بیچارہ شہزور۔ ص 216-225

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
“وہ تو رہتا ہی ہوں۔ لیکن آپ بولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آج کل میں ڈیا جینز کو پڑھ رہا ہوں۔!“
“صورت سے بھی کباڑی ہی لگنے لگے ہو۔!“
“لینگوئج پلیز۔۔۔۔!“
“ساری تفریح برباد کرا دی۔!“
“آپ ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ کس کام کے لئے نکلے تھے۔“
“تم نے کام میں تو خلل ڈالا ہے۔“ ظفرالملک بھنا کر بولا۔
“میں نہیں سمجھا۔“
“یہ وہی عورت ہے جس سے جان پہچان کرنے کا حکم ملا تھا۔!“
“یعنی ڈورا کرسٹی۔۔۔۔آسٹریلین بوتیک والی۔“
“ہاں وہی ہے۔۔۔۔!“
“تو حضورِ والا جان پہچان پیدا کر رہے تھے یا اُسے اپنا دشمن جانی بنا رہے تھے،“
“خاموش رہو۔“
“ٹھہر جاؤ۔۔۔۔تم دونوں پلیز۔۔۔۔“ عقب سے آواز آئی- وہ رُک گئے۔
وہی سفید فام لمنبے لمبے ڈگ بھرتا اُن کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔ جس نے انہیں سوئیمنگ پول سے ہٹ جانے کا مشورہ دیا تھا۔
“مجھے بے حد افسوس ہے۔!“ وہ قریب پہنچ کر بولا۔
“کوئی بات نہیں۔“ جیمسن نے خوش اخلاقی ظاہر کرنے کے لئے دانت نکالے۔
“دراصل وہ بہت ضدی ہے۔! اگر آپ لوگ وہاں موجود رہتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ خود کو نقصان پہنچا بیٹھتی۔“
“ضدی عورتیں مجھے پسند ہیں۔“ ظفرالملک بولا۔ “کیا وہ آپ کی مسز ہیں۔!“
“میرا نام مائیکل ہے۔ لیکن وہ میری بیوی نہیں ہے۔ بزنس پارٹنر سمجھ لو۔ ہم دونوں ایک بوتیک چلا رہے ہیں۔ آسٹریلین بوتیک۔ شائد نام سنا ہو۔ میں جلد کا سپیشلسٹ ہوں۔ جلد کی رنگت بدل دیتا ہوں۔ شرطیہ طور پر۔۔۔۔انہی خصوصیات کی بناء پر ہماری بوتیک نے شہرت پائی ہے۔!“
“بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔“ جیمسن نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میرا نام جیمسن ہے اور یہ میرے باس پرنس ظفر الملک۔!“
“پرنس۔۔۔۔!“ مائیکل کے لہجے میں حیرت تھی۔
“ہاں! گریٹ مغل کی اولاد ہیں۔!“
“اوہ۔۔۔۔!“ وہ پرجوش انداز میں بولا۔ “یہی تو میں سوچ رہا تھا کہ ناک کی بناوٹ۔۔۔۔اور آنکھوں کی کشید۔۔۔۔خدا کی پناہ۔۔۔۔گریٹ مغل کی اولاد۔۔۔۔بڑی خوشی ہوئی جناب یور ہائی نس۔“
اُس نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا تھا۔
ظفر الملک کو جیمسن کی اس حرکت پر غصہ آ گیا۔ اس طرح تعارف کرانے کی کیا ضرورت تھی۔ گریٹ مغل کی اولاد لنگوٹی لگائے کھڑی ہے۔ لاحول ولا قوۃ۔!
