بیچارہ شہزور۔ ص 226-235

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
پورے کمرے کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ ایسی توڑ پھوڑ مچائی تھی کہ کسی چیز کو بھی قابلِ مرمت نہیں چھوڑا تھا۔ عمران نے طویل سانس لی اور اس طرح منہ چلانے لگا جیسے کسی تلخ چیز کا اثر زبان کی جڑ سے چمٹا رہ گیا ہو۔
کچھ دیر بعد وہ قفل کھول کر پیٹر کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ لیکن پیٹر کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہ دیکھ کر وہیں ٹھٹک گیا۔ وہ بدستور چپ پڑا اُسے لا تعلقی سے دیکھے جا رہا تھا۔
“پیٹر۔۔۔۔!“ عمران نے اونچی آواز میں کہا۔ “مجھے تم سے ہمدردی ہے۔!“
“دردی اے“۔۔۔۔پیٹر کسی بندر کی طرح چچیایا تھا۔ “دردی کیا۔۔۔۔چی۔۔۔۔چی۔۔۔۔!“
“چی۔۔۔۔چی۔۔۔۔!“ عمران نے استفہامیہ انداز میں سر کو جنبش دی۔!
“چرچیاس۔۔۔۔چریس۔۔۔۔!“ پیٹر حلق کے بل بولا۔
“چروس چروس۔۔۔۔!“ عمران نے پھر سر ہلایا تھا۔
“چر۔۔۔۔راں۔۔۔۔!“ پیٹر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ چہرے سے نہیں اندازہ ہوتا تھا کہ اُسے اپنی برہنگی کا ذرہ برابر بھی احساس ہو۔
“دیکھو بیٹے۔۔۔۔اگر میں تمہیں جان سے بھی مار دوں تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔۔۔۔پولیس اب تک جھک مارتی پھر رہی ہے۔۔۔۔اور شہزور نے تو تہلکہ مچا رکھا ہے۔۔۔۔لیکن تم جہاں تھے وہیں ہو۔!“
“چچراس۔۔۔۔چیاس۔۔۔!“ پیٹر نے اس پر چھلانگ لگا دی۔۔۔۔عمران نے جھک کر اُسے پشت پر لیا تھا اور دوسری طرف الٹ دیا تھا۔
“چیں۔۔۔۔چیں۔۔۔۔چیں۔!“ وہ کسی ہزیمت خوردہ کتے کی سی آواز نکالتا رہا۔ فرش پر دوبارہ اٹھنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔
“میں دیکھوں گا کہ یہ ڈھونگ کب تک چلتا ہے۔!“ عمران نے کہا اور کمرے سے باہر نکل کر دروازہ دوبارہ مقفل کر دیا۔
اس کے چہرے پر گہری تشویش کے آثار تھے۔ بلیک زیرو پھر آ ٹکرایا۔
“دیکھا آپ نے۔۔۔۔!“
“میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ڈھونگ ہے یا سچ مچ اُس کا دماغ الٹ گیا ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“خدا جانے۔!“ بلیک زیرو نے کہا۔ “ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ علامہ کیپٹن فیاض کے دفتر میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ کیپٹن فیاض موجود نہیں ہے۔!“
عمران نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک لمبی سی “ہوں“ کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

کیپٹن فیاض سر جھکائے بیٹھا تھا اور علامہ بُری طرح گرج برس رہا تھا۔
“اگر صورت حال یہی رہی تو مجبوراً مجھے براہِ راست وزیرِ اعظم سے گفتگو کرنی پڑے گی۔“
“میں ایک بار پھر آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میرے محکمے کا کوئی آدمی نہ آپ کا تعاقب کرتا ہے اور نہ آپ کی قیام گاہ کی نگرانی کرائی جا رہی ہے۔!“
“اس وقت بھی ایک موٹر سائیکل پیچھے لگی رہی تھی۔!“
“تو پھر اس کا یہ مطلب ہوا کہ تعاقب کرنے والا باہر آپ کی واپسی کا منتظر ہو گا۔“
“میں کیا کہہ سکتا ہوں۔!“
“ٹھہرئیے۔۔۔۔میں خود چیک کروں گا۔۔۔۔لیکن اس کے لئے آپ کو بھی باہر نکلنا پڑے گا۔۔۔۔مطلب یہ کہ جس طرح آئے تھے اُسی طرح روانہ ہو جائیے۔۔۔۔میں دیکھ لوں گا۔!“
“میں سمجھ گیا۔۔۔۔چلئے۔۔۔۔!“ علامہ اٹھتا ہوا بولا۔
فیاض کو مزید ہدایات نہیں دینی پڑی تھیں۔ علامہ بالکل اُسی طرح رخصت ہوا تھا جیسے کوئی خاص بات نہ ہو۔!
