“یہ مطلب نہیں تھا۔“ بلیک زیرو جلدی سے بولا۔
“میں تنویر کی وجہ سے پریشان ہوں۔۔۔۔اُس کی حالت بہتر نہیں ہے۔!“
بلیک زیرو کچھ نہ بولا۔ عمران نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
“میرا خیال تھا کہ میاں توقیر پارٹی کے کنونشن میں ضرور شرکت کریں گے اور علامہ اُسی دوران میں اُن پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن کل کنونشن کا آخری دن ہے۔!“
“پارٹی کے آفس سے معلوم کرنے کی کوشش کروں۔“ بلیک زیرو نے پوچھا۔
“ضروری نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ اہم مہمانوں کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکے! علامہ نے شائد اسکیم بدل دی ہے۔ کچھ اور سوچ رہا ہے۔ کوئی اور طریقہ اختیار کرے گا۔ جولیا کو میں نے صرف اسی لئے بھیجا تھا کہ وہ سفر کے دوران ان کی نگرانی کر سکے۔“
“فرحانہ جاوید کے ذریعے علامہ کیا کرنا چاہتا ہے۔!“
“دیکھیں گے۔۔۔۔فی الحال تو میاں صاحب اُس کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہیں، جولیا کی رپورٹ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اب میں ذرا پیٹر کو دیکھ لوں۔۔!“
“اوہ۔۔۔۔اُس کے بارے میں تو بتانا ہی بھول گیا۔۔۔۔اُس پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ جس کمرے میں تھا اس کا سارا فرنیچر تباہ کر دیا۔!“
“کب کی بات ہے۔!“
“آج صبح۔۔۔۔!“
“اور تم نے اتنی اہم بات بھلا دی تھی۔!“ عمران نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔!“
“پتا نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے تم لوگوں کو۔۔۔۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا اور کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا۔ بہرحال اُسے دوسرے فرنشڈ کمرے میں منتقل کر دیا یا نہیں۔!“
“دوسرے فرنشڈ کمرے میں۔“ بلیک زیرو کے لہجے میں حیرت تھی۔
عمران نے مایوسانہ انداز میں سر کو جنبش دی اور اُس کمرے کی طرف چل پڑا جہاں سے شارٹ سرکٹ ٹی وی سیٹ پر پیٹر کے کمرے کی حالت دیکھ سکتا۔
پیٹر کمرے کے فرش پر چت پڑا نظر آیا۔ اپنے سارے کپڑے اُس نے پھاڑ ڈالے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
ص 216-225