“میں بے حد شرمندہ ہوں پرنس! اُسے معلوم ہو گا تو اُس کا بھی یہی حال ہو گا، وہ تو قدیم نسلوں کی شیدائی ہے۔ واہ گریٹ مغل۔“
“اب کیا فائدہ ان باتوں سے۔ ہماری حکومت تو ختم ہو چکی۔!“ ظفر الملک زبردستی مسکرا کر بولا۔
“اوہ۔۔۔۔یہی تو بات ہے۔ گریٹ مغل کی حکومت اب بھی دلوں پر باقی ہے۔۔۔۔کبھی ہمارے بوتیک پر تشریف لائیے۔۔۔۔آہا۔۔۔۔یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ ڈورا آج کل مغل طرزِ آرائش پر ریسرچ کر رہی ہے۔۔۔۔!“
“یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔“ جیمسن جلدی سے بولا۔ “میں انہیں مدد دے سکتا ہوں۔۔۔۔طرزِ آرائش کی تو چھوڑئیے۔۔۔۔آپ کا سبجیکٹ بھی میری نظر میں ہے۔۔۔۔میں آپ کو بتاؤں گا کہ مغل شہزادیاں کس طرح اپنی جلد کی حفاظت کرتی تھیں۔“
“بہت بہت شکریہ۔۔۔۔کیوں نہ ہم اسی وقت مل بیٹھیں۔“ مائیکل نے کہا۔
“ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔“ ظفر الملک نے کہا۔ “سوئیمنگ پول ہی پر ہماری میز مخصوص ہے۔ میز نمبر گیارہ۔۔۔۔آپ دونوں وہاں ہمارا انتظار کر سکتے ہیں۔ ہم لباس تبدیل کر کے پہنچ جائیں گے۔“
“ایسے بھی کیا حرج ہے۔!“ جیمسن بول پڑا۔
“تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں پانی ہی میں اس طرح رہ سکتا ہوں۔۔۔۔!“ ظفر نے غصیلے لہجے میں کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“معافی چاہتا ہوں یور ہائی نس۔!“ جیمسن گڑگڑایا۔
مائیکل سوئیمنگ پول کی طرف پلٹ گیا تھا۔ اور وہ اپنے لباس پہننے کے لئے چل پڑے تھے۔
“کیسی رہی۔۔۔۔!“ جیمسن بولا۔
“ٹھیک ہی رہی۔۔۔۔لیکن تم خود کو قابو میں رکھو گے۔!“
“مجھے آپ پر نظر رکھنی پڑے گی کہ کہیں آپ بے قابو نہ ہو جائیں۔!“
“مت بکواس کرو۔!“
“آخر چکر کیا ہے۔!“
“فی الحال اس سے رسم و راہ بڑھانے کی ہدایت ملی ہے۔“
“مقصد۔۔۔۔!“
“میں نہیں جانتا۔۔۔۔اور نہ جاننے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔“
“ہز میجسٹی کہاں تشریف رکھتے ہیں۔“ جیمسن نے پوچھا۔ وہ عمران کو یور میجسٹی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔
“ہدایت میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے فلیٹ کی طرف رخ بھی نہ کیا جائے۔“
“پتا نہیں یہ سرکاری معاملہ ہے یا خالص رومانی۔!“
“آخر ہز میجسٹی بھی تو گوشت پوست ہی رکھتے ہیں۔!“
“اور میرے توسط عشق کرنا چاہتے ہیں۔!“ ظفر الملک بھنا کر بولا۔
“کیا مضائقہ ہے۔۔۔۔آدمی ہی آدمی کے کام آتا ہے۔“
ظفر الملک کچھ نہ بولا۔ جیمسن بسا اوقات “بکواس برائے بکواس“ شروع کر دیتا تھا۔ یہ محسوس کر لینے کے بعد ظفر الملک خاموش ہی رہنے میں عافیت سمجھتا تھا۔۔۔۔ورنہ اس کی زبان کولہو کے بیل کی طرح چلتی ہی رہتی تھی۔
سوٹ پہن کر وہ پھر سوئیمنگ پول کی طرف روانہ ہو گئے۔ اور پھر انہوں نے ان دونوں کو دور ہی سے دیکھ لیا جو ان کی مخصوص کرائی ہوئی میز کے گرد بیٹھے تھے۔
“ہم نے تو سوٹ پہن لئے لیکن وہ دونوں ابھی تک غیر مہذب ہی نظر آ رہے ہیں۔“ جیمسن نے کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیا فرق پڑتا ہے۔“ ظفر بولا۔
“میرے لئے تو پڑتا ہے فرق کیونکہ میں گریٹ مغل کی اولاد نہیں ہوں۔“
“تم نے بیہودگی کر کے اچھا نہیں کیا۔“
“یہی بیہودگی کام آئی ہے۔ ورنہ اتنی جلدی مل بیٹھنا نصیب نہ ہوتا۔ آپ کی قلابازیوں نے تو اُسے متنفر ہی کر دیا تھا۔“