اس کی گاڑی خاصی دور نکل گئی تھی۔ فیاض نے اپنی گاڑی سڑک پر نکالی۔۔۔۔اور اُس کے پیچھے چل پڑا۔
تھوڑی ہی دیر بعد اُسے علامہ پر شدت سے غصہ آیا تھا۔
قریباً ایک میل کا فاصلہ طے کر لینے کے بعد بھی کوئی ایسا نہ دکھائی دیا تھا جس پر تعاقب کرنے کا شبہ کیا جا سکتا۔۔۔۔اور کسی موٹر سائیکل سوار کا تو دور دور تک پتا نہیں تھا۔
دوڑ جاری رہی۔۔۔۔حتیٰ کہ علامہ اپنی کوٹھی تک پہنچ گیا۔۔۔۔فیاض بھی اپنی گاڑی کمپاؤنڈ کے اندر لیتا چلا گیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“دیکھا آپ نے۔۔۔۔!“ علامہ نے اپنی گاڑی سے اترتے ہوئے کہا۔
“دیکھتا ہی آیا ہوں۔ لیکن مجھے تو کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا جس پر کوئی شبہ کیا جا سکتا۔ اور خصوصیت سے نہ آپ کے پیچھے کوئی موٹر سائیکل تھی اور نہ میری گاڑی کے پیچھے۔!“
علامہ کچھ نہ بولا۔ لیکن اس کی آنکھوں میں حیرت کے آثار صاف پڑھے جا سکتے تھے۔!
“اور اب کوٹھی کے آس پاس ایسے لوگوں کو بھی تلاش کرونگا جن پر نگرانی کا شبہ کیا جا سکے۔!“ فیاض بولا۔
“میری سمجھ میں نہیں آتا۔!“ علامہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
“آپ اندر تشریف لے چلئے۔!“ فیاض نے کہا۔ “میں آس پاس نظر دوڑا کر ابھی آیا۔!“
وہ اپنی گاڑی سے اُتر کر کمپاؤنڈ کے پھاٹک پر آیا تھا۔ یہاں بھی کوئی ایسا نہ ملا جسے فیاض علامہ کے بیان پر فٹ کر سکتا۔۔۔۔ پھر اُس نے باہر سے کوٹھی کے گرد بھی ایک چکر لگایا تھا اور بے نیل و مرام واپس ہوا تھا۔! آخر یہ حضرت چاہتے کیا ہیں؟ وہ سوچ رہا تھا۔ وزیرِ اعظم سے شکایت کرنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔!
بہرحال تھا ضرور کوئی چکر۔۔۔۔اور پھر اُسے عمران کا خیال آیا۔ ساتھ ہی علامہ کے وہ شاگرد بھی یاد آئے جنہیں کسی نے گرفتار کر رکھا تھا۔ اور پھر حیرت انگیز طور پر چھوڑ بھی دیا تھا۔!
