ایم اے راجا
محفلین
رات ایک دوست بہت ناراض ہوا اور روٹھ کر چلا گیا، اس دوران یہ غزل وارد ہو گئی، برائے اصلاح و تنقیدآپ کی نذر کرتا ہوں۔
بیچ صحرا سراب سا ہوں میں
اک سلگتے سے خواب سا ہوں میں
چھوڑ جا مجھ کو شوق سے جاناں
بوجھ ہوں، اک عذاب سا ہوں میں
پھاڑ کر پھینک دے ، مجھے مت پڑھ
داستانِ خراب سا ہوں میں
میرے اندر چھپے ہیں لاکھوں راز
شاعری کی کتاب سا ہوں میں
پڑھ کے جس کو نہ اشک ٹھہریں گے
زیست کے ایسے باب سا ہوں میں
حل نہ کر پائے گا کبھی کو ئی
ایک مشکل حساب سا ہوں میں
بس نہ پائوں گا میں بسانے سے
شہر خانہ خراب سا ہوں میں
مجھ سے پہلو تہی نہ کر ہمدم
گھر میں کھلتے گلاب سا ہوں میں
راس آتی نہیں خوشی راجا
زیرِ غم کا میاب سا ہوں میں