“علامہ۔۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے۔!“
“بیگم تصدق کی ماما کا سراغ ملا یا نہیں۔!“
“نہیں۔!“
“بیگم تصدق کو حراست میں لے لیجئے۔!“
“کیوں۔۔۔۔؟ جب تک ماما کا سراغ نہ ملے ضروری نہیں سمجھتا۔“
“معقول رقم دے اُسے روپوشی پر آمادہ کر لیا گیا ہو گا۔!“
“تو اب تم بھی یہی کہہ رہے ہو حالانکہ آج ہی بیگم تصدق کی موافقت میں بولتے رہے تھے۔!“
“ضابطے کی کاروائی نہ کی گئی تو علامہ کی طرف سے توجہ پٹانے کے لئے اُس کا ہمدرد شہزور۔۔۔۔ نہ جانے کیا کیا کر گزرے گا۔!“
“تو تم اس دھماکے کو بھی اُسی سے متعلق سمجھ رہے ہو۔!“
“جی ہاں۔۔۔۔! وہ چاہتا ہے کہ میں کسی طرح سامنے آؤں! ورنہ آپ اپنے چالیس سالہ ملازم چوکیدار کو کوئی ایسا تخریب کار سمجھ لیجئے جس نے کسی خاص مقصد کے تحت اپنی کوٹھری میں آتش گیر مادہ چھپا رکھا تھا۔!“
“میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔!“ رحمان صاحب نے کہا۔ پھر چونک کر اُسے گھورتے ہوئے بولے۔ “تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔“
“میری موٹر سائیکل باہر کھڑی ہے۔۔۔۔اُسے کمپاؤنڈ میں منگوا لیجئے گا۔۔۔۔نمبر ایکس وائی تین سو بارہ ہے۔!“
“اور تم۔۔۔۔!“
“کسی طرح نکل جاؤں گا۔۔۔۔موٹر سائیکل یہیں رہے گی۔!“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈورا کرسٹی اور مائیکل ظفر الملک کے بنگلے سے برآمد ہوئے تھے۔۔۔۔اور اُن کا تعاقب شروع ہو گیا تھا! تعاقب کرنے والے نے اُن کی گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی اپنی موٹر سائیکل سنبھال لی تھی۔۔۔۔لیکن جیسے ہی اُسے اسٹارٹ کر کے آگے بڑھنا چاہا تھا کسی نے ڈڈونیا کی باڑھ کے پیچھے سے اُس پر چھلانگ لگائی تھی اور کیریئر پر بیٹھا ہوا بولا تھا۔ “چلتے رہو۔!“