علامہ اُسے دیکھ کر اٹھتا ہوا بولا۔ “کیا اب مجھ پر دروغ گوئی کا بھی الزام آنے والا ہے۔!“
“بظاہر تو حالات ایسے ہی ہیں۔!“ فیاض نے خشک لہجے میں کہا۔
“یعنی کوئی ایسا نظر نہیں آیا۔!“
“جی نہیں۔۔۔۔!“ فیاض نے کہا۔ “بہرحال آپ غلط نتیجے پر پہنچے تھے۔ اگر کوئی آپ کی نگرانی کرتا بھی رہا ہے تو وہ کم از کم میرے محکمے کا کوئی آدمی نہیں ہو سکتا۔!“
“اگر ایسا ہے تو مجھے اپنے رویے پر افسوس ہے۔! تشریف رکھئے اور مجھے معاف کر دیجئے۔!“
“لیکن کوئی اور بھی تو آپ کے معاملات میں دل چسپی لے رہا ہے۔“ فیاض بیٹھتا ہوا بولا۔
“ہاں۔۔۔۔وہ نامعلوم آدمی جس نے میرے شاگردوں کو قید کر رکھا تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ کون ہے اور کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے اور یاسمین کا قتل میرے سر کیوں تھوپنا چاہتا ہے۔ اگر اُسے کوئی بلیک میلر سمجھ لیا جائے تو آخر مقصد کیا ہے جبکہ ابھی تک اس کا کوئی مطالبہ بھی میرے سامنے نہیں آیا ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میرا محکمہ اس نامعلوم آدمی میں دلچسپی لے رہا ہے۔!“
علامہ کچھ نہ بولا! اُس کی آنکھوں میں فکرمندی جھلک رہی تھی۔
“آپ بھی کسی ایسے آدمی کی نشان دہی نہیں کر سکے جو آپ کو زک دینے کے لئے اس حد تک جا سکے۔!“
“میں کیا بتاؤں۔ جبکہ میں کسی کو بھی اپنا دشمن سمجھنے پر تیار نہیں۔!“
“آپ کے دو شاگردوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔!“
“شیلا اور پیٹر۔!“
“جی ہاں۔۔۔۔وہی۔۔۔۔“فیاض سر ہلا کر بولا۔ “اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس نے ان دونوں کو کیوں نہیں چھوڑا۔“
“ہو سکتا ہے وہ دونوں اُس کی دانست میں میرے متعلق دوسروں سے زیادہ معلومات رکھتے ہوں۔!“ علامہ مسکرا کر بولا تھا۔
“اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دونوں خود ہی روپوش ہو گئے ہوں۔!“
“خدا جانے۔!“ علامہ بیزاری سے بولا۔
“شیلا بہرحال ہماری لسٹ پر ہے۔ کیونکہ ہو یاسمین کے گھر والوں کو دھوکے میں رکھ کر ادھر اُدھر لئے پھرتی تھی۔!“
“اُن کے ذاتی معاملات تھے۔!“
“اچھی بات ہے! اب اجازت دیجئے۔“ فیاض اٹھتا ہوا بولا۔
“چائے۔!“
“نہیں۔ شکریہ۔ ایک بے حد ضروری کام چھوڑ کر اٹھا تھا۔!“
فیاض آفس کی طرف پلٹا تھا۔۔۔۔جھنجھلاہٹ کا یہ عالم تھا کہ سختی سے دانت پر دانت جما رکھے تھے۔ جبڑے دکھنے لگے تھے۔
سیٹ پر بیٹھنے نہیں پایا تھا کہ سیکریٹری نے اُن لوگوں کی لسٹ پیش کی تھی۔ جن کی فون کالز اس کی عدم موجودگی میں آئی تھیں۔ سب سے اوپر عمران کا نام دیکھ کر بھڑک اٹھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تم نے ان لوگوں کے فون نمبر کیوں نہیں لکھ لئے۔!“
“کسی نے بتایا ہی نہیں جناب۔!“
“تمہیں معلوم کرنا چاہئیے تھا۔ ہو سکتا ہے ان میں بعض لوگ اہم ہوں۔“
“غلطی ہوئی جناب۔!“
فیاض کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھئ۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر جلدی سے ریسیور اٹھایا تھا۔۔۔۔اور دوسری طرف عمران ہی کی آواز سُن کر طویل سانس لی تھی۔
“کیا بات ہے۔؟“ اس نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
“خیریت دریافت کرنے کے علاوہ اور کیا غرض ہو سکتی ہے۔!“
سیکریٹری اب بھی میز کے قریب ہی موجود تھا۔ فیاض نے بائیں ہاتھ سے پنسل اٹھائی اور پیڈ پر کچھ لکھے کی کوشش کرنے لگا۔ ساتھ ہی عمران سے کہتا جا رہا تھا۔
“تم بہت بُرا کر رہے ہو۔ پچھتاؤ گے۔!“
“علامہ کیوں آیا تھا۔؟! عمران نے پوچھا۔
“کیا مطلب۔!“
“مجھے اطلاع ملی تھی کہ وہ تمہارے آفس میں بیٹھا ہوا ہے۔!“
“کس سے اطلاع ملی تھی۔!“
“میرے اپنے ذرائع ہیں۔! اگر مناسب سمجھو تو مجھے بھی بتا دو۔!“
