یہ تو آپ نے ڈھیر لگا دیا عبد الرحمٰن صاحب۔
اصل میں ایک چیز ہوتی ہے موزونیت۔ جب کسی کے کلام میں ہوتی ہے، تو کچھ اشعار بحر میں خود بخود آ جاتے ہیں، اس صورت میں اصلاح کی آسانی رہتی ہے۔ آپ کی غزلوں پر اسی لئے اب تک کوئی رائے بھی نہیں دی تھی کہ شک ہوا تھا کہ آپ کے پاس اسی عنصر کی کمی ہے۔آپ کے پاس خیالات تو ہیں، خوب بھی اور وافر بھی۔ شاید آپ نے اساتذہ کا کلام نہیں پڑھا ہے، محض خود ہی کہتے رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ پڑھئے بھی، تو بحر و اوزان کا احساس ہو جائے گا، عروض کے با قاعدہ علم کی ضرورت نہیں۔ با قاعدہ علم تو خدا گواہ، میرے پاس بھی نہیں ہے، لیکن خاصے اعتماد سے اصلاح کرتا رہتا ہوں۔
اس وقت پہلی بات یہ کہوں گا کہ قوافی پر غور کیا کریں۔
دیکھیں، ایک غزل میں آپ نے ’چمکا‘ اور ’بکا‘ قوافی بنائے ہیں۔ چمکا میں دیکھیں دو طویل آوازیں ہیں، جب کہ ’بکا‘ میں پہلے چھوٹی آواز ہے، اور پھر لمبی۔ 2 2 اور 2 1۔ یہ دونوں قوافی نہیں ہو سکتے۔ ان میں کچھ تو یکسانیت ہونی چاہئے نا۔
بہت بہت شکریہ الف عین جی، !!!!!
آپ نے جو کچھ بھی کہا ھے میں بالکل اس سے اتفاق کرتا ھوں، اور مجھے خوشی ھوگی کہ میں گاھے بگاھے آپکو مزید اصلاح کیلئے تکلیف دیتا رھوں گا، اس کے علاوہ مجھے امید ھے کہ آپ میرے لئے اس وقت یہ چند میرے ساتھ گزرے ھوئے لمحات کو اپنا کچھ قیمتی وقت دیں گے،!!!!
میں نے تو کئی دفعہ آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن بد قسمتی یہ کہ آپ سے ملاقات نہ ھوسکی، اگر آپ میری اپنی سوانح عمری پڑھیں جو خود اپنے ھی ٹوٹے پھوٹے الفاط کو جوڑ توڑ کر لکھی ھے، اسے میں نے اسی فورم میں "آپکی تحریریں میں" "بھولی بسری یادیں" کے نام سے لکھا ھے،!!!!
اس سے شاید آپکو اندازہ ھو جائے کہ میرے ساتھ کیسے حالات گزرے، جس کی وجہ سے میرے اس اردو ادب کے شوق کو 35 سال سے بھی زیادہ عرصے تک بالائے طاق رکھنا پڑا، یعنی 1972 سے لیکر 2007 تک،!!!
مختصر یہ کہ یہ شوق مجھے بچپن سے تھا، جو بچوں کے اخبار رسالوں تک محدود تھا اور اپنی تک بندی کے ساتھ اپنی عمر کی حیثیت کے مطابق لکھتا رھا، 17 سال کی عمر میں کچھ بہتر روانی بھی آگئی تھی اور کالج کے رسالوں میں بھی اپنی قسمت آزمائی اور جسے بہت سراھا گیا، افسانے گیت اور غزل کئی لکھے،!!!! 22 سال کی عمر تک پہنچنے تک اچھا خاصا لکھنے لگا تھا، اور مجھے تمام مانے ھوئے شعراء کا کلام اور مانے ھوئے ادیبوں کے ناول اور افسانے بہت ھی شوق سے پڑھتا تھا، یہ تین سال میں میں نے اپنی پوری کوشش کی کسی حد تک اپنی منزل کو پالوں، پینٹنگ اور مصوری سے بھی لگاؤ تھا، ایک پینٹنگ اور آرٹس کی دکان بھی ایک سال تک کامیابی سے چلائی وہاں پر ھمارے علاقے کے اچھے لکھنے پڑھنے والوں کی اسی دوران ایک بیٹھک بھی رھی، اور ساتھ ھی کچھ شوقیہ اسٹیج شوز بھی کئے، اس کے علاوہ مکالمات اور اسکرین پلے بھی کئی لوگوں کے لئے لکھے بھی،!!!!!!!!!
