“چوتھی اُس سے نہیں ہو سکے گی اور پانچویں کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کہیں ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ بیٹھے۔“
“لیکن۔۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔۔وہ اوپر پہنچ گئی ہے۔“
لڑکی نے چھلانگ لگائی لیکن اس بار تین قلابازیاں بھی نہ ہو سکیں۔ دو ہی کر پائی تھی۔!“
دفعتاً کسی جانب سے ایک سفید فام غیر ملکی ان کے قریب آ دھمکا اور ظفر الملک سے بولا۔ “یہ تم نے کیا شروع کر دیا ہے۔!“
“کیا اس پر کوئی پابندی ہے۔“ ظفرالملک کا لہجہ کسی قدر تیکھا تھا۔
“اس پر رحم کرو۔۔۔۔اور یہاں سے چلے جاؤ۔!“
“بڑی عجیب فرمائش کی ہے تم نے۔!“
“میں استدعا کرتا ہوں۔!“
“ہم جا رہے ہیں۔!“ جیمسن اٹھتا ہوا بولا۔
ظفر الملک نے اُسے گھور کر دیکھا تھا لیکن پھر اُسے بھی اٹھنا ہی پڑا تھا۔ جیمسن اس طرح نہ اٹھ جاتا تو شائد اس اجنبی کی بکواس پر توجہ تک نہ دیتا۔
وہ تیزی سے اُس طرف چل پڑے تھے۔ جہاں اُنہوں نے اپنے سوٹ رکھے تھے۔ جیمسن تھا تو پیراکی کے لباس میں لیکن اُس نے پانی میں قدم تک نہیں رکھا تھا۔ اُس کا قول تھا۔ “پانی اتنا ہی ہونا چاہئیے کہ ڈاڑھی نہ بھیگنے پائے۔“ ڈاڑھی کے بھیگ جانے کو پانی سر سے گزر جانے کے مترادف سمجھتا تھا۔
“اس گدھے پن کے مظاہرے کا مطلب۔!“ ظفر الملک نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
“اور نہیں تو کیا۔ پانی میں کودنے کے سلسلے میں اُس سے جھگڑا کرتے۔ کتنی غیر فلسفیانہ بات ہوتی یور ہائی نس۔!“
“کیا مطلب۔۔۔۔!“
“آپ خود سوچئے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ قلابازیوں پر جھگڑا۔۔۔۔!“
“بس خاموش رہو۔۔۔۔!“
“وہ تو رہتا ہی ہوں۔ لیکن آپ بولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آج کل میں ڈیا جینز کو پڑھ۔۔۔۔
اختتام
ص 206-215