فیاض نے بائیں ہاتھ سے لکھی جانے والی تحریر کی طرف سیکریٹری کو متوجہ کیا تھا اور عمران سے بولا تھا۔ “اُسے شکایت ہے کہ میرے محکمے کے لوگ اُس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ کہہ رہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ کیا گیا تو وہ براہِ راست وزیرِ اعظم سے شکایت کرے گا۔!“
سیکریٹری نے جھک کر تحریر پڑھی اور تیزی سے باہر چلا گیا تھا۔
“تو پھر اب تم کیا کرو گے۔؟“
“کچھ بھی نہیں۔ دیکھا جائے گا۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“حالانکہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ تمہارا محکمہ بالکل معصوم ہے۔! بے قصور ہے۔ خوامخواہ اُس کے جی کو لگا رہا ہے یہ علامہ۔۔۔۔زبان سڑ جائے اسکی۔۔۔تن تن کیڑے پڑیں۔۔!“
“کیوں بکواس کر رہے ہو۔!“
“یقین کرو۔۔۔میں جانتا ہوں۔۔۔۔تمہارا محکمہ پورے طور پر اس معاملے سے دستکش ہو گیا ہے۔!“
“ایسا بھی نہیں ہے۔!“
“اچھا تو پھر یہ بات ہو گی کہ تم محض اپنی گرل فرینڈ ڈاکٹر کی حد تک اس معاملے میں دلچسپی لے رہے تھے۔!“
“یہی سمجھ لو۔۔۔۔!“ فیاض غرایا۔
“لیکن تم کیوں گئے تھے علامہ کے پیچھے۔!“
“اوہ۔۔۔۔تو وہ تمہارے آدمی ہیں۔!“
“تم بھی یہی سمجھ لو۔۔۔۔!“
“لیکن مجھے تو کوئی بھی نہیں دکھائی دیا تھا۔ نہ راستے میں اور نہ علامہ کی کوٹھی کے آس پاس۔!“
“وہ میرے گُرگے ہیں۔ اُن پر سرکاری چھاپ تو ہے نہیں کہ ہر ایک کو دکھاتے پھریں۔!“
“آگ سے مت کھیلو۔۔۔۔اگر اُس نے واقعی شکایت کر دی اور اوپر سے کوئی حکم آ گیا تو تمہارے والد صاحب بھی بے بس ہوں گے۔!"
“یار تم ہر بات پر والد صاحب کا حوالہ کیوں دے بیٹھتے ہو۔!"
“خیر اندیش ہوں اُن کا۔!“
“کیا ابھی تک وہ شخص واپس نہیں آیا جس سے تم نے میرا فون ڈیٹکٹ کرنے کو کہا تھا۔!“
“نہیں۔!“ فیاض نے غیرارادی طور پر کہا اور پھر گڑبڑا کر بولا۔ “کیا کہا تھا تم نے۔ آواز صاف نہیں آئی تھی۔!“
“غزل سرائی جاری رکھو۔۔۔۔اگر ایکس چینج سے میرے فون نمبر معلوم ہو سکے تو ساڑھے ڈھائی پاؤ موتی چور کے لڈو کھلاؤں گا۔“
“سنجیدگی سے گفتگو کرو۔۔۔۔باز آ جاؤ۔۔۔۔اپنی حرکتوں سے۔!“
“پھر پھانسی کا پھندہ کس کی گردن کے لئے تیار کیا جائے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیا مطلب۔!“
“یاسمین کی موت۔۔۔۔اتفاقیہ نہیں تھی۔۔۔۔یہ ثابت ہو چکا ہے۔!“
“سوتیلی ماں کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں۔!“
“اچھا تو پھر منتظر رہو۔۔۔۔سول پولیس کی ناکامی کے بعد کیس تمہارے پاس ہی پہنچے گا۔“
“یقین کرو۔۔۔۔اسی کا انتظار ہے۔“ فیاض غرایا۔
اتنے میں سیکریٹری بھی واپس آ گیا تھا۔ فیاض نے اُس کی طرف دیکھا لیکن اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
اور فیاض اچانک بہت زیادہ بھڑک کر بولا۔ “جہنم میں جاؤ۔!“
اُس نے ریسیور کریڈل پر پٹخ دیا تھا۔
“ایکس چینج سے کیا معلوم ہوا۔“ وہ سیکریٹری کی طرف دیکھے بغیر بولا۔
“ایکس چینج نے معذوری ظاہر کی ہے جناب۔!“
“کیا تم نے محکمے کا حوالہ کوڈ نمبر سمیت نہیں دیا تھا۔!“
“دیا تھا جناب! وہ ڈٹیکٹ نہیں کر سکے۔“
“جاؤ۔۔۔۔!“ وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔ اور سیکریٹری کے جانے کے بعد کرسی کی پشت گاہ سے ٹک کر پھر اس طرح ہانپنے لگا جیسے کوہ پیمائی کے بعد ڈھیر ہو گیا ہو۔ قریباً پانچ منٹ تک یہی کیفیت رہی تھی۔ پھر اُس نے شانوں کو جنبش دی تھی اور گردن جھٹک کر سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
پھر فون کی طرف ہاتھ بڑھا کر رحمان صاحب کے نمبر ڈائیل کئے تھے۔
دوسری طرف سے ان کے سیکریٹری کی آواز سن کر بولا تھا۔ “کیپٹن فیاض! صاحب سے ملاؤ۔!“
“ایک منٹ جناب۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی اور فیاض انتظار کرتا رہا۔!