قریب پہنچے تو دونوں نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا تھا اور ڈورا چہک کر بولی تھی۔ “میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔!“
“میرا سیکریٹری زبان دراز ہے۔“ ظفرالملک نے کہا۔
“آپ کی مہارت کا لوہا پہلے ہی مان چکی تھی۔“ ڈورا نے کہا۔
“بیٹھے۔۔۔۔بیٹھے۔۔۔۔!“ ظفر ہاتھ ہلا کر بولا۔ “آپ کا اسٹائل مجھے بہت پسند آیا تھا۔ اور میں چاہتا تھا کہ آپ ڈائیو کرتی رہیں۔۔۔۔اسی لئے وہ حرکت کی تھی۔۔۔۔ورنہ میں اسے چھچھورا پن سمجھتا ہوں۔!“
“مجھے شرمندہ نہ کیجئے۔“
“کیا پیئیں گے آپ لوگ۔“
“فی الحال کچھ بھی نہیں۔“ مائیکل نے کہا۔ “ہم صرف باتیں کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ڈورا یہ مسٹر جیمسن طرزِ آرائش پر تحقیق کے سلسلے میں تمہیں مدد دے سکیں گے۔!“
“یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔!“
“اور ان کے پاس وہ طریقے بھی محفوظ ہیں جنہیں بروئے کار لا کر مغل شہزادیاں اپنی جلد کو ملائم اور خوبصورت رکھتی تھیں۔!“
“بے شمار نسخے مجھے زبانی یاد ہیں۔“ جیمسن ڈاڑھی کھجاتا ہوا بولا۔
“کیا آج آپ کا بوتیک بند ہے۔“ ظفر الملک نے پوچھا۔
“ہفتے میں صرف پانچ دن کام کرتے ہیں۔۔۔۔دو دن کی چھٹی۔۔۔۔کل بھی بند رہے گا بوتیک۔۔۔۔“ مائیکل نے جواب دیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ٹھیک اُسی وقت ایک ویٹر نے اُن کے قریب آ کر ظفر الملک سے کہا تھا۔ “آپ کی کال ہے جناب۔!“
“اوہ۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔معاف کیجئے گا۔۔۔۔میں ابھی آیا۔“ ظفر اٹھتا ہوا بولا۔ اس ہوٹل میں وہ جانی پہچانی شخصیت تھا۔
ڈائیننگ ہال کے کاؤنٹر پر پہنچ کر اُس نے کال ریسیو کی تھی۔ دوسری طرف سے عمران کی آواز آئی۔ “بہت تیزی دکھا رہے ہو۔“
“آپ کہاں ہیں۔۔۔۔!“
“تمہارے آس پاس ہی۔۔۔۔اپنے جیمبو جھینگے کو قابو میں رکھنا۔۔۔۔!“
“اس کے بعد کیا کرنا ہے۔!“
“بتا دیا جائے گا۔ اس وقت بات کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ایک آدمی تم دونوں میں دلچسپی لے رہا ہے۔!“
“میں نہیں سمجھا۔!“
“لڑکی کے ساتھی نے جیسے ہی تمہیں روک کر گفتگو شروع کی تھی۔۔۔۔وہ تمہاری طرف متوجہ ہو گیا تھا۔۔۔۔اور اب باقاعدہ طور پر تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔!“
“کون ہے۔۔۔۔؟“
“اس کی فکر نہ کرو۔۔۔۔اُسے میں دیکھ لوں گا۔ بس تم اس کا خیال رکھنا کہ آج کی ملاقات ہوٹل ہی تک محدود رہے۔!“
“میں نہیں سمجھا۔!“
“کیا اسی وقت اتنے نا سمجھ ہو گئے ہو یا پہلے بھی تھے! احمق آدمی میں یہ کہہ رہا تھا کہ ان کے ساتھ کہیں جانا مت۔!“
“بہت بہتر۔۔۔۔!“
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔۔۔۔اور وہ ریسیور رکھ کر گدی سہلاتا ہوا پھر سوئیمنگ پول کی طرف چل پڑا۔
یہاں جیمسن نے جلد کو ملائم رکھنے والے نسخے چھیڑ رکھے تھے۔ کہہ رہا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اونٹ کی مینگنی کو جلا کر الکلی میں تبدیل کر لیجئے۔۔۔۔اور پھر اُسے خالص شہد میں ملا لیجئے۔پلاسٹر تیار ہو گیا۔ رات کو سوتے وقت چہرے پر لیپ کیجئے اور صبح اٹھ کر بھیڑ کے دودھ سے منہ دھو ڈالئے۔!“
“یہ سب کچھ تو آسان ہے۔۔۔۔لیکن بھیڑ کا دودھ۔۔۔۔!“ ڈورا نے احتجاج کیا۔
“مغل شہزادیوں کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔۔۔۔میک اپ کی بھیڑوں کو ریوڑ الگ سے ترتیب دیا جاتا تھا۔“
