بی بی سی اردو؛ ایک تجزیہ

آصف اثر

معطل
بزرگ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 1965ء میں لاہور پر بھارت کے قبضے کی خبریں بی بی سی کی اردو سروس سے سنی تھیں۔ آج ہم سب جانتے ہیں کہ لاہور پر قبضہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا، اور آج بھی قندوز کے شہید حافظ بچے بی بی سی پر باری آنے کے منتظر ہی رہے۔ میں بی بی سی کو کافی عرصے سے اسی حوالے سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہ کس وقت کیا کرتے ہیں۔ اس حوالے پچھلے عرصے میں پیش آنے والے واقعات پر بی بی سی کی رپورٹنگ کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔

اکتوبر2017ء کا پہلا ہفتہ سوشل میڈیا اور سیاسی میدان ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کے حوالے سے محاذ جنگ بنا رہا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلزنے اس ایشو کو سنجیدگی سے لیا اور روزانہ کی بنیادپر اپ ڈیٹس ،کالم اور تجزیے پیش کیے۔ بی بی سی اردو ایک معتبر خبری ذریعہ سمجھا جاتا ہے، البتہ وہ اس حوالےسے خاموش رہا۔ ہفتہ بھر چلنے والے ہاٹ ایشو پر کوئی کالم یا تجزیہ، یااس حوالے سے کوئی خبر بھی بی بی سی پر جگہ نہ بنا سکی۔ یہاں تک کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ترمیم واپس لینے کااعلان اور ترمیم واپس لینے کا سارا پارلیمانی عمل تک بی بی سی پر رپورٹ نہیں ہوا۔ البتہ سارے ایشو کے آخر میں آٹھ اکتوبر کو کیپٹن صفدر نے پارلیمان میں تقریر کی تو بی بی سی نے فوراََ اس پر سٹوری لگائی، اور اگلے ہی دن ایک مضمون بعنوان 'پاگل سوشل میڈیا، فاشسٹ لبرلز اور کیپٹن صفدر' بھی شائع کیا۔ تیسری سٹوری ترجمان آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی شائع کی گئی۔
یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ:
٭ میڈیا ادارے کی ایک طے شدہ پالیسی ہوا کرتی ہے، مثلاََ کس قسم کے ایشوز کو کوریج دینی ہے؟ اور کتنی دینی ہے؟ کہاں کوریج کا بیک آؤٹ کرنا ہے؟
٭ ادارے کی پالیسی کے مخالف حکمران جماعت کے سربراہ کا بیان بھی بلیک آؤٹ ہو سکتا ہے تو کر دیا جائے، اور کوئی بھی کم تر عہدیدار آپ کی پالیسی کے مطابق بیان دے ، فوراََ قابلَ اشاعت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارچ 2017ء میں پنجاب یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں کے مابین تصادم ہوا، ایک صوبائی دارالحکومت میں سب سے بڑے یونیورسٹی میں ہنگامہ ہوا، یہاں پانچ افراد زخمی ہوئے۔ اس پر بی بی سی نے بھرپور کوریج دی۔ معاملہ ایک اسلامی اور لسانی طلبہ تنظیموں کے مابین تھا۔ دو ماہ بعد مئی2017ء میں اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ میں ایسا ہی تصادم ہوا۔ یہاں بی بی سی کی کوریج صفر رہی۔ واقعے کے بعد یونیورسٹی سے درجن بھر طلبہ کا اخراج کر دیا گیا۔ اکتوبر 2017ء میں تمام لسانی گروپس کی جانب سے دوبارہ ہنگامہ آرائی اور ہڑتال کی گئی جو سترہ دن جاری رہی۔ سترہ دن میں بی بی سی اردو کی کوئی سٹوری، تحقیقاتی رپورٹ اور کوریج اس سارے المیے پر سامنے نہیں آئی۔ 21 اکتوبر کو اس ایشو پر اسلام آباد انتظامیہ کا بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ کل سے یونیورسٹی کھول دی جائےگی۔ یہ اختتامی بیان بی بی سی اردو پر فورا رپورٹ ہوا، معا بعد ایک منٹ کی رپورٹ بھی اسی مسئلے پر سائٹ کی زینت بنائی گئی۔