“ہیلو۔۔۔۔!“ رحمان صاحب کی آواز آئی تھی۔!
“فیاض سر۔۔۔۔!“
“کیا بات ہے۔!“
“حاضر ہونا چاہتا ہوں۔“
“کوئی خاص بات۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“جی ہاں۔!“
“آ جاؤ۔“ دوسری طرف سے آواز آئی تھی۔ اور پھر سلسلہ منقطع ہو جانے پر فیاض نے بھی رییسیور رکھ دیا تھا۔
آندھی اور طوفان کی طرح رحمان صاحب کے دفتر کی طرف روانہ ہوا۔ عمران کے خلاف بُری طرح اُبل رہا تھا۔ دفتر پہنچ کر انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ رحمان صاحب نے فوراً ہی اندر بلا لیا تھا۔
کسی تمہید کے بغیر ہی فیاض نے علامہ کی دھمکی کی کہانی اور اپنی بھاگ دوڑ کی روداد شروع کر دی تھی۔۔۔۔رحمان صاحب سکون سے سنتے رہے۔ پھر عمران کا ذکر نکلا۔۔۔۔اور بات ختم ہونے تک وہ کچھ بھی نہ بولے۔
“اور کچھ۔“ انہوں نے اُس کے خاموش ہونے پر پوچھا تھا۔
“جی نہیں۔“
“کیا علامہ نے عمران کے خلاف شبہ ظاہر کیا تھا۔“
“جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔نہیں۔!“
“تو پھر تم اتنے پریشان کیوں ہو۔!“
“عمران نے مجھ سے کہا تھا۔!“
“ظاہر ہے کہ تم علامہ کو اس سے آگاہ نہیں کرو گے۔!“
“یقیناً۔۔۔۔جناب میں نے سوچا کہ آپ کے گوش گذار کر دوں۔۔۔۔دراصل بات یاسمین کی موت سے شروع ہوئی تھی۔!“
“میں جانتا ہوں۔۔۔۔جب تک کیس باضابطہ طور پر ہمارے پاس نہ پہنچے ہمیں اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے۔۔۔۔لیکن کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم اس میں کیوں دلچسپی لے رہے ہو۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ متعلقہ تھانے کے انچارج کو تم نے اس سلسلے میں کچھ ہدایات بھی دے رکھی ہیں۔!“
فیاض کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں پھوٹنے لگی تھیں۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر پسینہ خشک کیا تھا ور ہکلانے لگا تھا۔ “عم۔۔۔۔عمران نے بتایا تھا کہ۔۔۔۔!“
“بس۔!“ رحمان صاحب نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ “اب تم جا سکتے ہو۔! مجھے علم ہے تم کیا نہیں کہنا چاہتے۔ اپنے کام سے کام رکھو۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“بب۔۔۔۔بہت بہتر جناب۔۔۔۔!“ فیاض اٹھتا ہوا بولا تھا۔
“ٹھہرو۔۔۔۔!“ رحمان صاحب بولے۔ “اگر علامہ کو عمران سے کوئی شکایت ہو گی تو وہ براہِ راست پولیس سے رابطہ قائم کرے گا۔۔۔۔نجی طور پر تمہارے پاس نہیں دوڑا آئے گا۔!“
“جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔یہ بات تو ہے۔۔۔۔!“
“بس جاؤ۔!“
فیاض بُری طرح ہانپتا ہوا ڈی - جی کے آفس سے برآمد ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

شیلا پھاڑ کھانے کے موڈ میں تھی اور عمران مسمسی صورت بنائے بیٹھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے تازہ تازہ یتیم ہوا ہو۔!