“جو ہمارے لئے ممکن ہو مسٹر جیمسن۔“ مائیکل نے کہا۔ “کوئی ایسا نسخہ بتائیے۔!“
“ایسا کوئی نسخہ زبانی یاد نہیں۔۔۔۔لیکن ایسے نسخے بھی فراہم کر سکوں گا۔!“
“بہت بہت شکریہ۔!“
ظفر عمران کی کال ریسیو کرنے کے بعد سے اور بھی سنجیدہ ہو گیا تھا۔ لیکن اُس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی کہ اُس کی نگرانی کون کر رہا تھا۔
اس نے جیمسن سے کہا۔ “فیکٹری سے کال آئی تھی۔ ورکرز نے ہڑتال کی دھمکی دی ہے۔!“
جیمسن نے نتھنے پھلائے تھے اور بُرا سا منہ بنا کر بولا تھا۔ “ہڑتال ضرور ہو گی۔!“
“خاموش رہو۔ تمہیں جراءت کیسے ہوئی ایسی بات کہنے کی۔!“
“میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں یور ہائی نس۔۔۔۔!“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

اگر تھیلما جوشِ رقابت میں سلمانی کے سامنے ڈورا کرسٹی کو گالیاں دے سکتی تھی تو شہزور اس سے کس طرح لاعلم رہ سکا ہو گا۔ تھیلما نے کبھی نہ کبھی اُس پر بھی بات واضح کر دی ہو گی کہ وہ اسکے اور ڈورا کرسٹی کے تعلقات کے بارے میں جانتی ہے۔
اسی نظریئے کے تحت عمران نے براہِ راست ڈورا سے رابطہ قائم کرنے کی بجائے ظفر الملک کے ذریعے حالات کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔اور پھر یہ بات اُس پر واضح ہو گئی تھی کہ شہزور نے یہ خانہ بھی خالی نہیں چھوڑا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اُس کے آدمیوں نے ڈورا کے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھنی شروع کر دی تھی۔
اس وقت عمران اُس شخص کا تعاقب کر رہا تھا جس نے ظفر الملک اور جیمسن کا تعاقب اُن کی قیام گاہ تک کیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنی موٹر سائیکل وہیں روکے رکھی تھی۔ اور نیم پلیٹ پر ظفر الملک کا نام پڑھنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ عمران نے اپنی گاڑی اُس سے خاصے فاصلے پر روکی تھی۔
موٹر سائیکل حرکت میں آئی تو اُس نے بھی انجن سٹارٹ کیا۔ لیکن اُس آدمی نے تو پھر اُسی ہوٹل کا رخ کیا جہاں سے روانگی ہوئی تھی۔
ڈورا اور اُس کا پارٹنر اب بھی وہیں تھے۔۔۔۔شائد انہوں نے چھٹی کا دن وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عمران نے بھی وہیں ڈیرا ڈال دیا۔۔۔۔ریڈی میڈ میک اپ میں تھا۔ اس لئے دوسروں سے الگ تھلگ ہی رہنا چاہتا تھا۔ اس میک اپ میں شکل ایسی خوفناک ہو جاتی تھی کہ دوسروں کی نظریں بار بار اُس کی طرف اٹھنے لگتی تھیں۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ اکتا گیا۔ ضروری نہیں تھا کہ وہ آدمی اُن دونوں کے وہاں سے ہٹنے سے قبل بھی کچھ اور کرتا۔ گویا حقیقتاً وہ ڈورا کرسٹی کی نگرانی اس نقطہ نظر سے کر رہا تھا کہ اگر کوئی اجنبی اُس میں دل چسپی لے تو اس کا نام اور پتہ معلوم کرنے کی کوشش کرے ورنہ صرف ظفر الملک کی قیام گاہ تک جا کر کیوں پلٹ آتا۔
بہرحال اُسے جو کچھ معلوم کرنا تھا کر چکا تھا۔ اب کسی ماتحت کو اُس کی نگرانی پر مامور کیا جا سکتا تھا۔
بلیک زیرو سے فون پر گفتگو ہوئی تھی اور اُسے اُس آدمی سے متعلق ہدایات دے کر وہ کسی کی آمد کا منتظر رہا تھا۔ بیس منٹ گزرنے کے بعد اُس نے ٹوائیلٹ کا راستہ لیا۔۔۔۔!“