لیکن افسوس میں اسے چند ناگزیر معاشی حالات کی وجہ سے اور والدین کی حکم کی وجہ سے مجھے سارے شوق کو ایک طرف کردیا یعنی بالکل ختم کرنا پڑا، اور جذبات میں آکر اپنی ساری پینٹنگز، شاھکار البم، آخبارات رسائل، کے ٹکڑے، جو بھی میرے پاس اپنے لکھے ھوئے مسودے تھے وہ میں نے ایک میدان میں لے جاکر آگ لگا دیا، اور قسم کھا لی اور مجھے اپنے تمام شوق کو اپنے والدین کے حکم کے آگے قربان کرنا پڑا!!!!
1972 سے لے کر 2007 تک یعنی تقریباً 35 سال سے بھی زیادہ عرصہ تک والدین کی خواھش پر اپنے مستقبل کا رخ حساب کتاب یعنی اکاونٹس کی طرف منتقل کردیا، یہ 35 سال کا وقفہ میرے لئے اردو ادب اور شاعری کیلئے ایک بہت بڑا خلا تھا، جس کو پر تو نہیں کر سکا لیکن ایک بہترین چیف اکاونٹنٹ ضرور بن گیا، اور اب تین سال پہلے سے مزید ترقی پاکر مینیجر کے عہدہ پر فائز ھوں، یعنی تقریباً 40 سال کے اکاونٹس کی فیلڈ میں گزارے اور اپنے والدین کا ایک خواب تو پورا کیا، جبکہ میں اپنے لڑکپن میں نافرمانبردار اولاد کہاتا تھا، آج مجھے کم از کم اس پات کی خوشی ھے، والد صاحب تو اب اس دنیا میں نہیں ھیں لیکن مجھے ایک سکون قلب ضرور ھے کہ ان کی روح مجھے دیکھ کر اب خوش ضرور ھوتی ھوگی کہ میں نے ان کے کہنے پر اپنی منزل بدل دی اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی،!!!!!
عرصہ 35 سال کے وقفہ کے بعد بس میرے دل میں ایک اچانک میرے پرانے شوق نے ایک کروٹ لی اور میری نظروں کے سامنے میرے کمپیوٹر پر انٹر نیٹ پر ایک اردو کی ویب سائٹ ھاتھ لگ گئی، جس سے میرے اندر میرا بچپن کا شوق دوبارا سے جاگ اٹھا، اور بس اسی دن سے میں نے فی البدیعہ براہ راست کی بورڈ پر ٹائپ کرنا شروع کردیا، جس کا میں نے اپنے پاس کوئی بھی سی ڈی یا کوئی بھی مسودہ محفوظ نہیں کیا اور نہ ھی کسی استاد کی مدد لی، بس جو ذہن میں آتا ھے ٹائپ کرتا چلا جاتا ھوں، اب 60 سال کے لپیٹے میں ھوں اب کیا کسی سے سیکھنا اور کیا کسی ادبی محفل میں شرکت کرنا، اب ویسے بھی اتنی مصروفیات ھیں کہ کچھ وقت بھی نہیں نکال سکتا،!!!!