اس قصہ چہار درویش میں نوٹ کرنے کے نکات یہ ہیں:
دلچسپ نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی جامعات ہیں، ایک میں معاملہ ایک دن پیش آتا ہے اور پانچ افراد زخمی ہوتے ہیں۔ یہاں بی بی سی کوریج کرتا ہے اور ایک طلبہ تنظیم کا نام لے کر ہر پہلو سے معاملے کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ ایک اسلامی تنظیم اور لسانی تنظیم کے مابین تھا۔ دوسری طرف وفاقی دارالحکومت کا پاکستان کا نمبر ایک تعلیمی ادارہ، ایک مرتبہ تیس افراد زخمی ہوتے ہیں، صفر کوریج۔ دوسری مرتبہ سترہ دن کی ہڑتال پر کوئی رپورٹنگ نہیں، بلیک آؤٹ۔ اب کے معاملہ دو لسانی اور سیکولر قوم پرست تنظیموں کے درمیان ہے، بی بی سی کے قارئین نہیں جانتے کہ یہ دو تنظیمیں کون ہیں!
یہاں آپ کو 'پالیسی میٹر' ڈھونڈنے کے لیے دوربین نہیں لانی پڑتی۔ یہ غیر اعلانیہ پالیسی ہے؛
٭ 'لسانی شناختوں کو ریاست کے خلاف ابھارا جائے گا لیکن ان کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کیا جائے گا'، یہ قائداعظم یونیورسٹی کے واقعے کی کوریج میں واضح ہے۔
٭ دوسری طرف چونکہ جامعہ پنجاب کے ہنگامے میں ایک اسلامی تنظیم شریک ہے، اس لیے یہاں پالیسی کا دوسرا پہلو 'اسلامی شناخت کو منفی رنگ میں پیش کیا جائے گا' لاگو ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2103ء میں برما میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کا نیا دور آغاز ہوا جس سوشل میڈیا پر شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ بی بی سی نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی، البتہ پاکستانی میڈیا نے کہیں کہیں اس کو کوریج دی۔ الیکٹرانک میڈیا کے ایک پروگرام میں بی بی سی اردو کے سربراہ عامر احمد خان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں برما کے ایشو کو کوریج نہیں دے رہے؟ جواب ملا "ہم ابھی تحقیقات کر رہے ہیں۔" یہ تحقیقات کبھی ختم نہ ہو سکیں۔ بعد میں لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے محققین نے 2014ء میں رپورٹ جاری کی کہ پچھلے سال برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کی منظم مہم چلائی گئی تھی۔ آج بھی بی بی سی اردو کے آرکائیوز میں آپ کو 2013ء میں برما کے حوالے سے کوئی تجزیہ نہیں ملے گا۔ کوئین میری یونیورسٹی کے محققین کی تحقیق اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے۔
http://statecrime.org/data/2015/10/ISCI-Rohingya-Report-PUBLISHED-VERSION.pdf

2017ء میں برما میں یہی معاملہ دوبارہ پیش آتا ہے اور بی بی سی بھرپور کوریج دیتی ہے۔ بظاہر یہاں ایک ادارے کی پالیسی خود ہی سے متضاد دکھتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔
آج جدید میڈیا کے دور میں خبروں کی دوڑ میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آپ کے مقابل چینلز یا ادارے ایک ایشو کو مستقل کوریج دے رہے ہوں، اور آپ اس سے مستقل بیک آؤٹ کیے رکھیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو آپ کو پڑھنے / دیکھنے والا دوسرے چینلز کی طرف متوجہ ہونے لگتا ہے۔ اس کی آپ کی طرف توجہ تبھی تک رہ سکےگی جب آپ ناظرین کو ایک حد تک یہ احساس دلائے رہیں گے کہ آپ غیر جانبدار ہیں! آپ ایک خبر کو مستقل نظر انداز کیے رکھیں گے تو لوگ آپ کو پہچان جائیں گے، اور آپ اپنے گاہک کھو دیں گے۔ عوامی زبان میں کہا جائے تو اپنی مرضی کا منجن تبھی بک سکے گا جب لوگوں کو کافی مانوس کر لیا جائے۔

یوں یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ برما کے ایشو پر بی بی سی اردو کی کوریج 2013ء میں صفر اور 2017ء میں بھرپور کیوں رہی۔ عالمی میڈیا اس ایشو کو بڑے اونچے سُروں میں اٹھا رہا تھا اور اب بلیک آؤٹ کرنے کا معنیٰ اپنی ساکھ داؤ پر لگانا تھا، چنانچہ بی بی سی اردو نے 'ظلم کی داستانیں' خوب اچھی طرح سنائیں۔