یہاں اُس نے ریڈی میڈ میک اپ نکال کر جیب میں رکھا تھا اور واش بیسن پر جھک کر منہ دھونے لگا تھا۔۔۔۔! پھر سیدھا ہو کر چہرہ خشک کر رہا تھا کہ کیپٹن خاور دکھائی دیا! ہدایات کے مطابق وہ اُسی جگہ پہنچا تھا جہاں بلیک زیرو نے اُسے عمران سے ملنے کو کہا تھا۔
“دن میں کتنی بار منہ دھویا جاتا ہے۔“ اُس نے ہنس کر پوچھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“جتنی بار کوئی نئی لڑکی سامنے آتی ہے۔ پھر دوسری کے لئے منہ دھو رکھتا ہوں۔!“
“محاوروں کے صحیح استعمال کا سلیقہ ہوتا جا رہا ہے۔!“
“ایک کا نام سلیقہ بھی ہے۔۔۔۔بہرحال اب تو منہ دھو ہی چکا ہوں۔ دیر تک تمہاری شکل نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔سوئیمنگ پول کی نشستوں میں سے ایک پر ایک آدمی ہے۔ جس کی نگرانی تمہیں کرنی ہے۔ نیلے کوٹ اور سرخ ٹائی والا۔۔۔۔بائیں گال پر چوٹ کا واضح نشان ہے جو دور سے بھی نظر آتا ہے۔۔۔۔بس اب جاؤ۔!“
خاور کے چلے جانے کے بعد اُس نے دوبارہ ریڈی میڈ میک اپ ناک پر فٹ کیا تھا اور سوئیمنگ پول کے قریب سے گزرے بغیر پارکنگ لاٹ کی راہ لی تھی۔
گاڑی میں بیٹھتے وقت بھی فیصلہ نہ کر سکا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہئیے۔
ایس۔۔۔۔پی راشد اور کسٹم کے ڈی۔سی راجن کے متعلق بلیک زیرو کی رپورٹ مل چکی تھی۔ دونوں علامہ کے شاگرد رہ چکے تھے۔ لیکن اس کا کوئی ثبوت نہ مل سکا تھا کہ اب بھی علامہ سے قریبی تعلقات رکھتے ہوں۔!“
“علامہ۔۔۔۔!“ وہ دانت پر دانت جما کر بڑبڑایا اور گاڑی کا انجن اسٹارٹ کر دیا۔
شیلا اور پیٹر اب بھی رانا پیلس ہی میں تھے۔ ایک بار پھر اُس کا ذہن پیٹر کی طرف متوجہ ہو گیا! عمران اُس سے ابھی تک علامہ کے خلاف کچھ بھی نہیں اگلوا سکا تھا۔ وہ برابر یہی کہے جا رہا تھا کہ علامہ کا کوئی تعلق بھی نہیں ہو سکتا یاسمین کی موت سے۔ اور شیلا کو اُس کے باپ دھنی رام نے زہر دلوانا چاہا تھا۔
گاڑی پارکنگ شیڈ سے نکل کر سڑک پر آ گئی اور اب وہ رانا پیلس کی طرف جا رہی تھی۔
رانا پیلس میں پہنچ کر سب سے پہلے اُس نے فون پر ظفرالملک سے رابطہ قائم کیا تھا! دوسری طرف اس کی آواز سن کر بولا۔ “تمہارا تعاقب کیا گیا تھا! تعاقب کرنے والے نے تمہاری نیم پلیٹ بھی بغور دیکھی تھی۔!“
“تو پھر اب مجھے کیا کرنا چاہئیے۔!“
“فی الحال خود ادھر کا رخ نہ کرنا۔۔۔۔یہی ظاہر ہونا چاہئیے کہ وہ ملاقات اتفاقیہ تھی۔!“
“اور اگر ڈورا کرسٹی یا اُس کا پارٹنر خود ہی یہاں چلے آئیں تو۔۔۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میں تمہیں اس صدی کا سب سے خوبصورت آدمی تسلیم کر لوں گا۔“ عمران خوشی ظاہر کرتا ہوا بولا۔
“میں نہیں سمجھا۔!“
“اپنی خوبصورتی سمجھ میں نہیں آتی، دوسرے سمجھاتے ہیں! اگر وہ خود ہی آئے تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔۔اور تمہیں اُس کے ملنے جلنے والوں میں ایک قدآور اور جسیم ہپی پر نظر رکھنی ہے۔ دیسی ہی ہے۔۔۔۔غیر ملکی نہیں۔!“
“بہت بہتر۔۔۔۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
“لیکن تم اس سلسلے میں ڈورا یا مائیکل سے براہِ راست کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کرو گے۔!“
“ہپی کا نام۔!“
“میں نہیں جانتا۔۔۔۔تمہیں اُسے تلاش کرنا ہے۔ اُس کے بعد نام بھی خود ہی معلوم کرو گے۔!“
“میں سمجھ گیا! غالباً مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ اُس کے حلقہء احباب میں کوئی ایسا آدمی بھی شامل ہے یا نہیں۔!“