میں اردو ادب میں کسی کو استاد تو نہیں بنا سکا، لیکن ھاں اس بات کی خوشی ھے کہ اپنی اس اکاونٹنگ فیلڈ میں تقریباً 100 سے زیادہ شاگردوں کو انکی صحیح منزل میں پہنچانے میں کامیاب رھا ھوں، آج مجھے خوشی ھوتی ھے کہ میرے تمام شاگرد مجھ سے بھی بہتر عہدوں پر فائز ھیں، جسے میں سمجھتا ھوں کہ یہی میرا انعام ھے، اور اب میں جس شہر میں بھی جاتا ھوں اور وہاں مجھے اپنے شاگردوں سے ملنے کوئی مشکل نہیں آتی اور میرا سنتے ھی مجھے دوڑے ھوئے لینے آجاتے ھیں کہ گھر چلئے اور ھمیں کچھ آپکی خدمت کا موقعہ دیجئے، اور سب اپنی مرضی سے آپس میں میرے دعوت کے لئے دن مقرر کرلیتے ھیں، کبھی کبھی تو میری درخواست پر سب ایک جگہ بھی جمع ھوجاتے ھیں اور مجھے بہت عزت دیتے ھیں،!!!!
آج بھی میرا ایک دوسرے ملک کے شہر میں کمپنی کی طرف سے ایک کام کے سلسلہ میں آیا ھوں جہاں پر اسی فیلڈ میں نئے لڑکوں کو ٹریننگ کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ھے، اور آج کل مجھے اسی کام کیلئے کمپنی نے مجھے نئے لڑکوں کو کام سکھانے اور تربیت پر معمور کیا ھوا ھے،اور یہاں بھی مجھے میرے شاگردوں نے ڈھونڈ نکالا، جو مختلف اداروں میں بہت ھی اھم عہدوں پر فائز ھیں، اور وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور خوب عزت سے میری خاطر مدارات کی، یہ سب اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھے، کہ مجھے اس نے اس فیلڈ میں بہت عزت بخشی، حالانکہ میں اس کے قابل نہیں ھوں،!!!
میرا یہاں یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ نہیں ھے کہ میں کوئی اپنی بڑائی کررھا ھوں، بڑی تو صرف اللٌہ تعالیٰ کی ذات ھے، ھم تو بس اس کے گنہگار بندے ھیں، وہ جس حال میں بھی رکھے اس کا لاکھ لاکھ شکر ھے، بس میں یہ چاھتا ھوں کہ میں اپنا یہ پیغام آپکے توسط سے سب تک پہنچادوں کہ ھمیں اللٌہ تعالٰی نے جو بھی علم و ھنر دیا ھے اس کو بالکل دیانتداری کے ساتھ دوسروں میں منتقل کرنا چاھئے، چاھے وہ کوئی ھمارا مخالف ھی کیوں نہ ھو،!!!!
میں نے آپکا اور دوسرے پڑھنے والے قارئین کا کافی قیمتی وقت لے لیا، جس کے لئے معذرت چاھتا ھوں، بس اب تو میری کچھ عادت سی بن گئی ھے کہ جہاں بھی مجھے موقعہ ملتا ھے، بس شروع ھوجاتا ھوں، چاھے نثر میں ھو یا کوئی شاعری کی صورت میں ھو، بس بغیر کسی اصلاح اور قطع برید کے لکھتا چلا جاتا ھوں،!!!!
مگر اس کا مطلب یہ نہیں ھے کہ اپنی فیلڈ میں بھی کچھ زیادہ جانتا ھوں، اپنے استادوں سے جو کچھ بھی میں نے سیکھا ھے وہ میں ھمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ھوں، جو کہ میرا فرض بھی ھے، ویسے بس ھم تو ابھی بھی طفل مکتب ھیں آپ جیسے ماھر ادیب اور شعراء کی مدد سے جب بھی مجھے موقع ملے گا کچھ نہ کچھ اپنی اصلاح کرتا رھوں گا، جب تک زندگی نے میرے ساتھ وفا کی۔ کیونکہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ھوتی اور انسان اپنی غلطیوب سے بھی بہت کچھ سیکھتا ھے،!!!!
میری کسی بات سے کسی کو دکھ یا رنج ھوا ھو تو میں دست بستہ معافی کا خواست گار ھوں،!!!!
اجازت چاھوں گا، اللٌہ حافظ،!!!