یہی اصول قائداعظم یونیورسٹی ہڑتال کے آخری روز کوریج پر بھی لاگو ہوتا ہے، پاکستان کے نجی میڈیا چینلز آخری دو دن سے مسلسل اس ایشو کو کوریج دے رہے تھے، بی بی سی کے لیے مزید خاموشی اس کے قارئین میں سوالات پیدا کر سکتی تھی، اس لیے بالکل آخری روز ایک آدھ سٹوری لگا کر ایشو کی فاتحہ پڑھ دی گئی۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا، بی بی سی نے کوریج نہیں دی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا اب ذرا قائداعظم یونیورسٹی کی بندش کے معاملے کا تقابل مفتی عبدالقوی کی قندیل بلوچ کیس میں گرفتاری سے بھی کر دیکھیں۔ سوچیں تو ذرا دونوں ایشوز میں کس کی شدت زیادہ ہے؟ ظاہر ہے یونیورسٹی دو ہفتے بند رہی۔ لیکن صاحبانِ بی بی سی کے لیے لازم ہوا کہ مفتی عبدالقوی پر توجہ دی جائے۔

کسی بھی ایشو کی اپنی حیثیت کچھ نہیں ہوتی۔ ہر ایشو ادارے کی پالیسی کے تحت 'اہم' یا 'غیر اہم' ہوتا ہے؛ کوئی بھی واقعہ کتنا اہم ہے، یا اس کو کس درجے کی اہمیت دینی ہے، یہ پالیسی طے کرتی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے واقعے میں بی بی سی کی پالیسی ہے کہ لسانی اور علاقائی گروہوں کی منفی صفات کو جتنا ہو سکے، پس پشت ڈالا جائے۔ دوسری طرف عبد القوی معاملے میں پالیسی کا دوسرا پہلو کار فرما ہے کہ جتنا ہو سکے، مذہبی شناخت کا ایک منفی تاثر ابھارنے کی کوشش کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برما میں کی جانے والی 'پیشہ وارانہ تحقیق' کا موازنہ 2009ء میں سوات کی کوڑے مارنے کی ویڈیو پر بی بی سی کی 'پیشہ وارانہ تحقیق' سے کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس معاملے میں شدید کنفیوژن کے باوجود بی بی سی اردو نے سٹوری شائع کی جس کا عنوان تھا: 'نوعمر لڑکی کو سرِعام کوڑے'۔ بعد میں سپریم کورٹ نے باقاعدہ اس ویڈیو کو جعلی قرار دے دیا۔ بی بی سی نے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ شائع نہ کیا، البتہ مذکورہ بالا سٹوری کا لنک ڈس ایبل کر دیا گیا۔ اسلام آباد کی رمشہ مسیح کے کیس میں جب ڈراپ سین ہوا، تو معاملہ امام مسجد اور خادم کے ساتھ ایک تیسرے شخص کی خار کا برآمد ہوا۔ یہاں بھی بی بی سی نے معاملے کو خوب اچھالا تھا لیکن عدالت میں برعکس ثابت ہونے پر صحافتی اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش ہم بی بی سی کے ہاں نہیں دیکھ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بی بی سی 'آزاد میڈیا' ہے اور 'آزاد میڈیا' غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ سرمایہ اور کچھ بنیادی اقدار مثلا آزادی، مساوات اور ترقی اس کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ پھر ہر میڈیا گروپ کی کچھ ترجیحات ہوتی ہیں، کچھ خاص ایشوز پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، (مفتی عبدالقوی؛ دو دن میں پانچ سٹوریاں) اور کچھ معاملات کا بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے، (ختم نبوت شق پر ترمیم ایشو)، اسی دوران اگر آپ کے 'عقیدے' کے مطابق کوئی سکوپ نکلتا ہو تو ساری ایشو کو اس کےگرد گھمانے کی کوشش کی جاتی ہے (کیپٹن صفدر کی تقریرپر کوریج)۔ اگر دوسرے ریٹنگ لے جا رہے ہوں تو آپ کا بلیک آؤٹ آپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، ایسی صورت میں 'بھرپور کوریج' دی جاتی ہے، (برما2017ء کی کوریج، قائداعظم یونیورسٹی ہڑتال)۔ اسی طرح اگر خاموشی کا ردِعمل آنے کا خدشہ ہو تو بھی ایک بڑے نقصان کے لیےکچھ وقت میں اپنی پالیسی کو نرم کر لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صرف ایک ہلکی سی جھلک ہے کہ واقعات و تجزیات میں کس قسم کے مواد کو کتنی جگہ دی جاتی ہے اور کیسے اپنی مرضی کا رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ 1941ء میں قائم ہونے والا ادارہ برٹش براد کاسٹنگ سروس سو سے زیادہ زبانوں میں اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔ دنیا میں رجحان سازی کا سب سے بڑا مرکز میڈیا ہے اور رجحان سازی ملکوں کو امور خارجہ میں کام آتی ہے۔ بی بی سی دنیا بھر میں مغربی فکر کی عملی صورتوں (آزادی، مساوات اور ترقی) اور برطانوی مفادات کے لیے ذہن سازی کرنے کی بنیادی پالیسی پر کاربند ہے۔ بی بی سی سائنسی بنیادوں پر استوار ہے اور اس کا صحافتی تجربہ طویل ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت مہارت کے ساتھ حقائق کو اپنے زاویے سے پیش کیا جاتا ہے۔ 7-2006ء میں جامعہ کراچی کے اساتذہ نے پاکستانی معاشرے کے 'بناؤ سنگھار' میں روزنامہ جنگ کے کردار پر ماہنامہ "ساحل" کا خصوصی نمبر شائع کیا تھا، آج وقت کا تقاضا ہے کہ ایسا ہی ایک تفصیلی تجزیہ بی بی سی اردو کے بارے میں کیا جائے۔