“خاصی دیر لگانے لگے ہو سمجھنے میں۔ کیا بات ہے۔!“
“کوئی بات نہیں۔!“
“دیٹس آل“ کہہ کر عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ بلیک زیرو قریب ہی موجود تھا۔
“میں سوچ رہا تھا جناب۔“ اُس نے کہا۔ “اس کیس کا تعلق ہمارے محکمے سے ہے بھی یا نہیں۔!“
“قطعی نہیں ہے۔ اس کا تعلق ثریا کے سسرال سے ہے۔!“
“یعنی کہ۔۔۔۔!“
“بات یاسمین کی موت سے شروع ہوئی تھی جو ثریا کی سسرالی عزیزہ تھی۔۔۔۔ سسرال پر بھڑکنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا ملک لاتعداد سسرالوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود بھی فلیم بینوں کا خیال ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ طوائف ہے۔!“
“کیا آپ رات بھر نہیں سوئے۔!“ بلیک زیرو نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔
“شائد میں کوئی غیر ضروری بات کہہ گیا ہوں۔!“ عمران نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“یہ مطلب نہیں تھا۔“ بلیک زیرو جلدی سے بولا۔
“میں تنویر کی وجہ سے پریشان ہوں۔۔۔۔اُس کی حالت بہتر نہیں ہے۔!“
بلیک زیرو کچھ نہ بولا۔ عمران نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
“میرا خیال تھا کہ میاں توقیر پارٹی کے کنونشن میں ضرور شرکت کریں گے اور علامہ اُسی دوران میں اُن پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن کل کنونشن کا آخری دن ہے۔!“
“پارٹی کے آفس سے معلوم کرنے کی کوشش کروں۔“ بلیک زیرو نے پوچھا۔
“ضروری نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ اہم مہمانوں کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکے! علامہ نے شائد اسکیم بدل دی ہے۔ کچھ اور سوچ رہا ہے۔ کوئی اور طریقہ اختیار کرے گا۔ جولیا کو میں نے صرف اسی لئے بھیجا تھا کہ وہ سفر کے دوران ان کی نگرانی کر سکے۔“
“فرحانہ جاوید کے ذریعے علامہ کیا کرنا چاہتا ہے۔!“
“دیکھیں گے۔۔۔۔فی الحال تو میاں صاحب اُس کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہیں، جولیا کی رپورٹ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اب میں ذرا پیٹر کو دیکھ لوں۔۔!“
“اوہ۔۔۔۔اُس کے بارے میں تو بتانا ہی بھول گیا۔۔۔۔اُس پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ جس کمرے میں تھا اس کا سارا فرنیچر تباہ کر دیا۔!“
“کب کی بات ہے۔!“
“آج صبح۔۔۔۔!“
“اور تم نے اتنی اہم بات بھلا دی تھی۔!“ عمران نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔!“
“پتا نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے تم لوگوں کو۔۔۔۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا اور کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا۔ بہرحال اُسے دوسرے فرنشڈ کمرے میں منتقل کر دیا یا نہیں۔!“
“دوسرے فرنشڈ کمرے میں۔“ بلیک زیرو کے لہجے میں حیرت تھی۔
عمران نے مایوسانہ انداز میں سر کو جنبش دی اور اُس کمرے کی طرف چل پڑا جہاں سے شارٹ سرکٹ ٹی وی سیٹ پر پیٹر کے کمرے کی حالت دیکھ سکتا۔
پیٹر کمرے کے فرش پر چت پڑا نظر آیا۔ اپنے سارے کپڑے اُس نے پھاڑ ڈالے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

اختتام​

ص 216-225
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top