فخرنوید
محفلین
اللہ جڑیو عمرانی پچاس سال کا ایک معزور محنت کش ہے۔ ان کے ہمراہ بابو خاصخیلی ، حنیف اور فیض محمد اپنے نو عدد کمسن بچے لے کر بدین پریس کلب پر پہنچ گئے اور بچے برائے فروخت کا بینر لگا کر بیٹھ گئے۔ برائے فروخت بچوں میں تین کمسن بھولی بھالی لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
اللہ جڑیو کا کہنا ہے کہ وہ معذور ہے اور اس کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کوئی ذر یعہ نہیں ہے اس لیے وہ انہیں فروخت کرنے کے لیے آیا ہے۔
اللہ جڑیو کا کہنا ہے کہ چینی کے ایک کارخانے میں ملازمت کے دوران اس کی ٹانگ کچلی گئی تھی۔ مل انتظامیہ نے اسے بیس سال کی ملازمت کے باوجود ملازمت پر بحال رکھنے کی بجائے فارغ کردیا۔ چار سال اس نے جیسے تیسے گزاے۔ اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ ان بچوں کو فروخت کردے تاکہ انہیں خریدنے والا کم از کم دو وقت کا کھانا توکھلائے گا۔
اللہ جڑیو نے ان بچوں کی قیمت ایک لاکھ روپیہءفی بچہ لگائی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کوئی خریدار اتنی رقم کیوں دے گا تو ان کا کہنا تھا کہ انصاف کرے گا۔
ایک بچے کے والد نے وہاں موجود ایک رپوٹر سے کہا کہ وہ تو اپنا بچہ صرف اسی یقین دہانی پر بلاقیمت دینے پر آمادہ ہے کہ بچے کی صحیح پرورش کریں گے۔ دیگر والدین کا بھی یہ ہی کہنا تھا۔ یہ معصوم بچے حیران و پریشان لوگوں کو تک رہے تھے اور ان کے والدین لوگوں کو اپنی مشکل سے آگاہ کر رہے تھے۔
یہ کوئی ڈرامہ نہیں ہے۔ ہم بھوک اور فاقوں سے تنگ آگئے ہیں ۔ ’آپ تین روز بعد سنیں گے کہ دو محنت کشوں نے خود سوزی کرلی ہے ۔ کیا کریں، کہاں جائیں ، شوگر ملز کی ا نتظامیہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔ ہمیں روزگار دینے کے لیے تیار نہیں، کوئی سنتا نہیں ہے، پھرہم کیا کریں، بچے فروخت کرنے اور خود کو جلا کر مار لینے کے علاوہ کو ئی راستہ ہے تو آپ ہی ہمیں دکھا ئیں۔
مزدور اقبال
بدین ساحلی شہر ہے۔ یہاں شکر بنانے کے چھ کارخانے موجود ہیں۔ اس ضلع میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔
شوگر ملز انتظامیہ نے محنت کشوں کی یونین پر پابندی عائد کرتے ہوئے کئی سال قبل عہدیداروں کو بھی فارغ کر دیا تھا ۔ یونین سپریم کورٹ سے بحالی کا فیصلہ لے آئی لیکن انتظامیہ فیصلہ پر عمل درآمد پر آمادہ نہیں ہے ۔
لوگوں کے اس ہجوم میں بحال نہ ہونے والی یونین کے صدر محمد اقبال بھی موجود تھے۔ انہوں نے فون پر بتایا کہ ’۔‘
اقبال خود بھی طویل عرصے سے بےروزگار ہیں۔‘ محنت کشوں کے حقوق کی بات کرنے اور یونین چلانے کے الزام میں انہیں ملازمت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔
اللہ جڑیو عمرانی ، بابو خاصخیلی ، حنیف اور فیض محمد نے تین روزہ پروگرام کے تحت بچے برائے فروخت کے بینر کے نیچے بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعدوہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ اور کریں گے۔
بشکریہ بی بی سی نیوز
اللہ جڑیو کا کہنا ہے کہ وہ معذور ہے اور اس کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کوئی ذر یعہ نہیں ہے اس لیے وہ انہیں فروخت کرنے کے لیے آیا ہے۔
اللہ جڑیو کا کہنا ہے کہ چینی کے ایک کارخانے میں ملازمت کے دوران اس کی ٹانگ کچلی گئی تھی۔ مل انتظامیہ نے اسے بیس سال کی ملازمت کے باوجود ملازمت پر بحال رکھنے کی بجائے فارغ کردیا۔ چار سال اس نے جیسے تیسے گزاے۔ اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ ان بچوں کو فروخت کردے تاکہ انہیں خریدنے والا کم از کم دو وقت کا کھانا توکھلائے گا۔
اللہ جڑیو نے ان بچوں کی قیمت ایک لاکھ روپیہءفی بچہ لگائی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کوئی خریدار اتنی رقم کیوں دے گا تو ان کا کہنا تھا کہ انصاف کرے گا۔
ایک بچے کے والد نے وہاں موجود ایک رپوٹر سے کہا کہ وہ تو اپنا بچہ صرف اسی یقین دہانی پر بلاقیمت دینے پر آمادہ ہے کہ بچے کی صحیح پرورش کریں گے۔ دیگر والدین کا بھی یہ ہی کہنا تھا۔ یہ معصوم بچے حیران و پریشان لوگوں کو تک رہے تھے اور ان کے والدین لوگوں کو اپنی مشکل سے آگاہ کر رہے تھے۔
یہ کوئی ڈرامہ نہیں ہے۔ ہم بھوک اور فاقوں سے تنگ آگئے ہیں ۔ ’آپ تین روز بعد سنیں گے کہ دو محنت کشوں نے خود سوزی کرلی ہے ۔ کیا کریں، کہاں جائیں ، شوگر ملز کی ا نتظامیہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔ ہمیں روزگار دینے کے لیے تیار نہیں، کوئی سنتا نہیں ہے، پھرہم کیا کریں، بچے فروخت کرنے اور خود کو جلا کر مار لینے کے علاوہ کو ئی راستہ ہے تو آپ ہی ہمیں دکھا ئیں۔
مزدور اقبال
بدین ساحلی شہر ہے۔ یہاں شکر بنانے کے چھ کارخانے موجود ہیں۔ اس ضلع میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔
شوگر ملز انتظامیہ نے محنت کشوں کی یونین پر پابندی عائد کرتے ہوئے کئی سال قبل عہدیداروں کو بھی فارغ کر دیا تھا ۔ یونین سپریم کورٹ سے بحالی کا فیصلہ لے آئی لیکن انتظامیہ فیصلہ پر عمل درآمد پر آمادہ نہیں ہے ۔
لوگوں کے اس ہجوم میں بحال نہ ہونے والی یونین کے صدر محمد اقبال بھی موجود تھے۔ انہوں نے فون پر بتایا کہ ’۔‘
اقبال خود بھی طویل عرصے سے بےروزگار ہیں۔‘ محنت کشوں کے حقوق کی بات کرنے اور یونین چلانے کے الزام میں انہیں ملازمت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔
اللہ جڑیو عمرانی ، بابو خاصخیلی ، حنیف اور فیض محمد نے تین روزہ پروگرام کے تحت بچے برائے فروخت کے بینر کے نیچے بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعدوہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ اور کریں گے۔
بشکریہ بی بی سی نیوز