بی بی سی اردو؛ ایک تجزیہ - عبداللہ آدم - Daleel.Pk
 
یوں لگتا ہے ، برطانیہ بی بی سی کو ایک ٹول کے طور استعمال کرتا ہے، صحافتی محاذ پر ۔ جو خبریں پاکستان کے خلاف جاتی ہوں خصوصا انسانی حقوق کے مسائل
وغیرہ انہیں بہت زیادہ اجاگر کیا جاتا ہے ۔ اور یہ برطانوی نظریات کو ترویج بھی دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
یوں لگتا ہے ، برطانیہ بی بی سی کو ایک ٹول کے طور استعمال کرتا ہے، صحافتی محاذ پر ۔ جو خبریں پاکستان کے خلاف جاتی ہوں خصوصا انسانی حقوق کے مسائل
وغیرہ انہیں بہت زیادہ اجاگر کیا جاتا ہے ۔ اور یہ برطانوی نظریات کو ترویج بھی دیتے ہیں۔
یہ تو طے شدہ ہے۔ 150 سے زیادہ بچوں کی انتہائی دہشت گردانہ طریقے سے شہادت کو بی بی سی اردو، ڈان اور ایکسپریس ٹرائبیون نے کوریج نہیں دی۔ دراصل کسی بھی ملک کی ”ایلیٹ کلاس“ یا پاکستان کے تناظر میں شاہ کے وفاداروں اور ان کی نسلوں کی تربیت جن ذرائع سے ہوسکتی ہو اُن کو اپنے طے شدہ پالیسی کے تحت چلانا ایک آزمودہ طریقہ کار ہے۔
بی بی سی اردو اور ایکسپریس ٹرائبیون کے بورڈ اراکین تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے۔ یہ دراصل بلیک میل ہوئے ہوتے ہیں یا انتہائی حد تک تعصب کا شکار، لہذا ان جیسے پیشہ ورانہ گِدھوں کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
 
یہ تو طے شدہ ہے۔ 150 سے زیادہ بچوں کی انتہائی دہشت گردانہ طریقے سے شہادت کو بی بی سی اردو، ڈان اور ایکسپریس ٹرائبیون نے کوریج نہیں دی۔ دراصل کسی بھی ملک کی ”ایلیٹ کلاس“ یا پاکستان کے تناظر میں شاہ کے وفاداروں اور ان کی نسلوں کی تربیت جن ذرائع سے ہوسکتی ہو اُن کو اپنے طے شدہ پالیسی کے تحت چلانا ایک آزمودہ طریقہ کار ہے۔
بی بی سی اردو اور ایکسپریس ٹرائبیون کے بورڈ اراکین تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے۔ یہ دراصل بلیک میل ہوئے ہوتے ہیں یا انتہائی حد تک تعصب کا شکار، لہذا ان جیسے پیشہ ورانہ گِدھوں کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
میری رائے ہے کہ بی بی سی اردو جیسے اداروں کے ملازمین تنخواہدار ملازم کے طور پر اپنے پراپیگنڈہ مشن پر کام کرتے ہیں۔
 
