طارق شاہ
محفلین
غزلِ
بیکل اتساہی
لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیار دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
نہیں تم تو کوئی غزل ہوکیا، کوئی رنگ و بو کا بدل ہو کیا
یہ حیات کیا ہو، اجل ہو کیا، نہ کھلی ہوئی نہ چھپی ہوئی
ہے یہ سچ کہ منظرِخواب ہے میرے سامنے جو کتاب ہے
وہ جبیں کہ جس پہ گلاب کی کوئی پنکھڑی ہے پڑی ہوئی
وہی ربطِ عکسِ جمال بھی، وہی خبطِ حُسنِ جمال بھی
وہی ضبطِ حُزن وملال بھی شبِ ہجررسمِ خوشی ہوئی
وہ محل کی چھت پہ جو چاند ہے، خدا جانے کاہے کو ماند ہے
یہ طِلِسْم ہے کسی حُسن کا، یا مری نظر ہے تھکی ہوئی
بیکل اتساہی