“تمہیں کیا ہو رہا ہے۔!“
“مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔اب مر جانا چاہتی ہوں۔!“
“بیوقوفی کی باتیں مت کرو۔!“
“یقین کیجئے۔! آپ کی زبان سے یہ سننے کے بعد زندہ رہنے کی خواہش نہیں رہی۔!“
“آخر کیوں۔!“
“اس لئے کہ آپ کے علاوہ اور کسی مرد کا تصور میرے قریب بھی نہیں پھٹکا۔۔۔۔!“
“مم۔۔۔۔میرا۔۔۔۔تصور۔!“ علامہ کی زبان لڑکھڑا گئی۔۔
“جی ہاں۔!“ فرحانہ کی آواز گھٹنے لگی تھی۔
“یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔!“
“میں دل کی گہرائیوں سے کہہ رہی ہوں۔ کبھی زبان نہیں کھولی لیکن اب میری برداشت سے باہر ہے۔ یا آپ یا کوئی نہیں۔۔۔۔اُس ےس بہتر تو موت ہو گی کہ میں خود ہی اپنے جذبات کا گلا گھونٹ دوں۔!“
“میں نے تو تمہارے مستقبل کے لئے ایک خواب دیکھا تھا۔!“
“اسے خواب ہی رہنے دیجئے! اگر حقیقت بنا تو میں بے موت مر جاؤں گی۔!“
علامہ کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے اور خود اُسکی پیشانی سے بھی پسینہ پھوٹ رہا تھا۔
“تت۔۔۔۔تم نے مجھے دشواری میں ڈال دیا ہے فرحانہ۔۔۔۔میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔!“
“کیا میں کسی قابل نہیں ہوں۔!“
“یہ بات نہیں ہے! تمہیں اپنا کر مجھے بے حد خوشی ہوتی۔ لیکن میں ایک بد نصیب آدمی ہوں۔!“
“میں تو ایسا نہیں سمجھتی۔!“
“کاش! تمہیں پہلے ہی سے میرے اس ذہنی مرض کا علم ہوتا۔!“
“کس ذہنی مرض کا۔!“
علامہ کوئی جواب دیئے بغیر مڑا اور تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا اُس کرسی کی طرف آیا جس پر کچھ دیر پہلے بیٹھا تھا۔ بے سُدھ ہو کر کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔
اختتام
ص 236-345