا تھا۔۔۔۔پھر اب تک واپسی نہیں ہوئی۔ کسی کھڑکی ، دروازے سے بھی نہیں دکھائی دیا۔ عمارت کی زیادہ تر کھڑکیاں روشن ہیں۔۔۔۔اور آج کوئی اُس سے ملنے بھی نہیں آیا۔!“
“نگرانی جاری رکھو۔!“
“بہت بہتر جناب۔!“
ریسیور رکھ ہی رہا تھا کہ اُسے علامہ کا “باورچی“ واجد یاد آیا۔ وہ بھی سائیکو مینشن ہی کے کمرے میں قید تھا۔
واجد آخر واجد کی اصل حیثیت کیا تھی۔ اُس کے اپنے بیان کے مطابق وہ شہزاد کا ملازم تھا۔ اور شہزاد ہی نے اُسے علامہ کے باورچی کی حیثیت سے کام کرنے کا حکم دیا تھا۔ گویا وہ حقیقتاً شہزاد ہی کا ملازم تھا۔ اور بظاہر اس تقرر کا مقصد یہی تھا کہ واجد علامہ پر نظر رکھ سکے۔ خود واجد نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا۔ دوسری طرف شہزاد علامہ کے اُن شاگردوں کے سلسلے میں اُس سے سودا کرنا چاہتا تھا جو اُس کی قید میں تھے۔ اور پھر وہ مار ڈالا گیا تھا۔ آخر کیوں؟ کیا اس لئے کہ اُس نے کوئی غلط قدم اٹھایا تھا؟ پھر اگر وہ شہزور کی گولی کا نشانہ بنا تھا تو شہزور اور علامہ کے شاگردوں کے درمیان کسی قسم کا تعلق ہو سکتا ہے؟ اور یہ تعلق براہِ راست ہے یا اس میں علامہ کے واسطے کو بھی دخل ہے؟ یاسمین کی موت کا ذمہ دار علامہ تھا یا شہزور۔۔۔۔؟
وہ سوچتا رہا۔ پھر دفعتاً اٹھا تھا اور کمرے سے نکل آیا تھا۔ پہلے تنویر کی خیریت دریافت کی اور۔۔۔



۔۔۔اختتام۔۔۔۔۔​
ص 194-205​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top