ایک بات اور بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ بی بی سی اور برطانوی خفیہ ایجنسی کو فنڈز مہیا کرنے والا ادارہ ایک ہی ہے، یعنی برطانوی وزارت خارجہ ۔ دونوں ادارے ایک ہی پالیسی کے تحت چلتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں نا ،
دستور ہے کہ جس کا کھانا اسی کا گانا​
 

آصف اثر

معطل
آپ نے اپنا مقدمہ کافی مناسب انداز میں پیش کیا تھا اور اس کے بعد آپ نے آخری جملہ لکھ کر سارے مقدمے پر پانی پھیر دیا۔
مجھے یقین ہے آپ زرد صحافت کے ان شاہسواروں کو مستقل نہیں پڑھتے اس لیے میں آپ اور دیگر احباب سے اتفاق کروں گا۔
پاکستانی فوج اور اِس کے ہم نوا دیگر عناصر کی جانب سے وزیرستان، باجوڑ اور دیگر پختون قبائل پر جو بہیمانہ اور ناقابلِ تصور تشدد اور ظلم کیا گیا اور پختونوں کے سادہ اور پاک نیت بزرگوں کی عزت و مرتبے سمیت چادر وچاردیواری کی عصمتوں کو جس طرح پامال کیا گیا میں بذاتِ خود اس کے خلاف اُٹھنے والی پختون تحفظ مومنٹ کا حامی ہوں۔ مظالم کے یہ پہاڑ ڈھاتے وقت اور بربریت کی یہ داستان رقم کرتے وقت نہ تو بی بی سی اور نہ ہی اس قبیل کے دیگر میڈیا چینلوں اور ذرائع اِبلاغ نے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا۔ اب جب پختون نوجوان، اداروں سے جواب مانگنے اور احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں، یہ عناصر اس کو کیش کرنے میں لگے ہیں۔
اگرچہ سیکولر میڈیا کی جانب سے پی ٹی ایم کو دی جانے والی اس کوریج پر مجھے خوشی ہے لیکن جس انداز سے یہ سیکولر میڈیا اس مسئلے کو کوریج دے رہاہے وہ اِن کی درجہ بالا پالیسی پر مہرتصدیق ہے۔ یہ سیاہ رُو ہمارے معاشرے اور پیشہ ورانہ شعبوں پر ایک بدنُما داغ ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مجھے یقین ہے آپ زرد صحافت کے ان شاہسواروں کو مستقل نہیں پڑھتے اس لیے میں آپ اور دیگر احباب سے اتفاق کروں گا۔
پاکستانی فوج اور اِس کے ہم نوا دیگر عناصر کی جانب سے وزیرستان، باجوڑ اور دیگر پختون قبائل پر جو بہیمانہ اور ناقابلِ تصور تشدد اور ظلم کیا گیا اور پختونوں کے سادہ اور پاک نیت بزرگوں کی عزت و مرتبے سمیت چادر وچاردیواری کی عصمتوں کو جس طرح پامال کیا گیا میں بذاتِ خود اس کے خلاف اُٹھنے والی پختون تحفظ مومنٹ کا حامی ہوں۔ مظالم کے یہ پہاڑ ڈھاتے وقت اور بربریت کی یہ داستان رقم کرتے وقت نہ تو بی بی سی اور نہ ہی اس قبیل کے دیگر میڈیا چینلوں اور ذرائع اِبلاغ نے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا۔ اب جب پختون نوجوان، اداروں سے جواب مانگنے اور احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں، یہ عناصر اس کو کیش کرنے میں لگے ہیں۔
اگرچہ سیکولر میڈیا کی جانب سے پی ٹی ایم کو دی جانے والی اس کوریج پر مجھے خوشی ہے لیکن جس انداز سے یہ سیکولر میڈیا اس مسئلے کو کوریج دے رہاہے وہ اِن کی درجہ بالا پالیسی پر مہرتصدیق ہے۔ یہ سیاہ رُو ہمارے معاشرے اور پیشہ ورانہ شعبوں پر ایک بدنُما داغ ہے۔
آپ اپنا موقف بطریق احسن پیش کرتے رہیں گے تو ہمیں خوشی ہو گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تجزیہ پیش کرنے کا بہت شکریہ۔
ذرائع ابلاغ سے آپ سچ سننے کی توقع نہ رکھیے یہ بی بی سی وغیرھم پروپگنڈا کے ذرائع ہیں اور ایک خاص رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
بی بی سی= جھوٹ مکر اور فریب کا بنا ہوا جال
 
آخری تدوین:
Top