“کوشش تو کرو کہ نہ ہلے۔۔۔۔!“
“فضول باتیں نہ کرو۔۔۔۔ہم اُسی میک اپ میں باہر نکلیں گے جس میں اُس دن تھے۔!“
“اُسے بھول جاؤ۔۔۔۔! شہزور جانتا ہے کہ واجد اُس دن بیچ ہوٹل میں جن لوگوں کے ساتھ تھا اور باہر نکلتے ہی غائب ہو گیا تھا۔!“
“تو پھر کوئی دوسرا میک اپ۔۔۔۔!“
“کوئی بپتا پڑتی ہے تو نروس ہو جاتی ہو۔!“
“اب تمہیں ایسی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ اتنے دنوں کی قید نے دل کو پتھر کر دیا ہے۔!“
“پیٹر کی دیوانگی کے بارے میں کیا خیال ہے۔!“
“تم زہر کی بقیہ مقدار اُس کے پاس سے برآمد نہیں کر سکتے تھے! ہو سکتا ہے وہی کام آئی ہو۔!“
“بقیہ مقدار سے کیا مراد ہے۔!“
“ہو سکتا ہے ایک خوراک سے زیادہ مقدار رہی ہو۔!“
“نہیں۔ اُس نے پوری شیشی خالی کر دی تھی۔ شیشی میں نے اُس سے چھین لی تھی۔۔۔۔دراصل اُس زہر کو ایک انگشتری میں بھر کر استعمال کیا جاتا۔ انگشتری بھی اُس نے میرے حوالے کر دی تھی۔!“
“تو پھر بن رہا ہو گا۔!“
“نہیں میرا خیال ہے کہ وہ سچ مچ ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔!“
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تم اُس سے کچھ بھی نہ اُگلوا سکو گے۔!“
“دیکھا جائے گا۔!“
“آخر تم ہو کون اور کیا چاہتے ہو۔!“
“سات سو سترھویں بار یہ سوال کیا ہے تم نے۔!“
“بہرحال جو کوئی بھی ہو بے حد شریف آدمی ہو۔!“
“شہر میں ہماری کمینگی کے ڈنکے بج رہے ہیں اور آپ فرماتی ہیں بے حد شریف آدمی ہو۔!“
“جو تمہیں کمینہ کہتا ہے خود اُس کی سات پشتوں میں کبھی کوئی شریف نہ رہا ہو گا۔!“
عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سوئچ بورڈ پر سرخ رنگ کا بلب جلدی جلدی جلنے بجھنے لگا تھا۔
اختتام
ص 226-235