“جب ایسی شکل ہو جاتی ہے نا تمہاری تو میرا غصہ فرو ہونے لگتا ہے۔!“ وہ دانت پیس کر بولی۔
“میں چیز ہی ایسی ہوں کہ مجھ پر غصہ اتارا جا سکے! لیکن بتاؤ مجھے میں کیا کروں۔!“
“یہ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو۔!“
“پھر کس سے پوچھوں! اتنی لمبی چوڑی ہو کہ نہ تمہیں جیب میں رکھ سکتا ہوں اور نہ پاکٹ بُک میں۔!“
“میں کچھ نہیں جانتی! آج تمہارے ساتھ ضرور باہر جاؤں گی۔!“
“چلنے کا انداز بدلنے کے لئے جو مشق بتائی تھی وہ بھی نہ ہو سکی ہو گی تم سے۔۔۔۔!“
“ہوئی تھی۔۔۔۔یہ دیکھو۔۔۔۔!“
وہ کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلی گئی تھی اور عمران نے کہا تھا۔ “ہاں آں۔۔۔۔کسی حد تک۔۔۔۔اب کچھ باتیں کرو۔!“
“کیوں الو بنا رہے ہو۔!“
“ارے واہ۔۔۔۔وہ کھوپڑی ہلنت کنٹرول بھی تو دیکھوں گا۔!“
“ناممکن۔۔۔۔باتیں کرتے وقت سر ضرور ہلے گا۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کوشش تو کرو کہ نہ ہلے۔۔۔۔!“
“فضول باتیں نہ کرو۔۔۔۔ہم اُسی میک اپ میں باہر نکلیں گے جس میں اُس دن تھے۔!“
“اُسے بھول جاؤ۔۔۔۔! شہزور جانتا ہے کہ واجد اُس دن بیچ ہوٹل میں جن لوگوں کے ساتھ تھا اور باہر نکلتے ہی غائب ہو گیا تھا۔!“
“تو پھر کوئی دوسرا میک اپ۔۔۔۔!“
“کوئی بپتا پڑتی ہے تو نروس ہو جاتی ہو۔!“
“اب تمہیں ایسی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ اتنے دنوں کی قید نے دل کو پتھر کر دیا ہے۔!“
“پیٹر کی دیوانگی کے بارے میں کیا خیال ہے۔!“
“تم زہر کی بقیہ مقدار اُس کے پاس سے برآمد نہیں کر سکتے تھے! ہو سکتا ہے وہی کام آئی ہو۔!“
“بقیہ مقدار سے کیا مراد ہے۔!“
“ہو سکتا ہے ایک خوراک سے زیادہ مقدار رہی ہو۔!“
“نہیں۔ اُس نے پوری شیشی خالی کر دی تھی۔ شیشی میں نے اُس سے چھین لی تھی۔۔۔۔دراصل اُس زہر کو ایک انگشتری میں بھر کر استعمال کیا جاتا۔ انگشتری بھی اُس نے میرے حوالے کر دی تھی۔!“
“تو پھر بن رہا ہو گا۔!“
“نہیں میرا خیال ہے کہ وہ سچ مچ ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔!“
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تم اُس سے کچھ بھی نہ اُگلوا سکو گے۔!“
“دیکھا جائے گا۔!“
“آخر تم ہو کون اور کیا چاہتے ہو۔!“
“سات سو سترھویں بار یہ سوال کیا ہے تم نے۔!“
“بہرحال جو کوئی بھی ہو بے حد شریف آدمی ہو۔!“
“شہر میں ہماری کمینگی کے ڈنکے بج رہے ہیں اور آپ فرماتی ہیں بے حد شریف آدمی ہو۔!“
“جو تمہیں کمینہ کہتا ہے خود اُس کی سات پشتوں میں کبھی کوئی شریف نہ رہا ہو گا۔!“
عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سوئچ بورڈ پر سرخ رنگ کا بلب جلدی جلدی جلنے بجھنے لگا تھا۔


اختتام
ص 226-235
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top